Saturday 26 April 2014

(Tomat Ka Anjam) تہمت کا انجام

Osama Shoaib Alig
Research Scholar, Jamia Millia  Islamia
New-Delhi

مدینہ میں ایک حمام تھا۔جس میں مردہ عورتوں کو نہلایا جاتا تھا اور ان کی تجہیز وتدفین کی جاتی تھی۔ایک مرتبہ اس میں ایک خاتون جن کا انتقال ہو چکا تھا،نہلانے کے لیے لایا گیا۔اس کو غسل دیا جارہا تھاکہ ایک عورت نے اس مردہ خاتون کو بر ابھلا کہتے ہوئے اس کی کمر کے نیچے ایک تھپڑ مارا۔لیکن اس کا ہاتھ جہاں اس نے  مارا تھا وہیں چپک گیا۔عورتوں نے بہت کوشش اور تدابیر کی لیکن ہاتھ الگ نہ ہوسکا۔بات پورے شہر میں پھیل گئی۔مردہ کو دفن کرنا بھی ضروری تھا۔اس کے لواحقین بھی پریشان ہوگئے۔معاملہ شہر کے والی اور حاکم تک پہنچ گیا۔انہوں نے فقہاسے مشورہ کیا۔بعض نے رائے دی کہ اس زندہ عورت کا ہاتھ کاٹ کر الگ کیا جائے۔کچھ کی رائے یہ بنی کہ مردہ عورت کے جس حصہ سے اس زندہ خاتون کا ہاتھ چپکا ہے،اتنے حصہ کو کاٹ لیا جائے۔کچھ کا کہنا تھا کہ مردہ کی بے عزتی نہیں کی جاسکتی ہے۔ایک فقیہ کے سامنے پورا معاملہ پیش کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ نہ تو زندہ عورت کا ہاتھ کاٹا جائے اورنہ ہی مردہ عورت کے جسم کا کوئی حصہ الگ کیا جائے۔میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ مردہ عورت پر اس زندہ خاتون نے جو الزام اور تہمت لگائی ہے وہ اس کا بدلہ اور قصاص طلب کر رہی ہے۔لہٰذا اس الزام لگانے والی عورت کو شرعی حد سے گزارا جائے۔چنانچہ شرعی حد جو تہمت لگانے کی ہے یعنی 80 کوڑے اسے مارنے شروع کیے گئے۔ایک دو،دس،بیس،پچاس،ساٹھ،ستر بلکہ اناسی(79) کوڑوں تک اس زندہ خاتون کا ہاتھ مردہ عورت کے جسم کے نچلے حصہ سے چپکا رہا۔جیسے ہی آخری کوڑا مارا گیا۔اس کا ہاتھ مردہ عورت کے جسم سے الگ ہوگیا۔(بحوالہ بستان المحدثین للشاہ عبدالعزیز دہلوی،ص25)

No comments:

Post a Comment