Friday 11 April 2014

(Ahd-e-Abbasi Me Uloom-o Funun Ka Irteqa- Ek Mutala) عہدِ عباسی میں علوم و فنون کا ارتقاء-ایک مطالعہ

Osama Shaoaib Alig
Research Scholar, Jamia Millia Islamia
اسلام نے شروع ہی سے علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتےہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی پہلی آیت جو نبی کریمﷺ پر نازل کی ،اس کی شروعات علم سے ہوتی ہے:
اقرا باسم ربک الذی خلق۔خلق الانسان من علق۔ اقرا و ربک الاکرم۔الذی علم بالقلم ۔علم الانسان ما لم یعلم(العلق:1،5)
پڑھو(اے نبی )اپنے رب کی نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا،جمے ہوئے خون کی ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔پڑھو،اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کی ذریعہ سے علم سکھایا،انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا
مختلف احادیث میں بھی علم حاصل کرنے اور اس کو پھیلانے کی تاکید کی گئی ہے۔حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
علم حاصل کرنا ہر مسلمان مر داور عورت پر فرض ہے“(ابن ماجہ:224)
یہاں علم سے مراد صرف حلال و حرام یعنی علوم شرعیہ ہی نہیں ہے،بلکہ ہر وہ علم ہے جس کی ذریعہ انسان اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کر سکے، جس کی لیے اسے زمین کا خلیفہ بنا یا گیا ہے۔
نبی کریم کی بعثت کے وقت کل 17لوگ ہی مکہ مکرمہ میں پڑھنا لکھنا جانتے تھے ۔اسی لیے آپ نے شروع ہی سے اس پر توجہ دی ۔غزوات میں جب عربوں کی ایسی جماعت گرفتار ہوئی جو لکھنا پڑھنا جانتی تھی تو ان کا فدیہ ہی یہی ہوتا تھا کہ وہ دس مسلمانوں کو تعلیم دیں۔ آپ کی اس خصوصی توجہ سے صحابہ کرام میں تعلیم حاصل کرنی کا جذبہ پیدا ہوا ۔اس کو خلفاءراشدین نے مزید آگے بڑھایا ۔(بلاذری :انساب الاشراف)۔
اسلام کے آغاز میں صرف دینی و شرعی علوم ہی مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بن سکا، لیکن جب اسلامی حکومت وسیع ہوئی اور اموی دور(750-661)شروع ہوا تو علوم عقلیہ و نقلیہ دونوں طرف بھرپور توجہ دی گئی۔اس کے بعد عباسی حکومت (1258-750)ابوالعباس السفاح کے ذریعہ قائم ہوئی، جس میں کل اکیس(21) خلیفہ ہوئے ۔ اس کا خاتمہ 1258ء میں تاتاریوں کےہاتھوں ہوا۔اس دور میں علمی و تعلیمی تحریک اپنےعروج پر پہنچ گئی۔ جرجی زیدان نے اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:
عہدِ عباسی اسلام کا وہ عہدِ زریں ہے جس میں مسلمانوں کی سلطنت، دولت و ثروت،تہذیب وتمدن اور سیاست و حکمرانی کے اعتبار سے عروج پر پہنچ گئی تھی۔اس میں بیشتر اسلامی علوم نشو نما پائے اور اہم داخلی علوم کو عربی زبان میں منتقل کیا گیا“(عبدالرحمان الانباری، نزہة الالباءفی طبقات الادبا، مصرص72)
عہدِ عباسی میں مسلمانوں نے اپنے علم و فن کو توسیکھا ہی ہے،ساتھ دنیا کے دوسرے اہم علوم وفنون میں بھی مہارت حاصل کی ۔یونانی،سریانی،سنسکرت اور فارسی کتابوں کےعربی میں بہ کثرت ترجمہ کیے گئے۔اس دور میں تصنیف وتالیف کی دو بڑی وجہ تھی:
اول یہ کہ علماءکرام اور مصنفین و محققین کو عباسی حکمرانوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ان کو اتنا مال و دولت سے نوازاجاتا تھا کہ انہیں  ذریعہ معاش کی طرف سے بے فکری رہتی تھی۔ترجمہ کرنے والوں کو ترجمہ کی ہوئی کتاب کے وزن کے برابر سونا یا چاندی دےکر حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔
دوم یہ کہ مسلمان اس وقت کاغذ بنانے کے فن سے واقف ہو گئے تھے۔یہ فن انہوں نے ان چینی قیدیوں سےسیکھاتھاجوبنو امیہ کے دور میں سمرقند کی فتح کے دوران 704ھ میں گرفتار ہوئے تھے۔ اس سے پہلے کتابوں، جھلیوں، کھالوں اور پتیوں وغیرہ پر لکھا جاتا تھا،جس میں خرچ زیادہ آتا تھا اور وہ محفوظ بھی نہیں رہتی تھیں۔
عباسی دور میں یوں تو تقریباً تمام ہی خلفاءنے علوم و فنون کی سرپرستی کی،لیکن ابوجعفر منصور، ہارون رشید اور مامون رشید نے اس پر خصوصی توجہ دی۔
خلیفہ منصور نے بغداد شہر بسایا جو علوم و فنون اور تہذیب و تمدن میں دنیا کا سب سے بڑا مرکز بن گیا تھا۔یہاں دور دراز سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ اس کے علاوہ دوسرے بڑے علوم و فنون کی مراکز بصرہ، کوفہ ، فسطاط، قیروان، رے، نیشاپور،مرو اور بخارا تھے۔
عباسی دور میں جن علوم و فنون کا ارتقا ہوا اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1:دینی علوم
قرآن کریم
اس پر عہدِ نبوی، عہدِخلفا راشدین اوراموی دور میں کام مکمل ہو چکا تھاتو اس میں کچھ کرنے کو باقی نہ تھا۔البتہ اس دورمیں قرآنی آیات کو مختلف طرح سے،دلکش انداز میں نقش و نگار کے ساتھ لکھے جانے کے فن کو فروغ دیا گیا۔
علمِ قرات
عہدِ عباسی میں اس فن پر خصوصی توجہ دی گئی اورقرّاءسبعہ(امام عبد اللہ بن کثیر عامربن یزید دمشقی(م736)،امام عبد اللہ بن کثیر مکّی (م738)،امام عاصم بن ابی النجود کوفی(م744)،امام ابو عمرو بن العلاءبصری(م771)،امام حمزہ بن حبیب زیات کوفی (م 77 4)،امام نافع بن ابی نعیم مدنی(786)،امام علی بن حمزہ کسائی کوفی(م805)۔(ان میں سے چار موخر الذکر نے عباسی دور پایا تھا)نے اس میں قابلِ قدر خدمات انجام دیں،پھر ان کے شاگردوں نے اس موضوع پر مختلف کتابیں لکھیں،جس میں کتاب النھایة(محمدبن الجزری م1429)بہت مشہورہوئے۔دوسرےمصنفین میں”حافظ ذہبی(م1347)،محمدبن الجزری (م1429) ابو عمرو عثمان الدانی(م1052)،خلف بن ہشام،ابن کامل،ابو بکر طاہر، ابوبکرالنقاش ،ابوبکر بن الحسن، “وغیرہ مشہور ہوئے۔
علمِ تجوید
قرآن کریم کو اس کے صحیح مخرج اور خوش کن آواز میں پڑھنا تجوید کہلاتا ہے۔عباسی دور میں اس پر خصوصی توجہ دی گئی اور اس پر کتابیں بھی لکھی گئیں۔ اس فن پر سب سے پہلی کتاب موسیٰ بن عبیداللہ خاقانی بغدادی(م937)نے لکھی ۔
علمِ تفسیر:
یہ ایک ایسا علم ہے جس کی مدد سے قرآن کے معنیٰ و مفہوم کو سمجھا جاتا ہے اور اس کے احکام و مسائل اور اسرار و حکم سے بحث کی جاتی ہے“۔عباسی دور میں اس پر خصوصی توجہ دی گئی اور کثیر تعداد میں تفسیریں لکھی گئیں۔تمام مفسرین نے اپنے اپنے علم و فن کی لحاظ سے قرآن کی تفسیر کی،مثلاً تفسیرِ ماثورہ،تفسیر بالراے اورتفسیر الفقہاء وغیرہ۔ان میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں:
تفیسرِطبری(محمدبن جریر،م923)،تفسیرامام ثعلبی(م1036)،تفسیر سفیان بن عینیہ(م814)،تفسیرعبدالرزاق (م826)، تفسیر شعبہ بن حجاج(م777)،تفسیر ابن مردویہ(م1019)،تفسیر مفاتیح الغیب(امام رازی م 1210) وغیرہ۔
علم ِحدیث
حدیث کے لغوی معنیٰ بات،کلام،بیان اور اظہار کے آتے ہیں ۔اصطلاح میں نبیِ کریم ﷺ کے اقوال،افعال،تقریرات اور صفات کو حدیث کہتے ہیں ۔عہدِ عباسی میں احادیث کی جمع و تدوین، تہذیب و تصحیح کا عظیم ترین کام ہوا۔ صحاحِ ستہ یعنی صحیح بخاری(ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل ،م 870)،صحیح مسلم(مسلم بن حجاج قشیری،م875)،سنن ابی داود(سلیمان بن اشعث،م888)،جامع ترمذی(ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ،م 892)،سنن نسائی(احمد بن شعیب،م916)سنن ابن ماجہ(محمد بن یزید،م888)اسی دورمیں لکھی گئیں۔اس کے علاوہ احادیث کی مشہور کتابوں میں سنن دارقطنی(ابوالحسن علی بن عمر، م995)صحیح ابن خزیمہ(محمد بن اسحاق،م923)،مستدرک حاکم(امام حاکم ابوعبداللہ،م 1015)،مسند خوارزمی (امام ابو بکر احمد بن محمد برقانی،م1034)وغیرہ کا نام آتا ہے۔
علم فقہ 
علم فقہ وہ علم ہے جس میں تفصیلی دلائل کے ذریعہ احکام شرعیہ کو سمجھا جاتا ہے،بحث کی جاتی ہے اور قوانین اخذ کیےجاتے ہیں۔علم فقہ کی باضابطہ تدوین ترویج بھی عباسی دور کا کارنامہ ہے ۔فقہ کے چاروں مدارس یعنی فقہ حنفی(امام ابو حنیفہؒ،767-699)،فقہ مالکی(امام مالکؒ،795-715)،فقہ شافعی(امام شافعی،ؒ830-767)،فقہ حنبلی(امام احمد بن حنبلؒ ، 855-780)اسی عہدمیں وجودمیں آئے۔ ان کے علاوہ فقہ جعفری (امام جعفر صادق،148-80ھ)بھی اسی زمانے میں مدون ہوئی۔
فقہ حنفی کو فروغ دینے میں امام ابوحنیفہ کے شاگرد قاضی ابویوسف(183-113ھ)اور امام محمد بن حسن شیبانی (189-133ھ) کا اہم کردار رہا۔امام محمد قانون بین الممالک کے بانی اول سمجھے جاتے تھے۔فقہ مالکی کی سب سے اہم کتاب ’مدونہ‘ہے ،جس کو اسد بن فرات(م213ھ)اورامام محمد بن سحنون(م870)نے مرتب کیا تھا۔ امام شافعی کی مشہور کتاب ’کتاب الام‘ اور ’الرسالہ‘ہے۔ امام احمد بن حنبل نے’مسند‘کے نام سے حدیث کی ایک بڑی ضخیم کتاب لکھی ۔
فقہ کی دوسری اہم کتابوں میں”مختصر القدوری(احمد بن محمد قدروی،م1037)، کتاب الہدایہ(امام علی بن علی ابی بکر فرغانی، م 1197)،شرح الجامع الکبرق(امام بلخی،م1219)،الحاوی(ابوالحسن علی الماوردی،م1058)،احیاءعلوم الدین،کتاب الوجیز ، الوسیط ، البسیط،اختصارالمختصر(امام غزالی م1111)،ریاض الصالحین(امام نووی،م1277)،المغنی فی شرح الخرقی(امام ابن قدامہ،م 1223)“وغیرہ بہت مشہور ہوئں ۔
سیرت اور تاریخ
مسلمانوں نے پہلےسیرت النبی پر لکھنا شروع کیا ،اس سے سیرت نگاری کو فروغ ملا۔سیرت اور مغازی دونوں ایک دوسری سے جڑی ہوئی ہیں ،تو ساتھ ہی ساتھ مغازی کو بھی بڑھاوا ملا ۔پھر یہی سے تاریخ نگاری کا آغاز ہوا۔
عباسی دورمیں مورخین نے تاریخ کا دائرہ بہت وسیع کر دیا تھا۔اس میں خلفاءکی تاریخیں،فتوحات،شکست،وزرا،امرا، شرفا، ادبا، شعراء اور لوگوں کے پیشوں وغیرہ کو بھی شامل کیا۔ان پر کثیرتعداد میں کتابیں لکھی گئیں ۔ ان میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں۔
سب سے پہلے ابن جریر طبری(923-839)نے چودہ جلدوں پرمشتمل تاریخ پر کتاب لکھی،جس میں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے لے کر اپنے زمانے تک کے تین سو برس کے حالات تفصیل سے بیان کیےہیں ۔
٭السیرة النبویة(ابن ہشام، م824)اس میں انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالات زندگی کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
٭طبقات (ابن سعد،م845)، اس میں نبی ،صحابہ کرام اور تابعین کے حالات لکھے گئے ہیں۔
٭ فتوح البلدان(بلاذری،م892)نے لکھا،جس میں حضرت عمرؓ کے زمانے کی فتوحات،اندلس،وسط ایشیا اور سندھ وغیرہ کی فتوحات کا حال ذکر کیاہے۔
٭مروج الذہب(مسعودی م956)نے جو کہ ایک بڑے جغرافیہ داں اور سیاح تھے،انہوں نے یہ کتاب لکھی جس سے ہمارے سامنے چوتھی صدی ہجری کے حالات مکمل طورپر واضح ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔
ان کے علاوہ سیرت اور تاریخ پر ”کتاب المغازی(موسیٰ بن عقبہ،م758)،انساب الاشراف (بلاذری ،م892)،تاریخ الرسل والملوک(طبری،م923)،کتاب المعارف(ابن قطیبہ دینوری،م889)،کتاب الاوراق(الصولی،م947)، تجارب الامم وتعاقب الہمم(ابن مسکویہ،م1030)،تاریخ دمشق(ابن عساکر،م1176)،وفاوت الاعیان(ابن خلکان،م1282)،ارشادالالباب الی المعرفت الادباء(یاقوت حموی،م1229)،فتوح مصرو اخبارہ(ابن عبدالحکم مصری،م 871)، کتاب العبر و دیوان المبتداو الخبر فی ایام العرب و العجم و البربر(ابن خلدون،م1406)،اخبار ا لمغفّلین، کتاب الاذکیا(ابن الجوزی،م1201)، اخبار الاجواد، البخلاءاورقتلی القرآن“وغیرہ اہم کتابیں ہیں ۔
علم الکلام
اسلامی حکومت کے وسیع ہونے اور غیرعرب قوموں کے اسلام لانے کی وجہ سے نئے تہذیب و تمدن کا آغاز ہوا،ساتھ ہی عبرانی ویونانی اور دوسری زبانوںمیں موجود کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا،جس سے مسلمانوں کے اندر غیراسلامی خیالات پھیلنا شروع ہوئے۔اسی سے علم الکلام کا آغاز ہوا۔
علم الکلام کی بنیاد امام ابوالحسن الاشعری(936-873)نے ڈالی ۔ ان کی کتاب ’الابانہ اور مقالات الاسلامیین‘بہت مشہور ہوئی۔اس کے علاوہ اس موضوع پردوسری مشہور کتابوں میں”کشف الاسرار،دقائق الکلام اور کتاب التمہید(قاضی ابوبکر باقلانی)،کتاب الشامل ، کتاب الارشاد(عبداللہ بن یوسف ابوالمعالی،م1085ء)،تہافة الفلاسفہ،احیاءالعلوم الدین،معالرالعلوم،الجام العوام(امام غزالی ، م1111)کتاب التوحید،کتاب الجدل،کتاب المقالات(ابومنصورمحمدبن محمد،م945)،فی السیرةالفاضلہ،کتاب الشکوک و المناقصات (محمد بن زکریا رازی،م854)، تہذیب الاخلاق،الفوز الاکبر، الفوز الاصغر(ابن مسکویہ ، م 1030)“وغیرہ کا نام آتا ہے۔
علمِ فلسفہ
فلسفہ کا آغازعہدِ عباسی میں مامون رشید کے دور سے قیصرِ روم کے ذریعہ بھیجی گئی یونانی کتابوں کے عربی ترجموں سے ہوتا ہے ۔ارسطو اور افلاطون کے زیادہ ترجمے ہوئے ۔
فلسفہ میں یعقوب کندی،م 873ء(کتاب الفلسفة الاولیٰ فی مادون الطبیعیات و التوحید،جواہرِ خمسہ اور سلسلہ علل)اور ابو نصر الفارابی ، م 950(سیاسة المدنیة)نےسب سےزیادہ شہرت حاصل کی۔اس کااندازہ اس بات سےلگایاجاسکتا ہےکہ کندی کو’پہلاعرب فلسفی ‘ اورفارابی کو’معلم ثانی ‘کا خطاب دیا گیا۔ان کے علاوہ دوسرے اہم فلسفیوں میں”ابن سینا(کتاب الشفا،کتاب الاشارات و التنبیھات ) ،امام غزالی(مقاصد الفلاسفہ،تہافة الفلاسفہ،احیاءعلوم الدین)“وغیرہ کا نام آتا ہے۔
2:عصری علوم
عباسی دور میں دینی علوم کی علاوہ اور دوسرے علوم مثلاً طب،ریاضی،فلکیات،علم کیمیا، اورمختلف سائنسی علوم نےبھی ترقی کی۔یہ علوم عربوں نے پہلےیونانی،سریانی،سنسکرت اور دیگرزبانوں سے سیکھا اورپھر ان کو عربی زبان میں منتقل کیا۔جس کے لیے باقاعدہ ہارون الرشید نے بیت الحکمت قائم کیا،جہاں ترجمہ نگاری کا کام ہوتاتھا ۔
مشہورمترجمین میں”حنین بن اسحاق،قسطا بن لوقا،عیسیٰ بن یحییٰ،یوحنا بن ماسویہ،حجاج بن مطر،یحییٰ بن بطریق،عبد الرحمان بن علی، سلام بن الابرش اور ثابت بن قرة“وغیرہ کا نام آتا ہے۔
علم طب
قرآن و حدیث میں طب اور صحت کے اصولوں کے تعلق سے جگہ جگہ رہ نمائی کی گئی ہے۔چنانچہ خلفا اسلام نے ہر دور میں اس پر شروع ہی سے توجہ دی۔مسلمانوں میں یونانی طب کا رواج حکمائے یونان کی ان کتابوں سے ہوا جن کو عربی زبان میں منتقل کیا گیا۔اس کےبعد انہوں نے اس فن کو مزید ترقی دی اور اس میں اضافہ بھی کیا۔
عباسی دور کے مسلم اطباءنے چیچک،خسرہ اور دوسری وبائی بیماریوں پرخصوصی توجہ دی اور ان کے ٹیکے ایجاد کیے۔اس کے علاوہ ”فرسٹ ایڈ کا طریقہ،پارے کا لیپ،ٹانکوں میں حیوانی آنتوں کا استعمال،زخموں کو داغنے،پتھری کو آپریشن کی ذریعے نکا لنے، آنکھ اور دانت کی سرجری،پٹی باندھنے کا طریقہ،ہڈیوں کو جوڑنے اور ان پر پلاسٹر چڑھانے کا طریقہ،آپریشن میں جدید آلات کا استعمال،دورانِ خون کا نظریہ،مرکّب ادویہ میں شکر کا استعمال اور آپریشن کرنے سے پہلے سُن کرنے کی طریقوں"سے دنیا کو روشناس کرایا۔
عباسی دورمیں خلفاءنے شفا خانے بھی کثیر تعداد میں تعمیر کرائے،جن کو’بیمارستان‘کہا جاتا تھا۔سب سے پہلا شفا خانہ ولید بن عبدالملک (715-705ء)نےدمشق میں بنوایا۔اس کےعلاوہ دوسرےمشہورشفاخانوںمیں بیمارستان برمکہ،بیمارستان حربیہ بیمارستان  السیدہ،بیمارستانِ المقتدری،بیمارستانِ ابن الفرات اور بیمارستانِ عضدی“ کا نام آتا ہے۔کل تعدادتقریباً60 تھی۔
ان شفا خانوں کی نگرانی کے لیے خلیفہ کی طرف سے ایک ناظم مقرر کیا جاتا تھا۔سنان بن ثابت اس عہدے پر بہت مشہور ہوئے۔آپ نے ہی اطباءکا امتحان لے کر ڈگری دینے کا طریقہ نکالا تھا۔
اس دور میں علم طب کے تین بڑے مراکز تھے۔

 (۱)اسکندریہ (۲)جندی سابور(۳) حران۔
مشہوراطبامیں”یعقوب کندی،م871ء(طبقات الاطبا)،محمدبن زکریا رازی،م932(کتاب الحاوی،المنصوری،کتب طب الفقرا،کتاب الطب الملوکی،کتاب الجدری والحصبة)،موفق بن علی ہروی،م951(کتاب حقائق الادویہ)،شیخ بوعلی سینا،م1037ء(کتاب القانون ،کتاب القولنج ،کتاب الادویة القلبیة)،ابن نفیس،م1288(الکتاب الشامل فی الطب،موجزالقانون، کتاب المہذب فی الکحل )،ابن مسکویہ،م1031(کتاب الاشربة،کتاب البطیح)،علی بن عیسی،م1049( تذکرة الکحالین)“وغیرہ ہیں۔جنھوں نے علم طب کو یونانیوں سے بھی زیادہ ترقی دی ۔حتی کہ یورپ نے بھی ان کی کتابوں سے استفادہ کیا اور ایک زمانے تک یہ کتابیں ان کی یونیورسٹیو ں  میں بھی پڑھائی جاتی رہیں۔
علمِ ریاضی
اس کی ترقی میں علمِ ہندسہ،علمِ نجوم اور علمِ ہیئت کا اہم کردار رہا،کیوں کہ ان تینوں ہی میں حساب کی ضرورت پڑتی ہے ۔مسلمانوں نے اصلاً اس فن کونویں صدی عیسوی میں ترقی دی۔اس دور میں قصر روم سے بہت ساری یونانی کتا بیں منگائی گئیں،جن میں ریاضی کی کتابیں بھی تھیں۔ان کے عربی میں ترجمے ہوئے۔اس سے مسلمانوںمیں علم ریاضی کا شوق پیداہوا۔اس میدان میں محمد بن موسیٰ الخوار زمی  کو حساب و الجبرا کا موجد اور بنو موسیٰ کو جیومیٹری کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔
عباسی دورمیں ریاضی کے میدان میں مسلمانوں کی اہم کارناموں میں”صفر کی ایجاد،اعشاریہ کا استعمال،عددی نظام (Arabic Numerals)کا استعمال،نامعلوم مقدار کے لیے’شئے‘کا استعمال،دودرجی مساوات اورسہ درجی مساوات کوحل کرنے کے عمل کی دریافت،جذر اور جذر مکعب کا طریقہ،وقت کی تقسیم کا پیمانہ کی دریافت اور ٹرگنومیٹری کی بنیاد پر نقشہ مرتب کرنا“وغیرہ ہے۔
اس دور کے مشہور ریاضی داں درج ذیل ہیں:
ابو کامل شجاع بن اسلم،م956ء(کتاب الطرائف فی الحساب،المخمس و المعشّر، کتاب فی الجبر و المقابلة)،عباس بن سعد جوہری،م 844(کتاب الاشکال تفسیر اقلیدس)،ابوطیب سند بن علی،م839(کتاب الحساب الہندی،کتاب القواطع، کتاب الجبر والمقابلہ)،حجاج بن یوسف مطر،م829(مقدمات اقلیدس)،محمدبن موسی خوارزمی،م847(کتاب الجبروالمقابلہ،علم الحساب)،عمرخیام1131 (کتاب الجبروالمقابلہ،مکعبات)،ابوریحان البیرونی،م1049(کتاب الہند،کتاب الآثارالباقیة)،احمدعبداللہ حبش حاسب(م829)،ابوالوفا بوزجانی،(کتاب فی ما یحتاج الیہ الکتاب و العمال من علم الحساب)،بنو موسیٰ شاکر (کتاب حیل بنو موسیٰ)،احمد بن یوسف المصری، ابوعبداللہ محمد بن عیسیٰ الماھانی“وغیرہ کا نام آتا ہے۔
علمِ جغرافیہ
قرآن کی متعددآیات کا تعلق ِ جغرافیہ سے ہے۔جیسے رات دن کا تبدیل ہونا،سورج ،چانداور ستاروں کا حرکت کرنا،سمندر،صحرا،پہاڑ اور دریا وغیرہ۔ان سے مسلمانوں میں علم ِجغرافیہ کا شعور پیدا ہوا۔ساتھ ہی مختلف فتوحات، تجارت اور سفر نے بھی اس علم کو بڑھاوا دیا۔انہوں نے اس فن کو یونان، ہند اور ایران کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کر کے حاصل کیا۔ پھر خود اس میدان میں تصنیف و تحقیق کا آغاز کیا ۔
عباسی دور میں ہی مسلم جغرافیہ دانوں نے زمین کی پیمائش کی، دنیا کا نقشہ ، بحری چارٹ، زمین کا گلوب اور ماڈل تیار کیا،زمین کا گول ہونا اور اس کا اپنی محور پر گھومنا ثابت کیا۔طول البلد،عرض البلد،قوس و قزح اور جوار بھاٹا کی اصولوں سے دنیا کو روشناس کرایااور اس موضوع پرکثیر تعداد میں کتابیں لکھیں۔ان میں سے مشہور درج ذیل ہیں:
صورة الارض(محمدبن موسیٰ خوارزمی،م847)،المسالک والممالک(ابن خردازبہ،م913ء،مسلم جغرافیہ کاباوا آدم)،کتاب البلدان (احمد بن اسحاق الیعقوبی،م897)،کتاب الخراج، صنعة الکتاب(قدامہ بن جعفر الکاتب، م۲۲۹)،احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم(ابوعبداللہ المقدسی،م1000)،تاریخ الہند(ابوریحان البیرونی،م1048)اورتقویم البلدان( ابوالفدا،م1331)وغیرہ۔
علم ِکیمیا
یہ علم یونانیوں سے مصرکے علما اور سائنس دانوں نے سکھا ۔ پھرعباسی دور میں ان سے عربوں نے حاصل کیا۔ یونانی زیادہ تر ’اندازے اور قیاس ‘سے کام چلاتے تھے۔لیکن مسلمانوں نے اس علم میں معروضی وحققیح تجربات کرکے پختہ نظریات قائم کیے۔اس کا مقصد کم قیمتی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنا تھا۔اس کے لیے مختلف طرح کے تجربات کیے جاتے تھے،جس کی وجہ سے کیمسٹری کے میدان میں دوسرے بہت سے انکشافات ہوئے۔
مشہور کیمیا داں جابر بن حیا ن(م161ھ)بھی اسی دورمیں تھے،جن کو’کیمسٹری کا باواآدم‘کہا جاتا ہے۔آپ نے سب سے زیادہ تجربہ پر زوردیا۔پارہ ،دھاتوں کو پگھلانے ،بھاپ کی ذریعہ اشیاءکو معلوم کرنے اور مختلف تیز ابوں کے بنانے کا کا م یاب تجربہ کیا۔آپ کی مشہور کتاب کیمیان المعادن اورکتاب جواہر الکبیر ہے۔دوسری مشہور کیمیادانوںمیں”ابن وحشیہ، ذوالنون مصری، ابوبکر رازی ،یعقوب کندی،ابوحیان  توحیدی ،ابن سینا اور ابوالحسن احمد الخشلیل“وغیرہ کا نام آتا ہے۔
عباسی دورمیں ہی مسلم سائنس دانوں نے”تقطیر،تبخیر،کشید،تکلیس،تصعید،تحلیل،ترشیح کے طریقوں،مختلف طرح کے کیمیائی مرکّبات سلفاس،پوٹاشیم،نائٹرک ایسڈ،مرکری کلورائڈ،سلفر،پارہ،سرمہ،رنگین شیشی،رنگ سازی،عطرسازی،فولاد سازی، موم، خضاب،لوہے کی زنگ سے حفاظت ،چمڑےکی رنگائی،تجربی عمل کے لیے آلات“وغیرہ سے دنیا کوروشناس کرایا۔اس دور میں اس فن پر لکھی گئی کتابوں میں سے چند درج ذیل ہیں:
جوہرتین العتیقتین(الحمدانی)،فی مقالة وجوب صناعة الکیمیا(الفارابی)،رتبة الحکیم،غایة الحکیم(مسلمہ بن احمد المجریطی ) ،عین الصنعة و عون الصناع(ابوالحکیم محمد بن ملک الخوارزمی الکائی،م1034)،حقائق الاستشہاد،کتاب الانوار و المفاتیح،مفاتیح الرحمةاور انوار الحکمة(موئد الدین طغرائی،م1135)،مفتاح دار السعادة(ابن قیم الجوزی)“وغیرہ۔
علمِ لغت، نحو اور صرف
ان علوم کا آغاز اموی دور سے ہی شروع ہو گیا تھالیکن عباسی دور میں اس میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ان کے اہم مراکز میں وفہ، بصرہ، دمشق،حلب،مصر اور مرو وغیرہ کا نام آتا ہے۔ان علوم پر لکھی گئیں کتابیں درج ذیل ہیں:
قراتِ قرآن،کتاب النوادر،کتاب الامثال(امام ابوعمرو بن العلا،م774)،کتاب العین،کتاب النقط و الشکل،کتاب العروض(امام خلیل بن احمد،م777)،کتاب اللغات،کتاب الامثال،کتاب النوادر،معانی القرآن(امام یونس حبیب،م798)،کتاب الصحاح(امام جوہری،م1002)،کتاب الاشتقاق(ابن درید)،اساس اللغة(امام زمخشری)،کتاب الجامع،کتاب الاکمال(عیسیٰ بن عمر ثقفی،م 766)،الکتاب(امام سیبویہ،م810)،المفصل(ابوالقاسم محمود،م1144)،کتاب الفیہ،کافیہ،تسہیل(امام ابوعبداللہ محمدبن مالک، م1274)،کتاب التصریف(امام مازنی،م862)، التصریف الملوکی(ابن جنی،م1002)،کتاب لامیة الافعال منظوم(امام ابن مالک،م885)، کتاب الشافیة (ابن حاجب، م1248)“وغیرہ ہیں۔
ادب اور شاعری
عباسی عہد میں شاعری کے موضوعات غزل،قصیدہ،ہجو،مقطعات،مرثیہ اور نظمیں وغیرہ تھی۔ان کی مختلف مراکز تھے،جن میں شام،مصر،عراق،افریقہ اور ایران کو خاص مقام حاصل تھا۔شاعری کی زبان پُر تکلّف،مسجع و مرصع اور رمز و کنایہ سے مزیّن ہوا کرتی تھی ۔
شعروشاعری میں”بشاربن برد(م784)،ابوالعتاہیہ،ابونواس(م815)،ابن المعتز،ابوتمام(م845)،بحتری(م 897) ، متنبی (م965)،ابوفراس ہمدانی(م968)اورابوالعلاءالمعری(1057)“جیسےشعراءاس دور میں مشہور ہوئے، جنہوں نے عربی شاعری کو اس کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔
ادب کی میدان میں”جاحظ،م868ء(کتاب الحیوان،کتاب البخلا،البیان و التبین)،عبداللہ بن المقفع،م757(کلیلہ و دمنہ)،ابن قتیبہ،م889(الشعر والشعرا)،مبرد(الکامل)ابو عبیدہ، سیبویہ، ابن رشید، باقلانی، اور قدامہ بن جعفر “وغیرہ نے نام پیدا کیا اور ادبی دنیا کو جلا بخشی۔
اس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ اس دورمیں علوم و فنون کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جس پر مسلمانوں نے کام نہ کیا ہو اور اس سے دنیا نے استفادہ نہ کیا ہو۔ اس کا اعتراف مغرب نے بھی کیاہے۔جارج سارٹن نے اپنی کتاب میں لکھا:
بنی نوعِ انسانی کا اہم کام مسلمانوں نے انجام دیا۔سب سے بڑا فلسفی ’الفارابی‘ مسلمان تھا، سب سے بڑے ریاضی داں ’ ابوکامل اور ابراہم بن سنان‘مسلمان تھے،سب سے بڑا جغرافیہ داں اور قاموسی ’المسعودی‘مسلمان تھا اور سب سے بڑا مورّخ ’الطبری‘ بھی مسلمان ہی تھا“(George Sarton:History of Arab.P.392)

٭٭٭٭

6 comments: