Wednesday 5 February 2014

(Islam And Orientalizm) اسلام اور مستشرقین




تحریر: مولا نا ابواللیث اصلاحیؒ مرحوم 
(سابق امیر جماعت اسلامی ہند)
ترجمہ : اسامہ شعیب علیگ 
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی
D-321, Abul Fazal Enclave
Jamai Nagar,New-Delhi
M.b 9911319959

پچھلی چند صدی میں یورپ کے اندر جو اسلامی علوم کی تحقیق و جستجو میں ذوق و شوق پیدا ہوا اور ادب و سیرت کے ساتھ ساتھ مختلف اسلامی علوم کی قدیم کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آئیں ، اس عمل کی ستائش کی جانی چاہیے لیکن ہم مسلمانوں کا فرض بنتا تھا کہ اس مبارک عمل میں آگے آتے مگر ہم غفلت کی نیند سوتے رہے اور بہت سی قیمتی کتابیں دنیا کے مشہور کتب خانو ں کی الماریوں کی زینت بنی رہیں اور اہلِ علم حضرات کی نگاہوں اور تحقیق سے دور رہیں۔اس سلسلے میں مستشرقین کی کو ششیں اور ان کی جد وجہد قابلِ تحسین ہیں، جو لوگ بھی مستحسن عمل کریں ،اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ ان کا مشکور ہوا جائے۔
لیکن چند گوشے ایسے بھی ہیں جن کو اپنی نظر کے سامنے رکھنا ضروری ہے ،جو درج ذیل ہیں:
(۱) میں سمجھتا ہوں کہ مستشرقین کی یہ کوششیں اعلیٰ مقصد کے حصول اور طلبِ حق کے لیے نہیں صرف کی گئی ہیں،بلکہ یورپ کے اندر ایک نئی تہذیب کے وجود کے بعد سدِّ حاجت کے طور پر ظاہر ہو رہی تھیں۔جب دنیا کے اکثر حصہ پر ان کا سیاسی غلبہ ہو گیا اور مشرق پر بھی ان کا جھنڈا لہرانے لگاتواس وقت ان کو یہاں کے احوال وظروف اور افکار کو سمجھنے کی شدید ضرورت محسوس ہوئی،لہٰذا مستشرقین اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھے اور اس میں کام یابی بھی حاصل کی ۔یہاں تک کہ وہ حضرات جن کی آنکھیں مغرب کی تہذیب سے خیرہ تھیں ،وہ بھی اسلامی علوم کے سلسلے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ کا قصد کرنے لگے۔ 
یہ صورتِ حال اس وقت کی ہے جب یورپ کو نہ تو وحی کے اسلامی تصور کا شعور تھا اور نہ ہی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعتراف کرتے تھے،لیکن ا س کے باوجود مستشرقین اپنی کوششوں میں اس حد تک کام یاب ہو گئے کہ ان کو سند کا درجہ مل گیا اور وہ استاذ کے مقام پر فائز ہو گئے۔یہ سب سیاسی میدان میں مسلمانوں کی ذہنی شکست کے نتیجے میں ہوا اور یہ شکست و ہزیمت ان کے لیے جنگی ہزیمت سے زیادہ خطرناک تھی۔
(۲)دوسری بات میں جس کی طرف آپ لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ صلیبی جنگوں کی وجہ سے ان کے اندر جو دشمنی پیدا ہوئی اس سے کسی بھی شخص کو غافل نہ ہونا چاہیے۔مستشرقین کی ایک بڑی تعداد اپنے بلند علمی مقام کے باوجود اس رجحان سے اوپر نہ اٹھ سکی کہ حق کو سمجھ لینے کے بعد اس کے تئیں عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرتی،سوائے ایک قلیل تعداد کے جن کو انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے،اسی وجہ سے ہم ان میں سے اکثر کی تحریروں میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جھوٹے اور من گھڑت قصوں کا بیان اس طرح سے پاتے ہیں گویا وہ بالکل سچے واقعات ہوں۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام میں توحید کا تصور جس طرح نمایاں ہے اس کی مثال کسی بھی دوسرے مذہب میں نہیں ہے۔ا س کے باوجود مستشرقین نے دنیا کویہ باور کرانے کی پوری کوشش کی کہ اسلام بت پرستی کی ایک نئی شکل ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ ¿ کعبہ سے تو تمام قدیم اصنام باہر کرا دیئے اور اپنا سونے کا ایک صنم اس میں نصب کرا دیا۔
اسی طرح ان میں سے کچھ نے نزول وحی کی کیفیت کو مرگی کے مرض سے تعبیر کیاتاکہ لوگوں کو اس بات کا یقین دلایاجاسکے کہ آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبری عطا ہوئی تھی اور یہ بھی الزام لگایا گیا کہ آپ کو دورہ پڑنے کے بعدجب افاقہ ہوتا تھا تب کہہ دیتے تھے کہ میں نزولِ وحی کی حالت میں تھا اور خود گھڑ کر آیتیں سناتے۔(اللہ تعالی کی پناہ اس لغو بات سے)۔
اسی طرح بعض مستشرقین نے یہ فرضی قصہ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کبوتریں پال رکھی تھیں اورجنھیں سدھار رکھا تھا۔وہ آپ کے کندھے پر بیٹھ جاتیں اور آپ اس وقت لوگوں سے مخاطب ہو تے اور کہتے کہ ابھی جن کو تم لوگوں نے میرے کندھوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا تھا وہ کبوتریں نہ تھیں، بلکہ جبرئیل علیہ السلام تھے اور میرے پاس اللہ تعالی کی طرف سے پیغام لائے تھے۔
بعض مستشرقین نے بیا ن کیا کہ جو دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے اس کا آسمانی وحی سے کوئی تعلق نہیں ہے ،بلکہ وہ بحیرة راہب کی تعلیمات ہیں جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات شام کے سفر کے دوران ہوئی تھی۔اسی لیے ایک گروہ کہتا ہے کہ اسلام کوئی مستقل دین نہیں ہے بلکہ مسیحیت کی ہی ایک نئی شکل ہے۔
اسی طرح ان مستشرقین میں سے کچھ نے دنیا کو اس بات کا یقین دلانے کے لیے زبردست جد وجہد کی کہ اسلام پوری دنیا میں اپنی اچھی تعلیمات اور اعلیٰ اصولوں کی بدولت نہیں پھیلا ہے ،بلکہ اس کا پھیلاو صرف تلوار کی قوت سے ہوا ہے ۔حتیٰ کہ بعض نے بعد کے زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان نصرت بالرعب (میری رعب سے مدد کی گئی) سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ اسلا م ایک دہشت گرد مذہب ہے۔
اسی طرح ان میں سے بعض نے اپنی تحریر کی پوری قوت اس بات کو ثابت کرنے میں صرف کر دی کہ اسلامی شریعت ،ربانی شریعت نہیں ہے بلکہ رومی قوانین اور حمواربی شریعت سے ماخوذ ہے۔
اسی طرح مستشرقین جب اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ پر کچھ تحریر کرتے ہیں تو مسلمانوں کی طرف طعن و تشنیع میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔بغداد و اسکندریہ کی دو مشہور لائبریریوں کو نذرِ آتش کرنے کے الزام میں یہ لوگ پیش پیش نظر آتے ہیں۔اللہ تعالی حجة الاسلام علامہ شبلی نعمانیؒ پر رحم فرمائے اور ان کی قبر کو منور کرے کہ انہوں نے مستشرقین کے جھوٹ اور تہمتوں کی قلعی کھول دی اور پختہ مسکت دلائل سے اپنی گراں قدر کتابوں سیرة النبی،النقد علی التمدن الاسلامی اور بعض دوسری تصانیف تحریر کر کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔
یہ مستشرقین کی چند گھڑی ہوئی سازشوں کی مثالیں ہیں جن کا علماءاسلام نے روشن دلائل سے تسلی بخش جوابات دیے ہیں ۔جس کے نتیجے میں بعض مستشرقین نے اپنے کام پر نظر ثانی کی اورگذشتہ لوگوں کی بعض چیزوں سے اجتناب کیا۔ اسلوب میں کچھ تبدیلیاں کی لیکن وہ اپنے اصلی ہدف سے نہیں ہٹے ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ مستشرقین’ عدل وانصاف‘ کے لباس میں ظاہر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت پر علم النفس اور دوسرے کلام کا سہارا لے کر حملے کیے اور کہا کہ آپ نے ابتدا میں اپنی شہوت کو کچلنے کی کوشش کی لیکن اس میں ان کو کام یابی نہیں ملی جس کا بالآخر تعدد زوجات کی شکل میں نتیجہ ظاہر ہوا۔(معاذاللہ) ۔
اسلا م اورمسلمانوں سے متعلق مستشرقین کی کوششوں کی یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے ۔ورنہ ان کے ادب ،تاریخ اور سیرت کے میدان میں ایک جہدِ مسلسل ہے جس میں علم و تحقیق اور ذہنی و فکری آزادی کے نام پر اسلام کے اصولوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت پر طرح طرح کے شبہات وارد کیے جاتے ہیں۔
مستشرقین کی کار کردگیوں اور کوششوں کے تعلق سے میں نے اپنے خیالات مختصراً آپ کے سامنے رکھے ۔اس پسمنظر میں پہلے میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جب تک وہ استاد اور سند سمجھے جاتے رہیں گے اور اسلامی علوم کے مرجعیت کے درجے پر فائز رہیں گے ساتھ ہی لوگ اسلام کو سمجھنے کے لیے ان کی طرف قصد کرتے رہیں گے تو اسلامی معاشرہ میں برابر شبہات داخل کیے جاتے رہیں گے ۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہم مستشرقین کے علمی نتائج سے غافل نہ ہوں کیوں کہ یہ رویہ زیادہ خطرناک ہو گا اور ہم بعض قیمتی کتابوں سے محروم رہ جائیں گے۔اس لیے ہمارے اہلِ بصیرت علماءبرابر ہوشیار رہیں اور جو کتابیں بھی ان کی جانب سے شائع ہو رہی ہیں اس پر نظر رکھیں ۔اس طرح عالمِ اسلام کو بھی واقفیت رہے گی کہ اسلام اور مسلمانوں کو کہاں کہاں اور کس طرح بدنام کرنے کی سعی ہو رہی ہے ۔ان کی ذمے داری ہے کہ ان کو اور ان کی کوششوں کو آزاد نہ چھوڑ دیں کہ مسلمان اورخاص کر ہمارے مسلم نوجوان اورغیر مسلموں میں تعلیم یافتہ اشخاص جو اسلام کو سمجھنے اور سیرتِ نبوی کو جاننا چاہتے ہیں اورجن کا زیادہ تر اعتماد مستشرقین کی کتابوں پر ہوتا ہے ،ان سے انہیں نقصان نہ پہنچے ۔یہاں تک کہ حق اور باطل ممیز ہو جائے اور سچائی جھوٹ سے الگ ہو جائے اور جو گمراہ ہو وہ جان بوجھ کر گم راہ ہو اور جو راہِ راست پر زندگی گزارے وہ جان کر اس کی روشنی میں زندگی گزارے۔
یہ مقصد ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اسلام، اس کی تعلیمات اور سیرتِ نبوی پر علمی و تحقیقی کتابیں لائیں ،جو حالاتِ حاضرہ کے تقاضوں کو پورا کرتی ہوں اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ یہ کتابیں اپنے اسلوب و مواد میں مستشرقین کی کتابوں سے اعلیٰ و ارفع ہوں یا کم از کم اس سے کم تر نہ ہوں ، تاکہ لوگ ان کی کتابوں سے بے نیاز ہو جائیں اور ان سے اچھا بدل ان کوباآسانی میسر ہو۔
 جو مقصد ہمارے پیشِ نظر ہے وہ ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ صرف تردید اور تہمتوں کے جواب اور اسلام پر قیمتی کتابوں کی تیاری پر اکتفا نہ کریں بلکہ ہم انفرادی و اجتماعی دونوں میدانوں میں اسلام کی سچی اور عملی تصویر پیش کریں ،دشمن کی چالوں کو ناکام بنانے ،اسلامی قدروں اور اس کے محاسن اور خصوصیات کو اپنی عملی زندگی میں نمایاں کرنے کا مفید ترین طریقہ یہی ہے ۔سب سے اچھا اور لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کا مو ثر ترین طریقہ یہی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسان کی طرف مبعوث کیے گئے ہیں اور تمام لوگوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔آپ ہادی اور روشن چراغ ہیں ۔جو دین آپ لائے ہیں تمام ادیان سے بہتر ہے اور وہی تمام بحران و مشکلات کا واحد حل ہے جن سے انسانی معاشرہ دوچار ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور اسلام کی تعلیمات کی اتباع کے بغیر کوئی کام یابی اور نجات ممکن نہیں ہے۔(البعث الاسلامی، رمضان و شوال ، ص۱۸۳)
٭٭٭٭


No comments:

Post a Comment