Monday 21 April 2014

(In India: Some Kinds Of Shirks) ہندوستان میں شرک کی چند قسمیں

Osama Shoaib Alig
Research Scholar,Jamia Millia Islamia,Delhi

اللہ تعالی نے اپنے محبوب بندے حضرت محمدﷺ پر دینِ حق یعنی اسلام نازل کیا جس کو وہ لوگوں کے سامنے من و عن پیش کرتے رہے اور اپنے عمل سے مکمل طور سے واضح کرتے رہے۔اس طرح سے اسلام آپﷺ کی وفات تک تمام تفصیلات کے ساتھ خالص شکل میں قرآن و سنت میں محفوظ ہو گیا ۔ پھر رفتہ رفتہ مسلمانوں میں بگاڑ آنا شروع ہوا اور شرک و بدعات کا چلن اس قدر عام ہو تا گیا کہ خواص و عام اور بڑے بڑے علمائے کرام اس میں ملوث ہو گئے۔ پیدائش سے لے کر قبر میں جانے تک اسلامی تعلیمات کو بدل دیا گیا اوریہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
بدعت کیا ہے؟بدعت کے لغوی معنی نئی چیز کے ہیں اور اصطلاح میں ہر وہ بات جو دین میں ترمیم یا اضافہ کی حیثیت رکھتی ہو وہ بدعت ہے خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے یا دین کے کسی بھی گوشے سے ہو اور وہ جائز نہیں ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد﴿مسلم:1720)جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات نکالی ، جو اس میں سے نہیں ہے،وہ مردود ہے۔
             اسلام ایک مکمل دین ہے اور اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس کو مکمل طور سے اپنا لیں۔جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
یا  ایھا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافة ﴿ البقرة:208)
ائے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!تم پورے کے پورے اسلام میں آجاو۔
یہ نہیں کہ ہم کچھ اسلام سے توکچھ یہود و نصاری سے تو کچھ ہندں سے لے لیں بلکہ ہماری زندگی کے ہر پہلو میں اسلام کی جھلک ہونی چاہیے۔مگر افسوس کلمہ،نماز،زکوة،حج کے باوجود ہم میں بہت سی بدعات و خرافات(جن میں سے بعض شرک کے درجے تک پہنچی ہوئی ہیں)شامل ہو چکی ہیں۔ شرک کتنا بڑا گناہ اور جرم ہے اس کا اندازہ ہم اللہ تعالی کے اس ارشاد سے بخوبی کر سکتے ہیں۔ارشادِ ربانی ہے:
ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشآءومن یشرک باللہ فقد افتری اثما عظیما (النسا:48)
بےشک اللہ تعالی شرک کو نہیں بخشے گا ،اس کے علاوہ جس قدر گناہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹہرا یا اس نے بہت بڑا جھوٹ کہا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔
 اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تمام گناہ سوائے شرک کے قابل معافی ہیں مگر مشرک کے لیے معافی نہیں ہے۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
چاہے تمہیں کوئی قتل کر دے یا آگ میں جلا دے تب بھی تم شرک نہ کرنا(بخاری:3107)
اس سے واضح ہو گیا کہ شرک سے ہمارے تمام نیک اعمال ضائع ہو جائیں گے تو ہمیں اخروی کامیابی کی لیے اپنے نیک اعمال کو بچانا ہوگا۔کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ ہم اپنے خیال میں تو نیک اعمال کر رہے ہوں اور بے خبری میں وہ  ضائع ہو جائیں۔ چند شرکیہ اعمال درج ذیل ہیں۔
اولیاءپرستی
 مسلمانوں نے ہندں سے متاثر ہو کر مشرکانہ عقائد و اعمال کو اسلام کی شکل میں ڈھال لیا ہے ۔دیکھا جائے تو ہر مسلمان شرک سے نفرت کرتا ہے اور دیوی دیوتاں کی پوجا نہیں کرتا ہے مگر اولیاءوپیر کے ساتھ جو عقیدہ اور محبت رکھتا ہے وہ بھی ایک طرح سے شرک ہی ہے ۔ اولیاءپرستی اور پیر مریدی کا چکر اسلام میں ہے ہی نہیں ۔اسلام نے ہر مومن اور متقی کو اللہ تعالی کا ولی قرار دیا ہے ۔ارشادِ ربانی ہے:
الا ان اولیاءاللہ لا خوف علیھم و لا ھم یحزنون۔ الذین آمنوا و کانوا یتقون ۔ لھم البشری فی الحیوة الدنیا و فی الآخرة﴿یونس:62،64)
سنو،جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی اختیار کیا ۔ان کے لیے خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔
مگر مسلمانوں نے اولیاءسے عقیدت میں درگاہیں تعمیر کی اور قبر پرستی شروع کردی،عرس منانا،قبروں پر پھول چڑھانا،چادر و غلاف چڑھانا اورجالیاں لگانا شروع کر دیا اور اس کو اسلام کے نام پر کرنے لگے جو صرف ایک ڈھونگ ہے اور پیٹ بھرنے کا ذریعہ ہے۔حضورﷺ کی اطاعت میں تو آگے نہ بڑھے البتہ غلو کرنے میں آگے بڑھ گئے اور کہا کہ احمد اور احد میں میم کا پردہ ہے یا کہا کہ معراج میں عرش پر آپ ﷺ ہی تشریف فرما تھے ۔آپ نے ان سب سے منع کیا ۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاری پر انھوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا(بخاری:411)۔
ایک اور جگہ آپ ﷺ نے فرمایا:
اپنے گھروں کو قبریں نہ بناو اور میری قبر کو میلہ گاہ نہ بناو۔
آپ ﷺ نے ایک دن جمع ہونے سے منع کیا تو ہم لوگ تاریخ مقرر کر کے عرس مناتے ہیں اور آپﷺ نے قبروں پر چراغ جلانے سے منع کیا تو ہم لوگ باقاعدہ اہتمام کرکے چراغاں کرتے ہیں اور آپﷺ نے عورتوں کو قبروں پر جانے سے منع کیا تو آج ہماری عورتیں مردوں سے زیادہ قبرستان میں نظر آتی ہیں۔
اولیاءاور بزرگانِ دین کا عالم الغیب ہونا اور لوگوں کی مدد کرنا
  مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ اولیاءکرام اور بزرگانِ دین کی اگر چہ وفات ہو جاتی ہے مگر یہ لوگ علم غیب رکھتے ہیں اور لوگوں کی مدد کرتے ہیں چنانچہ اکثر مسلمان اٹھتے بیٹھتے ’یا غوث،یا مشکل کشا،یا علی مدد یا خواجہ مدد‘پکارتے رہتے ہیں(اسی لیے غوث اعظم کاعبد القادر جیلانی کو لقب دیا گیا )جب کہ یہ سب سخت گناہ و شرک ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
و لا تدع من دون اللہ مالا ینفعک ولا یضرک فان فعلت فانک اذا من الظلمین﴿سورة یونس:106)
اور مت پکارو اللہ کے سوا ایسے کو جو نہ تجھے فائدہ دے سکے اور نہ نقصان ۔سو اگر تو نے ایسا کیا تو تو بھی اس وقت ظالموں میں سے ہو جائے گا۔
 حقیقت یہ ہےکہ اللہ ہی کسی پرفضل وکرم کرسکتا ہےاورکسی دوسرےکے بس میں نہیں ہے کہ کسی کی تکلیف کو دور کر سکے۔
نذر  ونیاز اور فاتحہ وغیرہ کی رسم
 غیراللہ کےنام پریانبی،ولی اورپیرکےنام پرنذرمانناشرک اورحرام ہے۔نذرصرف اللہ تعالی کےلیےمانی جاسکتی ہےاوراس کو   پورا  کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
لانذر الا فی ما یبتغیٰ بہ وجہ اللہ(سنن ابوداود:2851)
 اللہ تعالی کےسواکسی دوسرےکی نذرمانناصحیح نہیں ہے۔
          نذربھی ایسی ہوجس میں اللہ تعالی کے کسی احکام کی نافرمانی نہیں ہو رہی ہو کیوں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
لا وفآءلنذر فی معصیة اللہ(مسلم:3107)
جو نذر اللہ کی نافرمانی کی ہو اس کو پور انہیں کیا جائے گا۔
نیاز عموما ولی یا پیر کے نام مٹھائی یا کھانے کی شکل میں ہوا کرتی ہے اور اس پر بعض جگہوں پر ولی یا پیر کے نام فاتحہ بھی پڑھی جاتی ہے ۔ مثلا شاہ صاحب کا بکرا،سید صاحب کا مرغ،پیر صاحب کا ملیدہ وغیرہ ۔جو شرک اور حرام ہے اور رہی بات فاتحہ خوانی کی تو جائز تو ہے مگر اس کو ضروری قرار دے کر رسم بنا لینا یہ غلط ہے۔مثلا شربت مٹھائی پر فاتحہ ، نماز کے بعد امام کا مقتدی کے سا تھ فاتحہ پڑھنا،نکاح،جنازہ کے بعد فاتحہ پڑھنا وغیرہ۔
خواب و خیال کے ذریعہ دین کی تبلیغ و اشاعت
 یہ ایک نئی بدعت امتِ مسلمہ میں رائج ہوتی جا رہی ہے ۔یعنی خواب کے ذریعہ بڑے اہتمام سے کسی بزرگ یا پیر کی باتوں کو لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ لوگوں میں ان کی عقیدت بڑھے اور لوگ ان کے طور طریقوں کی پیروی کریں ۔اور اس کی دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ گڑھی ہوئی باتوں کو مدینہ منورہ اور مکہ کے شیخ کی طرف منسوب کرکے بیان کیا جاتا ہے اور پھر اس کو مختلف پمفلٹ یا smsکی شکل میں لوگوں میں پھیلایا جاتا ہے اور نہ ماننے اور نہ تقسیم کرنے کی صورت میں دنیا و آخرت میں عذاب کی دھمکی دی جاتی ہے ۔لوگ اس کو بنا تحقیق آگے بڑھاتے رہتے ہیں اور کمپنی کو فائدہ پہنچتا رہتا ہے۔ہمیں پہلے اس کی تحقیق کرنی چاہیے اور اس کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔ورنہ ایسا کرکے شرک کے مرتکب ہوں گے۔
شریعت کے مقابلے میں علماءاور مشائخ کی باتوں کو ترجیح دینا
 آج کل اکثر مسائل اسی وجہ سے ہو رہے ہیں کہ ہر طبقہ کے لوگوں نے قرآن و حدیث چھوڑ کر اپنے اپنے مخصوص علماءکرام و مشائخ کی باتوں پر عمل کرنا شروع کردیا ہے اور انھیں علماءو صوفیاءو بزرگانِ دین کے قول کو صحیح مان کرحلال و حرام،جائز و ناجائز کی تفریق کرنے لگے ہیں اور اللہ کی شریعت کو نظر انداز کردیا ہے۔گویا شریعت سازی کا حق اللہ اور اس کے رسول سے لے کر ان لوگوں کو دے دیا ہے تو یہی شرک ہے۔اللہ تعالی کاارشادہے:
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا﴿المائدة:03)
آج کے دن دین مکمل کر دیا گیا اور نعمت پوری کر دی گئی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا ہے۔
یعنی اب دین اسلام میں کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔اور حضور ﷺ کے ذریعہ ہم تک مکمل دین پہنچ چکا ہے۔ اب اگر کوئی ولی ،پیر یا عالم اس میں تبدیلی لاتا ہے تو گویا وہ شرک کرتا ہے۔
اللہ تعالی پر بھروسہ نہ کرنا اور اگر مگر کے چکر میں پڑنا
اللہ تعالی نے مومنوں سے فرمایا کہ ہر حال میں مجھ پر ہی بھروسہ کرو۔ارشادِ ربانی ہے:
یا ایھا النبی حسبک اللہ و من اتبعک من المومنین﴿الانفال:64)
ائے نبی تمہارے لیے اور تمہارے پیرو اہل ایمان کے لیے تو بس اللہ ہی کافی ہے۔
یہی چیز مسلم کو نڈر،بےباک،طاقتور اور قناعت پسند بناتی ہے ۔مگر ہم لوگ اس کا مظاہرہ کم ہی کرتے ہیں ۔جب ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں رہتا تب ہمارے منہ سے نکلتا ہے کہ’اللہ کی جیسی مرضی‘۔اور اسی طرح ہم لوگ روانی میں شرکیہ جملے بھی بول جاتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔جیسے’اگر تم نہ ہوتے تو میرا کیا ہوتا‘یا’اگر باڈی گارڈ نہ ہوتا تو میں مار دیا جاتا‘۔ اس طرح کے جملوں کا شمار شرک ہی میں ہوتا ہے کیوں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
حرص کر اس بات پر جو تجھے نفع دے اور اللہ سے مدد مانگ عاجز نہ بن اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہنا کہ اگر میں ایسا کرتاتو ایسا ایسا ہوتا لیکن یہ کہہ کر کہ اللہ تعالی نے جو مقدر کیا اور جو اس نے چاہا ہوا۔
 اس لیے کہ”اگر“شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔مطلب یہ کہ ہر چیز کا وقت مقرر ہے اور اللہ کی مقرر کی ہوئی تقدیر ہے ۔اور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے۔
غیر اللہ کی قسمیں کھانا
 لوگ لین دین اور تجارت و معاملات میں قسمیں کھاتے ہیں ۔مگر اس میں دھیان رکھنا ہوگا کہ قسم صرف اللہ کی ہی ہو۔ قرآن،ماں باپ اورسرکی قسم کھانا شرک ہے۔ ایک حدیث ہے:
عن ابن عمر قال سمعت محمدیقول من خلف بغیر اللہ فقد اشرک(ابوداود:2832)
                    ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی بیشک اس نے شرک کیا۔
اگر دھوکہ دینے کے لیے اللہ تعالی کی قسم کھائی تو یہ اللہ تعالی کی توہین کرنا ہوا۔اگر کسی شخص نے اتفاقا کبھی غیر اللہ کی قسم کھا بھی لی تو اس کو چاہیے کہ اپنے ایمان کی تجدید کے لیے لا الہ الا اللہ پڑھ لے۔
اولاد کے لیے در بدر بھٹکنا
اولاد اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ہے ۔اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہیں۔مگر یہ اللہ تعالی کی مرضی پر منحصر ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے محروم رکھتا ہے۔ارشاد ِ ربانی ہے:
للہ ملک السموت و الارض یخلق ما یشآءیھب لمن یشآءاناثا و یھب لمن یشآءالذکور۔او یزوجھم ذکرانا و اناثا و یجعل من یشآءعقیما انہ علیم قدیر(الشوریُٰ:49)
اللہ ہی کی بادشاہت ہے آسمانوں اور زمین میں پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے جس کو چاہے بیٹیاں دیتاہے جس کو چاہے بیٹے، یا ملا دیتا ہے ان کو بیٹے اور بیٹیاں اور جس کو چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے وہی علیم و قدیر ہے۔
لیکن عموما جن لوگوں کو اولاد نہیں ہوتی ہے وہ باباں،عاملوں اور پیروں کے مزاروں اور آستانوں کا چکر کاٹنے لگتے ہیں اور شرک کر بیٹھتے ہیں اور اگر اتفاق سے مل جائے تو پورا ایمان ہی بیچ ڈالتے ہیں اور بعض لوگ گود لے لیتے ہیں اس سے آگے چل کر گھراور معاشرے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔
کڑا،چھلا،تعویز وغیرہ نظر سے بچنے کے لیے پہننا
ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ نظر لگنے،بیمار پڑنے اور کمزوری سے بچنے کے لیے کڑا،چھلا کالا دھاگہ اور تعویز وغیرہ خود بھی پہنتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی پہناتے ہیں ۔جس کا شمار شرک میں ہوتا ہے ۔ارشادِ ربانی ہے:
قل افرءیتم ما تدعون من دون اللہ ان ارادنی اللہ بضر ھل ھن کشفات ضرہ او ارادنی برحمة ھل ھن ممسکت رحمتہ قل حسبی اللہ علیہ یتوکل المتوکلون(الزمر:38)
کہہ دیجیے کہ بتاو جن چیزوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو کیا وہ اس ضرر کو دور کر سکتے ہیں یا اللہ مجھ پر رحم فرمائے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں تو کہہ دے مجھے تو اللہ ہی بس ہے اسی پر سب توکل کرنے والے توکل کرتے ہیں۔
آج بھی لوگ اپنی گاڑیوں اور دوسرے قیمتی سامانوں میں نظرسے بچا کے لیے دھاگہ لیمواور مرچ یا جوتا باندھتے ہیں(ویسے یہ سب یہ لوگ اپنی گردن میں لٹکاتے تو زیادہ اثر انداز ہوتا)۔
عقبہ بن عامر ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا! جو تعویز لٹکائے اللہ تعالی اس کا مطلب پورا نہ کرے اور جو سیپی وغیرہ لٹکائے اللہ تعالی اس کو آرام نہ دے اور جس نے تعویز لٹکایا اس نے شرک کیا(مسند احمد)
فال نکالنا اورنجومیوں کے پاس جانا
 مسلمانوں میں بھی ہندں سے متاثر ہو کر شگون و بد شگون کا رواج ہو گیا ہے جو کہ گناہِ کبیرہ اور شرک میں سے ہے۔آج بھی الو کاپکارنا،صبح کے وقت کوا کا بولنا،داہنی آنکھ کا پھڑکنا،ہتھیلی کا کھجلا نا اورصفر کے مہینہ کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔جب کہ آپ ﷺ نے فرمایا:ایک کی بیماری دوسروں کو نہیں لگتی،نہ بدفالی کوئی چیز ہے،نہ الو کا بولنا کوئی اثر رکھتا ہے اور نہ ہی صفر کچھ ہے(بخاری و مسلم)
لوگ نجومیوں کو ہاتھ دکھاتے ہیں اور اس سے مستقبل کا حال معلوم کرتے ہیں جو کہ ایک شرکیہ کام ہے ۔ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:
                        جو کوئی خبر بتلانے والے کے پاس جائے اور کچھ پوچھے تو اس کی چالیس دن کی عبادت قبول نہیں ہوتی (مشکوة)
ماہِ محرم میں شرک و بدعات
حقیقت میں ماہ محرم کی صرف دو وجہ سے اہمیت ہے ۔اول یہ کہ اس سے قمری سال کا آغاز ہوتا ہے اور دوم یہ کہ اس مہینہ کی دسویں تاریخ یعنی عاشورہ کے دن موسیؑ اور ان کی امت کو فرعون سے نجات ملی۔اس کے علاوہ ماہ محرم کی کوئی اور اہمیت نہیں ہے مگر مسلمانوں کے ایک طبقہ نے اس مہینہ کو غم کا مہینہ قرار دے دیا اور حسین ؓ کی یاد میں ایسی ایسی بدعات و خرافات رائج کردی کہ اللہ کی پناہ۔تعزیہ جو بت پرستی کی دوسری شکل ہے ،نیاز وچڑھاوا،مرثیہ کی مجلسیں،پانی یا شربت کی تقسیم اور کھچڑا وغیرہ۔
 پھر مختلف طرح سے ماتم کرنا چاقو،تلوار،زنجیراور لاٹھی وغیرہ سے اپنے ہی بدن پر زخم لگانا ۔(محرم میں تو خوب تلوار چاقوآپس میں چلتا ہے مگر جب فسادات میں صحیح معنوں میں ضرورت پڑتی ہے تو بھیگی بلی بن جاتے ہیں)۔حقیقت یہ ہے کہ حضرت حسینؓ کی شہادت کوئی پہلی اور آخری شہادت تو ہے نہیں اس سے پہلے بھی انبیاءاور صحابہ کرام شہید ہوئے ہیں ۔ان کے اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی جواب دہی ہم لوگوں کو نہیں کرنی ہے ۔ہم کو تو اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو ہمیں اس کی فکر کرنی ہوگی۔جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
تلک امة قد خلت لھا ما کسبت و لکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون﴿البقرة:141)
یہ ایک گروہ تھا جو گزر گیا ۔ ان لوگوں نے جو کچھ کمایا وہ ان کے لیے ہے اور تم نے جو کچھ کمایا وہ تمہارے لیے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم سے نہیں پوچھا جائے گا۔
عید میلاد النبی
امتِ مسلمہ کی صرف دو عید ہے ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحی۔مگر اس میں بھی مسلمانوں نے عید میلاد النبی کااضافہ کر لیا۔اور افسوس یہ ہے کہ یہ کام اس طبقہ کے علماءکرام کی سرپرستی میں انجام پاتا ہے۔جیسے شب میں چراغاں کرنا،مساجد اور بلڈنگوں کو قمقموں سے سجانا،مسجدوں میں پھولوں کی لڑیاں لگانا،راستوں پر شاندار گیٹ بنانا،آتش بازی کرنا اور پھر یہ کہ خوب دھوم دھام سے میلاد النبی کا جلوس نکالنا۔اس میں بڑے بڑے علماءکرام شامل ہوتے ہیں اور الٹے سیدھے کفریہ اور شرکیہ نعرے لگتے ہیں روڈ جام ہو جاتا ہے۔بالکل دسہرا کا منظر ہوتا ہے۔ رات رات بھرگلا پھاڑ پھاڑ کے تقریریں ہوتی ہیں اور نعت پڑھی جاتی ہیں جس کی وجہ سے مریض،بوڑھے،بچے اوردوسرے تمام لوگ ڈسٹرب رہتے ہیں۔دوسری طرف مردوں عورتوں کا مخلوط پروگرام ہوتا ہے اور فرض نمازیں چھوڑ دی جاتی ہیں ۔یہ سب آپ ﷺ یا صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے مگر تب بھی مسلمان اسلام کے نام پر کرتے ہیں۔
شبِ برات
 پندرہویں شعبان کی شب کو مسلمان عبادت کے نام پر تہوار مناتے ہیں ۔مسلمان زرق برق کپڑے پہن کر نفلی عبادت کرنے مسجد جاتے ہیں(نمازیں کم اور مٹر گشتی زیادہ ہوتی ہے مسجدوں کے باہر میلہ لگا رہتاہے) حلوہ اور مٹھائیاں بنتی اورتقسیم کی جاتی ہیں اور قبرستانوں کی زیارت کی جاتی ہے۔آتش بازیاں ہوتی ہیں ۔گھروں میں چراغاں کیا جاتا ہے۔یہ سب آپ ﷺ اور صحابہ کرام کے بعد کے دور سے شروع ہوا۔اور اس بدعت کو رائج نے ضعیف اور بے سروپا روایتوں کا سہارا لیا ہے۔
یہ تو بات ہوئی ان شرک و بدعات کی جو صدیوں سے امت ِ مسلمہ میں رائج ہیں مگرآج کے ماڈرن دور کا سب سے بڑا شرک مادی نظریات پر یقین اور مادہ پرستی ہے ۔اپنی دولت،علم،لیاقت و ذہانت سے بڑے بننے کا دعوی کرنا کہ ہماری تدبیر،ذہانت اور علم سے ہم کو یہ عہدہ،عزت و شہرت اور مال و دولت حاصل ہوئی ہے ۔شرک یہی ہے کہ ان سب چیزوں کو اپنا کارنامہ سمجھنا اور اس پر گھمنڈ کرنا ۔جب کہ یہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے حاصل ہوا کرتا ہے اور اسی کے فضل و عنایت سے انسان ترقی کر سکتا ہے۔قارون نے اپنی دولت کو اپنے علم و ذہانت کی طرف منسوب کیا تھا اور سورة کہف میں باغ والا واقعہ بھی اسی ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیاوی زندگی ایک دھوکہ اور دار الامتحان ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
الذی خلق الموت و الحیوة لیبلوکم ایکم احسن عمالا﴿الملک:02)
                        جس نے موت اور زندگی کو بنایا تا کہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔
چنانچہ دنیا جو ایک دار الامتحان ہے مگر ہماری ساری بھاگ دوڑ ، اٹھتے بیٹھتے ،سوتے جاگتے اسی کے لیے سوچنا اور اسی میں گم ہو کر رہ جانا بر خلاف علامہ اقبال کے اس شعر کے
        کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے   اور مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
 دنیاوی اسباب کو ہی کل سمجھ لینا،سارا انحصارر و یقین اللہ تعالی کے بجائے مادے پر ہو جانایا مادہ کو اللہ تعالی کا مقام دے دینااور انسانی حاکمیت پر یقین رکھنا جس کی سب سے مشہور شکل آج کے دور میں جمہوری نظام ہے جس کو بد قسمتی سے ہمارے مذہبی و سیاسی علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد نہ صرف پسند کر رہی ہے بلکہ اس کی قوالی بھی گا رہی ہے ۔ یہی آج کے ماڈرن دور کا سب سے بڑا شرک ہے۔
٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment