Wednesday 30 April 2014

(Iqbal And Rabindra Nath Taigor) اقبال اور ٹیگور - ایک تجزیاتی مطالعہ


 یورپ میں بیداری کا دور انقلابِ فرانس سے شروع ہوا اور پھر یورپی اقوام نے دنیا میں اپنے قدم جمانے کے لیے ’مختلف بہانوں‘ سے مشرق کا رخ کیا ۔اسی سلسلے کی ایک کڑی ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کا برّ صغیر میں کے آنا ہے ۔جس کے ذریعہ انگریزوں نے رفتہ رفتہ پورے اس خطّے پر اپنی حکومت قائم کر دی ۔
اسی دور سے ہندوستانی قوم کی غلامی کا دور شروع ہوتا ہے ۔اس وقت چوں کہ یورپ بیدار ہو چکا تھااور بہت حد تک دنیا کی دوسری قوموں خصوصاً برّ صغیر سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن میں بھی آگے بڑھ چکا تھا۔جس کی وجہ سے یہاں کی اکثریت نہ صرف ان کی ذہنی غلام بن گئی تھی بلکہ سیاسی اور سماجی،معاشی اوران سب کے علاوہ اپنے علم و عمل، عادت و اطوار، لباس اور فکرو نظر سب میں ان کی تہذیب و تمدن کو قبول کر چکی تھی اور یہ بے جا بھی نہ تھا۔ کیوں کہ جب ایک قوم دوسری قوم پر غالب آتی ہے تو یہ غلبہ صرف سیاسی اور ظاہری برتری کا نہیں ہوتا بلکہ حاکم قوم کی حکومت دلوں ودماغ پر بھی مسلّط ہو جاتی ہے اور اخلاق و تہذیب اور مذہب میں بھی حاکم قوم کے خیالات محکوم قوم کے خیالات پر غالب آجاتے ہیں ۔
ایسا ہی حال اس دور میں بر صغیر میں انگریز کے آنے کے بعد ہوا۔ ایسا صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ نہیں تھا بلکہ برّ صغیر ہند میں ہر مذہب اور ہر قوم اس سے متاثر تھی اور اس کے اثرات تیزی سے قبول کرتی جا رہی تھی ۔ اس وقت تک ملک کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا اور نہ ہی موجودہ دور کی طرح ہندو مسلم میں آپسی بغض و عداوت اور دشمنی پائی جاتی تھی اور نہ ہی ایسی سیاست ہوا کرتی تھی کہ لوگوں میں نفرت کا بیج بویا جائے۔
یہی وجہ تھی کہ اس وقت گنگا جمناتہذیب اپنے عروج پر تھی اور مسلم ہندودونوں میں بہت حد تک اتحاد و اتفاق ہوا کرتاتھا ۔ انگریزوں کو ملک بدر کرنے، وطن کو آزاد کرانے اور ان کی تہذیب و تمدن سے اپنے مذہب ، تہذیب و تمدن ، عقیدے،اور معاشرے کو بچانے میں دونوں قوم کی شخصیتوں نے بھر پور حصہ لیا۔
اس وقت بر صغیر میں دو طرح کے ذہن پائے جاتے تھے ۔ ایک وہ جو انگریز اور ان کے افکار ونظریات کو پسند کرتے تھے اور انہیں کے رنگ میں رنگ جانا چاہتے تھے ۔ دوسرے وہ جو انگریز اور ان کے تہذیب و تمدن کو ناپسند کرتے تھے اور اپنے مذہبی افکار و نظریات کو سینوں میں آباد رکھنا چاہتے تھے ۔ انیسویں صدی میں موخر الذکر ذہن کے دو خاندانوں میں دو عظیم شخصیتیں پیدا ہوئیں، جن کو بعد میں دنیا نے رابند ر ناتھ ٹیگوراورعلاّمہ اقبال کے نام سے جانا۔
رابندر ناتھ ٹیگور (1861-1941) کلکتہ میں پید ا ہوئے ۔آپ کا خاندان فنونِ لطیفہ اور تصوف کا علم بردار تھا۔ آپ کے والد مہارشی دیوندر ناتھ ٹیگور عبادت وریاضت، زہد ومراقبہ اور مشاہدہ و مطالعہ فطرت جیسی صفات کے حامل تھے ۔ساتھ ہی حافظ شیرازی اور رومی سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ اس گھرانے کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ مسلمانوں کے علوم ا ور تہذیب و تمدن سے پوری طرح واقف تھا۔ ان تمام چیزوں کا اثر رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی قبول کیا ۔ اسی وجہ سے ا ن کے نظریہ  حیات میں قبولیت ِشکر گزاری اورقدر شناسی پائی جاتی ہے۔ زندگی سے نفرت ، جھنجھلاہٹ اور شکوہ شکایات سے آپ ہمیشہ دور رہے اور آپ میں مشرقی اقدار سے محبت ، انسانیت سے ہمدردی، مذہب پسندی ، جمال پرستی، تصوف پسندی اور دنیا سے بے زاری وغیرہ جیسی خصوصیات پیدا ہوئیں ۔جن کا اثرآپ کی شاعری ،ناول، ڈرامے، افسانے، مصوری وغیرہ میں بھی نظر آتا ہے۔
علاّمہ اقبال (1877-1938) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صوفی منش بزرگ انسان تھے۔ ان میں مذہبیت اور دین داری کا غلبہ تھا، چناں چہ آپ کی تعلیم و پرورش خالص صوفیانہ مذہبی اور اخلاقی اصولوں پر ہوئی۔ آپ کی والدہ محترمہ بھی دین دار اور عبادت گزار خاتون تھیں، اس لیے انھوں نے بھی ان کی مذہبی اور اخلاق تربیت میں نمایاں حصہ لیا۔ آپ کے گھر میں شدّت پسندی اور تنگ نظری نہ تھی ۔ ان تمام چیزوں کا اثر علاّمہ اقبال پر بھی پڑا،چناں چہ آپ کی شاعری میں اس کے اثرات ہمیں واضح طور سے نظر آتے ہیں۔
آپ کشمیری پنڈتوں کے قدیم خاندان سے تعلق رکھتے تھے ، جس کی ایک شاخ اب تک کشمیر میں موجود ہے ، آپ کے جدِّ اعلیٰ ایک ولی کے ساتھ حسنِ عقیدت ہو جانے کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے فرمایا:
        میں اصل کاخاص سومناتی                           آبا مرے لاتی و مناتی
        مرا بنگر کردرہندوستاں دیگر نمی بینی             برھمن زادہ رمز آشنائے روم و تبریز است
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ٹیگور اور اقبال دونوں کا تعلق مذہبی گھرانے سے ہوتا ہے اور دونوں کی پرورش مذہبی طرز پر ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کی رجحان اپنے اپنے مذہب کی طرف ہے ۔لیکن دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ٹیگور کے یہاں سارے مذاہب کی سچائی قبول کرلی جاتی تھی اور سب کو یکساں طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جب کہ علاّمہ اقبال کے گھر میں اسلام اور اس کی تعلیمات ہی کو اولیت حاصل تھی۔ چناں چہ دونوں کی شاعری میں اس بنیادی فرق کا اثر واضح طور سے نظر آئے گا۔
 ٹیگور کی شاعری کے مطالعے سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ وہ’ وحدة الوجود‘ کے قائل تھے۔ آپ شام کے گیت میں کہتے ہیں:
وہ خدا جو آگ میں ہے
        جو پانی میں ہے
        اور جو تمام دنیاپر چھایا ہوا ہے
        میں اسی خدا کو پیہم سجدے کرتا ہوں
   علامہ اقبال بھی توحید کو قرآن کریم کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
قرآن سے پہلے کسی ارضی یا سمٰوی کتاب نے انسان کو اس بلند مقام پر نہیں پہنچایا جس کی قرآن نے اطلاع دی ، یہ لفظ ’ سخر لکم مافی السمٰوات والارض‘تم قرآن کے سوا کہیں نہیں دیکھوگے۔ آج تک تم جن ارضی و سمٰوی مہیب یا مفید ہستیوں کو اپنا معبود سمجھتے رہے ہو وہ سب اور تمام دیگر کائنات تمہاری خدمت کے لیے خلق کی گئی ہیں ، توحید کا یہ مرتبہ اعلیٰ ماسوا سے بے پروا کردینے والا یہ انسانی خودی کا حقیقی عرفان قرآن سے پہلے کہیں نظر نہیں آتا“(البیان اقبال نمبر ، دسمبر1939ء،ص 23)۔
تعلیم
روایت کے بر خلاف رابندر ناتھ ٹیگور کی تعلیم اسکولوں میں نہ ہو سکی، جب کہ ان کے خاندان کے دیگر بچے اسکول جاتے تھے اور گھر پر بھی اساتذہ ان کو پڑھانے آیا کرتے تھے لیکن اسکولوں کی بے جا سختی ، قید و بند اور استادوں کی سخت گیری کی وجہ سے آپ کا دل اسکولوں ، استادوں اور کتابوں سے اچاٹ ہو گیا اور آپ مطالعہ فطرت کی طرف متوجہ ہوگئے ۔گھنٹو ں ان میں کھوئے رہتے ۔ اسی سے آپ کو نغمہ ، رقص ، موسیقی اور مصوری وغیرہ سے دلچسپی پیدا ہوئی جس کا اثر آپ کی شاعری پر بھی ہوا۔
 رابندر ناتھ ٹیگور کے برخلاف علاّمہ اقبال کی تعلیم روایتی طریقے سے ہوئی ۔ آپ نے ہائی اسکول ، انٹر کے بعد بی اے ،ایم اے کیا اور پھر ایرانی الٰہیات پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
اس طرح سے ہم دیکھتے ہیں گو کہ ٹیگور اور اقبال کی طرزِ تعلیم الگ الگ منہج پر ہوئی لیکن بعد میں دونوں کے نظریہ تعلیم میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرورپائی جاتی ہے۔
ٹیگور نے تعلیم کا مقصد طلبا کی فطری ذہنی نشوونما قرار دیا ہے اور بتایا کہ ذہنی ہم آہنگی سے طلبہ میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے اور رغبت بڑھتی ہے ۔اسی نظریہ کو دوسرے لفظوں میں جان ایڈمس نے پیش کیا ہے :
فطری نظام تعلیم ایک ایسا نظام ہے جو مدرسوں اور کتابوں پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ طالب علم کی خوداپنی زندگی پر مبنی ہوتا ہے ۔ اس کا مقصد ایسے حالات پیدا کرنا ہوتا ہے جس سے بچے کی فطری نشوونما ہو سکے“۔
ٹیگور نے اپنے ان خیالات کے مطابق بچوں کو تعلیم دینے کے لیے 22/ دسمبر 1901ءمیں ’شانتی نکیتن‘ کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کا اولین مقصد تعلیم کو زندگی کا ایسا جزبنانا تھا کہ اس کو کبھی علٰیحدہ نہ کیاجا سکے۔ آپ نے اس میں مختلف طرح کے کام، جسمانی نشوونما ، کھیل کود، حفظانِ صحت ، سیکولرزم اور تہذیبی اقدار کی حفاظت پر خصوصی توجہ دی ۔ آپ موجودہ طرز تعلیم کے خلاف تھے، اسے تعلیمی ترقی میں رکاوٹ سمجھتے تھے ۔
علامہ اقبال بھی موجودہ تعلیمی نظریات و افکار سے متفق نہیں تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر چہ مغربی تعلیم نے مختلف طرح کی ایجادات و اختراعات سے انسانیت کو فائدہ پہنچایا، لیکن اسی تعلیم نے انسانوں کے اندر سے خدا کا تصور، مذہب ،اخلاق اور بلند کردار کا خاتمہ بھی کر دیا۔ آپ نے اس کو اپنے مخصوص انداز میں کچھ اس طرح سے کہا :
        خوش تو ہم بھی ہیں جوانوں کی ترقی سے مگر
        اب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
        ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
        کیا خبر تھی چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
        گھر میں پرویز کے شہرمیں تو ہوئی جلوہ نما
        لے کے آتی ہے تیشہ فریا د بھی ساتھ
آپ کی اس خدمت کا اعتراف عظیم اسلامی مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے بھی کیا ۔ آپ فرماتے ہیں کہ :
سب سے اہم کام جو اقبال نے انجام دیا ہے وہ یہ تھا کہ انہوں نے مغربیت اور مغربی مادہ پرستی پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگائی۔ اگر چہ یہ کام اس وقت علماءدین، اہلِ مدارس اور خطیب حضرات بھی انجام دے رہے تھے ،مگر ان کی باتوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا تھا اورکیاجاسکتا تھا کہ یہ لوگ مغربی فلسفہ اور مغربی تعلیم و تہذیب سے واقفیت نہیں رکھتے۔ ان کے برعکس اقبال وہ شخص تھا جس کے متعلق کوئی بڑے سے بڑا جدید آدمی اٹھ کر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ ان سے زیادہ مغرب کو جانتا ہے اور ان سے زیادہ مغربی فلسفے اور مغربی علوم سے واقف ہے “۔ (اقبال ، دارالاسلام اور مودودی، از اسعد گیلانی ص 21,22)۔
        علامہ اقبال نے یورپ میں تعلیم کی غرض سے کئی سال گزارے تھے۔ آپ مغربی تعلیم کے زہریلے پن سے بخوبی واقف تھے۔ چنانچہ آپ اس سے قوم کو آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
        لیکن نگاہ نکتہ میں دیکھے زبوں حالی مری
        رفتم کہ خاراز پاکشم محمل نہاں شداز نظر
        یک لخطہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد
فطرت کا تصور
        رابندر ناتھ ٹیگور کو فطرت کے مناظر سے دلچسپی شروع سے ہی تھی اور قدرتی ماحول ، زمین و آسمان ، موسموں اور نباتاتی زندگی سے براہ راست تعلق اور بود باش کی سادگی وغیرہ نے آپ کو بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔ آپ نے اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا :
میں روزانہ کھڑکی کے سامنے بیٹھتا اور بیرونی دنیا کے حالات و مناظر کا تصور کرتا رہتا۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن ہی سے میں مطالعہ قدرت کا عاشق تھا۔ جب آسمان پر بادلوں کو ایک ایک کر کے آتے دیکھتا تو فرطِ مسرت سے از خود رفتگی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ۔ اس ابتدائی عمر میں بھی مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ایک نہایت گہرا اور بے تکلف دوست مجھے محصور کیے ہوئے ہے۔ اگر چہ اس وقت مجھے اتنا شعور نہ تھا کہ اس کا کوئی نام و نشان بتا سکتا۔مجھے نیچر سے اتنی محبت تھی کہ الفاظ میں اس کا اظہار ممکن نہیں، نیچر ایک قسم کی رفیق تھی جو ہر وقت میرے ساتھ رہتی تھی اور ہمیشہ نیا حسن میرے سامنے پیش کرتی رہتی تھی۔ (رابندر ناتھ ٹیگور : فکر و فن، خالد محمود و شہزادانجم، ص69)۔

فطرت سے عشق آپ کو اپنے والد سے وراثت میں ملا تھا۔ سب سے پہلے آپ نے اوائل عمر میں اپنے والد کی رہ نمائی میں ہمالیہ کا سفر کیا اور وہاں قدرت کا شاہ کار حسن دیکھا ،جس کا جادو آپ پر تاحیات قائم رہا اور مناظر قدرت سے عشق آ پ کی طبیعتِ ثانیہ بن گئی ۔
مذکورہ بالا تمام صفات کا اثر آپ کی شاعری پر بھی ہوا۔ چناں چہ آپ کی شاعری میں لہلہاتے کھیتوں ، اڑتے، چہچہاتے پرندوں، مٹی  سے پھیلنے والی خوشبوں، بادلوں، پھولوں اور ہر پل بدلتے موسموں ،پہاڑوں، دریاں ، سمندروں کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے مثلاً :
        صبح دم خامشی کا سمندر تھا بھوکا
        کہ جیسے ہو چڑیا کے گیتوں کی لہریں
        کھلے پھول جو رہ گزر کے کنارے پہ تھے
        کتنے سر شار تھے
        بادلوں کے جھروکوں سے گر گر کے
        سونے کی دولت تھی بکھری ہوئی
        پھر بھی ہم اتنے مصروف تھے
        ان نظاروں کو پل پھر بھی دیکھا نہیں
        راہ پر اپنی چلتے رہے
        علامہ اقبال کو بھی مناظرِ فطرت سے دلچسپی تھی۔ جس کا ثبوت آپ کی چند مشہور نظمیں’ ہمالیہ ، جگنو، رات ، شبنم ، ستارے، قمر، زہرہ ، مشتری ، کلی اور پھول‘ وغیرہ ہیں۔ جس میں آپ نے فطرت کے حسن کو احسن طریقہ سے شاعری کی زبان میں پیش کیا ہے۔
        لیکن یہاں ہمیں ٹیگور اور اقبال میں ایک فرق نظر آتا ہے کہ ٹیگور نے فطرت کے حسن اور خوبصورتی کو سکونِ قلب اور لطف اندوزی کے لیے بیان کیا ہے، جب کہ علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں قدرت کے حسن اور مناظر سے انسان کو تحریک، نصیحت اور عبرت حاصل کرنے پر ابھارا ہے۔ آپ فرماتے ہیں :
کھول آنکھ ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ              مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوہ  بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ               ایام جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکہ بیم ورجادیکھ
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں               یہ گنبد افلاک پہ خاموش فضائیں
 یہ کوہ یہ صحرا یہ سمندر یہ ہوائیں             تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں :
نہ اٹھا جذبہ خورشید اک برگ گل تک بھی
یہ رفعت کی تمنا ہے کہ لے اڑتی ہے شبنم کو
حب الوطنی اور قومیت کا تصور
        برصغیر میں شروع ہی سے ذات پات اور چھوت چھات کا نظام موجود تھا۔ نچلی ذات کے لوگوں کو کم تر اور حقیر سمجھا جاتا تھا۔ سماج میں عدم مساوات پائی جاتی تھی ۔ رابندر ناتھ ٹیگور اس کے سخت مخالف تھے۔ آپ معاشرہ میں برابری کے قائل تھے اور قومیت یا علاقائیت کی بنیاد پر کی جانے والی تفریق کی سخت مذمت کرتے تھے۔
 آپ کے نزدیک قومیت کا تصور یہی تھا کہ تمام انسان بغیر کسی بھید بھا کے آپس میں مل جل کر بحیثیت ایک قومکے امن و سکون کے ساتھ رہیں۔ ان میں آپسی تعصب و فرقہ پرستی نہ ہو اور اس میں عوام کے مختلف طبقات میں سے کسی کا ستحصال نہ ہو ،لیکن بد قسمتی سے آپ کے قومیت کے اس نظریہ کو فروغ نہ مل سکا۔اس میں ذات پات ، اونچ نیچ، بھید بھا کے نظام، مختلف مذاہب اور نسلوں کے اختلاف نے اہم کردار ادا کیا اور پھر انگریزوں نے’ سوشلزم اور جمہوریت‘ کے پُر فریب نعروں سے ایک دوسری قومیت کے نظریہ کو فروغ دیا۔ ان کا مقصد صرف برّصغیر میں حکومت کرنا اور اس کی دولت پر قبضہ جمانا تھا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔
رابندر ناتھ ٹیگور کی دوررَس نگاہوں نے مغرب کی اس چال کو بھانپ لیا تھا اور آپ نے اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مغرب و مشق میں امن کا پیام لے کر گھومے اور اپنے اس مخصوص قومی نظریہ کو فروغ دینے کے لیے ہندو، مسلم ، سکھ اور عیسائی سب سے درخواست کی ۔اپنے اشعار وں سے بھی اس پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی ۔ آپ کی نظم’ زیارت گاہ ہند‘ اس کی واضح مثال ہے :
        ہند کی عظیم امڈتی ہوئی آبادی کی شکل میں سمندر کے ساحل پر
        کوئی نہیں جانتا کس کی پکار اتنے آدمیوں کی دھارا
        کہاں سے ایک سرچشمہ بن کر پھوٹ پڑی اور بھارت ساگر میں کھو گئی
یہاں آریہ، غیر آریہ، یہاں دراوڑ اور چینی-
        شک ، ھون ، دل پٹھان اور مغل ایک جسم میں سما گئے
        آ اے آرئےے ، آ اے ان آر ئےے، ہندو اور مسلمان
        آ آ آج تم اے اہلِ فرنگ ، آ آ اے عیسائی
        آ اے برہمن پاکیزگیِ قلب کے ساتھ، سب کا ہاتھ پکڑو
        آ اے پست اقوام کے لوگو! دور کرو اپنی توہین کا بوجھ
علامہ اقبال کے اندر بھی قوم اور وطن سے محبت کا جذبہ موجود تھا بلکہ شروع میںیہ کچھ زیادہ ہی تھا ۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی وطنی قومی نظموں کی بنیاد فخر و دعویٰ پر رکھی۔ ایک ایسا فخر اور دعویٰ جو عوام الناس میں جوش بھر دے۔جب کہ آپ سے پہلے قومی اور وطنی نظموں میں قوم کی منفی حالت کی عکاّسی کی جاتی تھی، جس سے لوگوں میں مایوسی اور اضمحلالی کیفیت پیدا ہوتی تھی۔ آپ وطن کی محبت سے سرشار ہو کر فرماتے ہیں :
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا                  ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا                    وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں              گلشن ہے جس کے دم سے رشک جناں ہمارا
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے              اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
بات اگر اقبال کے قومیت کے نظریہ سے متعلق کی جائے تو رابندر ناتھ ٹیگور کی طرح آپ نے بھی اس کی بنیاد مادّیت کے بجائے روحانیت پر رکھی اور نسلی و ملی امتیازات کو ختم کر دینا چاہا۔ اخوت و بھائی چارگی کی ایسی مثال پیش کرنی چاہی جو مہاجرینِ مکہ اور انصارِ مدینہ میں پیش کی تھی کہ اتحاد و اتفاق کی فضا ہو، آقا و غلام کی تمیز ختم ہو جائے، کیوں کہ
 اسی سے فساد پھیلتا ہے اور یک رنگی و یک جہتی کی ایسی فضا ہو جس میں ہر فرد اور ہر جماعت اپنے دل و دماغ سے آزادی سے کام لے اور ترقی کر سکے ساتھ ہی دنیا میں امن و سکون بھی قائم ہو۔
ٹیگور کی طرح اقبال نے بھی جمہوریت، سوشلزم کو انسانیت کے لیے مضرقرار دیا ۔ جب آپ1905ءمیں تعلیم کی غرض سے یورپ گئے اور وہاں مختلف قوموں کی باہمی رشک و رقابت کے مناظر دیکھے، ان کے قومی مسائل پر غور کیا اور قوموں کی ترقی و تنزلی کے فلسفے پر گہری نظر ڈالی تو آپ پر یہ راز کھل گیا کہ انسانیت کی فلاح قومی اور وطنی عصبیت یا نسلی و ملکی تفاخر میں نہیں ہے۔ کیوں کہ اس سے اخوت، محبت اور انسانیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور صرف قومیت کا ڈھانچہ رہ جاتا ہے جس میں کوئی روح نہیں ہوتی۔آپ فرماتے ہیں:
        از فریب عصر تو ہشیار باش           رہ فتداے راہ روہشیا باش
        آں چناں قطع اخوت کردہ اند بروطن تعمیر ملت کردہ اند
        تاوطن راشمع محفل ساختند           نوع انساں راقبائل ساختند
        مردمی اندر جہاںافسانہ شد          آدمی از آدمی بیگانہ شد
        روح از تن رفت و ہفت اندام ماند     آدمیت کم شدو اقوام ماند
        ٹیگور اور اقبال کے نظریات اس میں تقریباً ایک ہیں۔ دونوں نے مغرب کے فلسفہ قومیت، جمہوریت ، اشتراکیت کو رد کیا ہے۔ بس دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ٹیگور نے قومیت اور وطنیت کے جذبے کو صرف ہندوستانیت اور انسانیت کے دائرے میں محدود رکھا اور مذہب کی بات اس میں نہیں کی ہے ۔ جب کہ علامہ اقبال نے قومیت اور وطنیت کے جذبے میں انسانیت کے ساتھ ساتھ مذہب کو شامل کیا اور اسلام کو تمام نظام سے بہتر سمجھنے کی وجہ سے انسانیت کے دکھ دردکا مداوا اسی میں تلاش کیا اور ساری انسانیت کو اس کی تعلیم دی۔ اس کے علاوہ رسول کے اسوہ حسنہ اور اسلامی تعلیمات کو اختیار کرنے کی تلقین کی۔
سیاسی نظریہ
رابندرناتھ ٹیگور کا اصل میدان شعر و شاعری، فلسفہ، معاشرے کی اصلاح ، ناول ، ڈرامے، موسیقی اور مصوری وغیرہ تھا اور اسی میں آپ نے اپنے جوہر دکھائے، لیکن سیاست کے میدان میں بھی آپ نے اپنی طبعی میلان کی مناسبت سے حصہ لیا۔
اگر چہ آپ نے باقاعدہ کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی کسی سیاسی تحریک میں شریک ہوئے ۔ البتہ جن نظریات سے آپ کو اتفاق رہا، اس کی آپ نے نثر اور نظم دونوں کے ذریعے تائید کی ۔ سیاست میں جن چیزوں سے آپ کو اتفاق نہ تھا اس کو آپ نے نہ صرف ٹھکرادیا بلکہ اس کے خلاف عملی قدم بھی اُٹھایا۔
        ’جلیاں والا باغ‘ میں نہتے عوام کو جس طرح سے انگریز وں نے گولیوں کا نشانہ بنا یا اس سے دکھی ہو کر آپ نے’نائٹ‘ کا خطاب انگریز حکومت کو واپس کردیا۔ اس کے علاوہ جب اہلِ پنجاب پر ظلم ہوئے تواس کی تلافی کے لیےوائسرائے ہند سے اپیل کی اور انہیں خط لکھا ۔
        اسی طرح آپ نے گاندھی جی سے بھی مختلف نظریات پر نااتفاقی ظاہر کی، چاہے وہ ہندو مسلم اتحاد میں رکاوٹیں ڈالنے کا مسئلہ ہو یا بنگال کی تقسیم کا یا فرقہ وارئیت کا مسئلہ ہو ۔ آپ نے آخری وقت تک فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کو ختم کرنے کے لےے قومی و عملی دونوں جدوجہد جاری رکھی ۔رابندرناتھ ٹیگور ایک ایسا سیاسی نظام چاہتے تھے جس کی بنیاد روحانیت پر ہو نہ کہ مادّیت پر۔ اسی وجہ سے آپ نے مغرب کے مختلف سیاسی نظرےے اور فلسفے جیسے اشتراکیت ، فاشزم اور جمہوریت سب کو ٹھکرادیا۔ کیوں کہ اس میں بعض طبقوں کا استحصال ہوتا ہے۔ ایک جگہ آپ نے فرمایا :
تمہیں معلوم ہے کہ میں مغربی تہذیب کا قائل نہیں ہوں، جیسا کہ میں اس کا قائل نہیں کہ انسان کی عظیم ترین قوت صرف جسمانی قوت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میں اس کا بھی قائل نہیں ہو کہ جسمانی قوت کو ڈھایا جائے اور مادی ضرورتوں سے منہ موڑا جائے ۔ حقیقت میں جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ روح اور مادہ میں توازن اور ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ یہ توازن بالکل بنیاد اور ڈھانچے کا توازن ہے“۔
ٹیگورکی دلی خواہش تھی کہ فاشزم کو شکست ہو۔ آ پ نے بچوں کی نظموں میں فاشزم کی سخت مخالفت کی، اس کا مذاق اڑایا اور ہٹلر مولینی کی کارٹون تصاویر بنائیں۔ اس کے مقابلے آپ نے عالم گیر انسانیت اور روحانی ہم آہنگی پر زور دیا اور اس کو اپنی شاعری میں جگہ جگہ موضوع بنایا :
جہاں ذہن بے خوف ہو
اور جہاں فخر سے سراٹھاہی رہے
جہاں علم آزاد ہو
جہاں تنگ دیواروں سے
چھوٹے چھوٹے سے خانوں میں
دنیا تقسیم نہ ہو
جہاں لفظ ہو نٹوں پہ آئیں
صداقت کی گہرائیوں سے
جہاں بے تھکن جا نفشانی بھی
باہوں کو پھیلائے
                        بڑھتی کمالِ ہنر کی طرف ہو (گیتانجلی ، مترجم سہیل احمد فاروقی،ص91)۔
        علامہ اقبال کو بھی سیاست سے براہ راست دلچسپی نہ تھی مگر آپ بالواسطہ دلچسپی اس میں ضرور لیتے تھے ۔آپ بھی ایک ایسا سیاسی نظام چاہتے تھے جس سے مختلف قومیت کے تصور کا خاتمہ ہو جائے اور ایک’ عالم گیر انسانیت‘ وجود میں آئے ،جس کی بنیاد روحانیت پر ہو نہ کہ مادیت پر۔ اسی لیے آپ مغربی جمہوریت طرزِ نظام کے خلاف تھے۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں :
آبتاں تجھ کو رمز آیہ ان الملوک      سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادوگری
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام         جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
آپ جمہوری اصول کی سخت مخالف نظر آتے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :
متاع معنی بیگانہ ازدوں فطرتاں جوئی          زموراں شوخیِ طبع سلیمانی نمی آمد
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو                کہ از مغز دوصد خر فکر انسانی نمی آمد
اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش           ہر چند کہ دانا اسے کھو لانہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں      بندوں کو َگنا کرتے ہیں تو لانہیں کرتے
یعنی اس طرزِ حکومت میں قابلیت نہیں دیکھی جاتی ہے، بلکہ ووٹوں کی کثرت ِ تعداد سے ایک شخص کو منتخب کر لیا جاتا ہے ،لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو زیادہ ووٹ پائے وہ باصلاحیت بھی ہو۔
اس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ ٹیگور اور اقبال کے سیاسی نظریے کے بعض حصے ایک دوسرے سے بڑی مطابقت رکھتے ہیں۔ دونوں ہی ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں روحانیت و مادیت میں توازن ہو اور قومیت و وطنیت کے تصورسے بلند ہو کر ایک عالم گیر انسانیت ہو، جس میں کسی کا بھی استحصال نہ ہو سکے ۔دونوں نے ہی مغربی نظام حکومت جمہوریت کو نقصان دہ بتایا اور روس کے سوشلسٹ انقلاب کا استقبال کیا۔
        لیکن ٹیگور اور اقبال کے سیاسی نظرےے میں ایک فرق نظر آتا ہے، وہ یہ کہ ٹیگور کے نزدیک انسان کے فرائضی تسخیرِ فطرت تک محدود ہے اور انسانیت سے ہمدردی و اخوت ہی کُل ہے، لیکن علامہ اقبال اس سے بھی آگے بڑھ کر انسانی زندگی کا ایک مقصد بتاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سیاست میں دین کو بھی شامل کرتے ہیں، جس سے بیگانگی کی تعلیم سب سے میکیاولی نے دی۔ اس لیے آپ اس کو ابلیس کا بھیجا ہوا پیغمبر کہتے ہیں۔
آپ کے نزدیک زندگی کا وہ مقصد ’آخرت کا حصول ‘ہے۔ اس لیے آپ چاہتے ہیں کہ سیاست کا نظام مذہب اور اخلاق کی بنیاد پر ہو ورنہ سارے نظام قدیم ملوکیت کی شکل اختیار کر لیں گے۔ آپ فرماتے ہیں :
زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا             طریق کو ہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشاہو           جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
        فلسفہ
رابندر ناتھ ٹیگور برصغیر پر قابض انگریزوں کے عہد میں پلے بڑھے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ مغربی تہذیب و تمدن ہندوستانیوں کے دل و دماغ پر قبضہ جماتی جا رہی ہے اور لوگ اس کے فلسفہ حیات کو تیزی سے اختیار کرتے جا رہے ہیں تو آپ نے اس سیلاب کو روکنے کی کوشش قدیم ہندوستانی روایات اور تہذیب و تمدن سے کی۔ آپ نے قدیم وجدید اور مشرق و مغرب کے سنگم سے ایک نیا فلسفہ ’ انسانیت شناسی ‘ اور ’فطرت شناسی ‘ کی شکل میں پیش کیا اور اس کی بنیاد اپنے ذاتی روحانی تجربے پر رکھی۔ اس کی وجہ یہ تھی آپ نے جس ماحول میں پرورش پائی اس میں وید، اپنیشد، گوتم بدھ کی تعلیمات ،مغربی و اسلامی قدریں اور حافظ و رومی کے افکار ونظریات شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیگور کے فلسفیانہ خیالات میں ’ست‘ (اصل وجود )اور’ایشور‘ دونوں ایک ہیں۔ آپ نے خدا یا ایشور میں انسانی خوبیاں تلاش کی ہیں اور کہا کہ ایشورانسان کی آخری اور بلند ترین منزل ہے۔ بعض نے آپ کے اس فلسفے کو ’ٹھوس وحدت الوجود‘ کا نام دیا۔ یہ اس لیے بھی کہ آپ ’ادویت واد‘ پر یقین رکھتے تھے اور اسی ایک خدا کو مانتے تھے جو کائنات کے ہر ذرّ ے ذرّے میں ہے۔
وہ خدا جو آگ میں ہے ، جو پانی میں ہے
اور جو تمام دنیا پر چھا یا ہوا ہے
میں اسی خدا کو پیہم سجدے کرتا ہوں
ادویت واد کی ساری صفات کو بھی آپ نے تسلیم کیا اور اس کا اظہار صبح کے گیت میں کیا ہے :
تو ہمارا مالک ہے ہمیں توفیق عطا کر کہ ہم تجھے اپنا سمجھےہیں ہمیں ہمت و استظاعت
دے کہ ہم تیرے سامنے سر سجود جھکا دیں
اے مالک! اے خدا ہمارے تمام گناہ معاف کر اور تمام نیکیاں بخش کہ ہم اسے سجدہ کرتے ہیں جس میں مسرت ہے۔
آپ کے فلسفوں میں موت اور زندگی کا فلسفہ بھی ہے ۔ اس میں آپ موت کے ذریعہ زندگی کے خاتمے کو تومانتے ہیں لیکن وجود کے خاتمے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ موت کا خوش دلی سے استقبال کرتے ہیں آپ کہتے ہیں کہ :
موت زندگی کا زریں تاج ہے۔مکمل زندگی کے لیے ایک خوش گوار اقدام۔حیات جاودانی کاراستہ۔ موت حیاتِ ابدی اور حیاتِ دنیوی کے درمیان کی ایک منزل ہے“۔
ایک جگہ آپ کہتے ہیں کہ :
اے موت! میری زندگی کا انتہائی کمال- آ
اور میرے ساتھ سرگوشیاں کر
میں ہر وقت تیرا انتظار کر رہا ہوں۔
تیرے ہی لیے میں نے زندگی کی خوشیوں، سخت غموں کو برداشت کیا ہے۔
ٹیگور کا ایک فلسفہ ترکِ رہبانیت بھی تھا۔ جس کے مطابق ” انسان کا اعلیٰ مقصد،شخصیت کی تکمیل ہے “ ۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان ا س دنیا میں عمل پیہم کرے ،نہ کہ وہ کسی جنگل کی راہ پکڑلے یا مراقبہ نشین ہو جائے ۔ آپ کا خیال تھا کہ انسان میں تخلیقی صلاحیت اور عملی قوت بہت زیادہ ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی دنیا آپ تیار کر سکتا ہے۔ آپ کے فلسفے میں روح اور جسم کا بھی ذکر ہے اور اس میں دونوں ہمیشہ ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں۔ اور ان تمام فلسفوں کا آخری پڑا ’مذہبِ انسانیت ‘پر ہو تا ہے۔
علامہ اقبال اسلامی فلسفے سے پوری طرح واقف تھے اور ساتھ ہی آپ نے مغربی فلسفے کو بھی اس کی خوبیوں اورخامیوں کے ساتھ پڑھ رکھا تھالیکن اقبال نے اپنے فلسفہ کا سلسلہ مغرب سے نہیں بلکہ ہمیشہ اسلامی مشرق سے وابستہ کیا۔ آپ اگر چہ روشن خیال تھے، لیکن آپ کا رجحان زیادہ تر قدیم مسلک کی طرف ہے چنانچہ آپ خود لکھتے ہیں :
 میرے نزدیک اقوام کی زندگی میں قدیم ایک ایسا ہی ضروری عنصر ہے جیسا کہ جدید، بلکہ میرا ذاتی میلان قدیم کی طرف ہے“۔ (اقبال نامہ ، ص841)۔
اقبال کا فلسفہ در اصل اسلامی فلسفہ اخلاق کے بنیادی ’اصول تخلّقوا با خلاق اللہ‘ کی تفسیر ہے۔چناں چہ آپ کے فلسفہ کی بنیاد ’خودی ‘ ہے جس میں وہ انسانیت کی فلاح مضمر سمجھتے تھے ۔ اس سے مراد آپ کی یہ تھی کہ انسان اپنی ذات کو سمجھنے کی کوشش کرے کہ خودی کے ذریعہ خدا تک پہنچنا ممکن ہے۔ انسان خدائی ذات کا پر تو ہے یا یہ کہ خدا انسان کی ذات میں جلوہ گر ہے۔ پس اگر انسان اپنی حقیقت کو جان لے تو وہ اس خدا کو کما حقہ پہچان سکتا ہے جس کے جمال کا جلوہ خود انسان کی ہستی ہے۔اس کی وضاحت میں آپ نے بتایا کہ انسان کی خلقت کا مقصد یہی ہے کہ وہ اپنی خودی کو مستحکم کرے اور اس کے ذریعہ عالم فطرت کو تسخیر کرے۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:
ہر چیز ہے محو خود نمائی               ہر ذرہ شہید کبریائی
بے ذوق نمود زندگی موت           تعمیر خودی میں ہے خدائی
آپ کے نزدیک فلسفہ خودی کا ایک جز بقائے دوام اور حیاتِ جاودانی بھی ہے ۔یعنی زندگی زمانے کے حادثے کے ساتھ جنگ کرنے کا نام ہے ، جس میں زندگی کو کبھی شکست نہیں ہوتی اور یہ کہ زندگی مسلسل جدوجہد ، حرکت اور تگ و دو کا نام ہے۔ آپ نے یہ بھی بتایا کہ قناعت اور رہبانیت کو چھوڑ کر اس دنیا میں جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ خودی کی تربیت اسی طرح سے ہو سکتی ہے:
بدر یا غلط و باموجش در آویز
حیاتِ جاوداں اندر ستیزاست
اقبال کا ایک فلسفہ ’انسانیت کی خودی‘ بھی ہے۔ جس میں آپ نے رنگ و نسل قبائل و اقوام کو ختم کر کے انسانیت کا ایک جامع ،بلند و ہمہ گیر مقصد دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ آپ کو مغرب کے فلسفوں اور تہذیب و تمدن سے کوئی امید نہیں ہے کیوں کہ اس کی بنیاد حرص و لالچ، مکر وفن اور قوت و مادیت پر مبنی ہے نہ کہ روحانیت پر۔
 آپ کے فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنی محنت اور اصلاحی کوششوں سے اطاعت ،ضبط نفس اور نیابت الٰہی کی منزلیں طے کرتا ہوا خودی کی انتہائی بلندی پر پہنچے اور اپنی روحانی اور مادی ترقیوں کو ملت کے لیے وقف رکھے۔
اقبال بھی ٹیگور کی طرح یورپی فلسفے اور ان کی تہذیب سے غیر مطمئن نظر آتے ہیں، لیکن وہ اس کی علمی ترقیوں کو کافی حد تک پسند کرتے ہیں کیوں کہ ان کو آگے چل کر بقاءانسانی کا ضامن بنایا جا سکتا ہے۔ آپ کو یورپ پر اعتراض یہ ہے کہ اس نے مادیت کو کُل سمجھ لیا ہے۔ اس لیے آپ نے فلسفہ بے خودی کی بنیاد روحانیت پر رکھ کر اس کو یورپ کی جمہوریت ، اشتراکیت ، فسطائیت اور قومی اشتراک جیسے فلسفوں سے علیحدہ کر دیا ہے۔
اس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ ٹیگور اور اقبال کے فلسفے میں بعض چیزوں کی مماثلت کچھ نہ کچھ حد تک ضرور پائی جاتی ہے۔ دونوں مغرب کے فلسفے کو مضر بتاتے ہیںاور اس کی وجہ ’مادیت‘ کو بتاتے ہیں۔ دونوں نے اپنے فلسفوں کیبنیاد روحانیت پر رکھی۔ دونوں رہبانیت اور ترک ِدنیا کے مخالف ہیں ۔ دونوں زندگی میں جدوجہد اور عمل کو ضروری قرار دیتے ہیں۔دونوں مرنے کے بعد روح کے باقی رہنے کو تسلیم کرتے ہیں۔فرق بس اتنا ہے کہ علامہ اقبال نے فلسفہ کی بنیاد قرآن اور اسلام کو بنایا ہے جب کہ ٹیگور نے فلسفہ کی بنیاد کو مذہبِ انسانیت تک ہی محدود رکھا ہے۔
صنف نازک    
زمانہ قدیم سے ہی عورت مظلوم رہی ۔ ہردور میں دنیا کی تہذیب یافتہ قوموں نے بھی اس کے ساتھ ناروا سلوک رکھا اور اس کے حقوق کو پامال کی۔ خواہ وہ یونانی ہوں یا رومی ، عیسائی، ہندو ہوں، سب میں عورت کو حقیر سمجھا گیا اور ا س کو سانپ کی نسل،جہنم کا دروازہ،نجاست کی پوٹ کا خطاب دیا گیا ۔ لیکن رابندرناتھ ٹیگور نے عورت ذات کی قدر کی۔ آپ کے نظرےے میں ان کے تعلق سے تنگ نظری نہیں ہے ، آپ نے اپنی شاعری میں ان کے مختلف کردار پیش کیے ہیں اور ان پر ہونے والے ظلم وستم اور ان کی حق تلفی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ آپ حسن پرست تھے اور ہر چیز میں خالق کا عکس تلاش کرتے تھے۔
آپ نے اپنی شاعری میں عورت کے مختلف کردار کو دکھایا ہے اور ان کے مشکلات و پریشانی کی ترجمانی کی ہے۔ مثلا’ نظم بہو‘ میں ایک ایسی دیہاتی لڑکی کے احساسات پیش کےے ہیں جس کو شہر راس نہیں آتا ۔ اسی طرح آپ نے ’نجات ‘ نظم کے ذریعہ لڑکیوں کے بچپن ہی میں شادی کرنے کے خلاف آواز بلندکی ہے :
اس گرہستی میں آئی تھی جب میں نو سال کی لڑکی تھی
اس کے بعد اس پر وار کی لمبی گلی کو پار کرتی
گھر بھر کی خواہش کے بوجھ سے لدے ہوئے اس جیون کو کھینچتی ہوئی آخر میں
آج میں آپہنچی راہ کی سر حد پر
سکھ دکھ کی بات
کچھ سوچوں اتنا سمے کہاں تھا؟
پر جیون اچھا یا برا جیسا بھی ہے
ٹیگور نے شاعری کے علاوہ اپنی نظموں اور کہانیوں میں بھی عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور عورت کو ماں، بہن ،بیوی اور معشوقہ کے روپ میں پیش کیا۔ بعض جگہ پر آپ نے عورت کو سیاسی رکن کی طرح بھی پیش کیا جو مردوں کی طرح اپنی ذمہ داری نبھاتی ہے۔
علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری کے ذریعہ عورتوں کو ان کے پورے حقوق دینے کی بات بلندکی اور ان کوثر یا سے اونچا مقام دیا۔ لیکن آپ نے عورت کی عصمت وعفت کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے اور موجودہ دور میں آزادی نسواں کی تحریک، عورتوں کو جس راہ پر لے جانا چاہتی ہے کہ عورت کو ماد رانہ فرائض انجام دینے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کام مردوں کا ہے وغیرہ ،اس میں چھپی عیاری کو واضح کیااور فرمایا کہ مادرانہ فرائض کو ڈھنگ سے انجام دینا ہی عورت کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں :
ازامومت پیچ وتاب جوے ما          موج و گرداب و حیات جوے ما
آن دخ رستاق زادے جاہلے          پست بالائے سطبرے بدگلے
نا تراشے پرورش نادادہ                       کم نگاہے کم زبا نے سادہ
آپ کے نزدیک عورت کا کمال یہ نہیں ہے کہ وہ علم و فضل میں ارسطو، افلاطون ، شیکسپیئر اور نیوٹن بن جائے بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ وہ ان جیسے لوگوں کو پیدا کرے:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ               اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی         کہ ہر شرف ہے اسی درج کا درمکنوں
مکالمات فلا طوں نہ لکھ سکی لیکن                       اسی کے شعلہ سے ٹوٹا شرار افلاطوں
تحریک نسواں کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ عورت نکاح کی بندش سے آزاد ہو کر انفرادی خودی کو ترقی دے، مگر علامہ اقبال عورت مرد کو ایک دوسرے کا لازمی جز مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دونوں کو علاحدہ نہیں کیا جا سکتا ۔
نغمہ خیز از زخمہ زن ساز مرد          از نیاز اودوبلا ناز مرد
پوشش عریانی مردان زن است      حسن دلجوعشق راپیراہن است
اقبال کے نزدیک خودی کی ترقی کا طریقہ یہ ہے کہ ہر فرد اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے میں آزاد ہو اور چوں کہ عورت کی صلاحیت مرد کے مقابلے میں الگ ہے تو اس کو نہ ماننا اور انکار کرنا فطرت کے خلاف بغاوت ہے (روح اقبال،ص، 269)۔       آپ نے عورتوں کو حضرت فاطمہ ؓکے اسوہ کو سامنے رکھنے اور اسے اختیار کرنے کی تلقین کی ہے :
مریم از یک نسبت عیسیٰؑ عزیز         از سہ نسبت حضرت زہراؓ عزیز
نور چشم رحمة للعالمین ﷺ                 آن امام اولین و آخرین
بانوئے آں تاجدار ہل آتی                  مرتضیٰ ؓ مشکل کشا، شیر خدا
        شاعری
رابندر ناتھ ٹیگورکی فطرت شناسی اور حسن پرستی ہی آپ کی شاعری کا اصل جوہر ہے ۔اسی لیے آپ کی شاعری کاموضوع فطری و قدرتی مناظر ،زمین،کھیت، جنگل،باغ، پہاڑ،سمندروغیر ہ ہے اورآپ نے فطرت کے حوالے سے خصوصی شاعری کی ہے ۔آپ ایک نظم ’وہ میرے مَن میں بہت ہے‘میں کہتے ہیں:
میں اس کی تلاش میں ہوں جو میرے مَن میں رہتا ہے
اندھیری رات میں ستاروں کی بہار دیکھ
صبح کو جنگل میں پھولوں کی بھرمار دیکھ-
وہ ان سب میں آپ رہتا ہے!
        جبھی،اس عالم گیر اندھیرے اور اجالے میں-(کلامِ ٹیگور،ص185)۔
اس کے علاوہ رابندر ناتھ ٹیگورکے دوسرے موضوعات میں گاوں اورشہرکے مختلف رسوم ورواج،تہوار،بچے اور ان کی معصومیت،عورتیں اور ان کے مختلف روپ،مرد اور ان کے مسائل ، انسان کی آزادی، فکر وعمل کی آزادی،امن وسکون،اتحاد کا سبق وغیرہ ہیں۔
رابندر ناتھ ٹیگور نے کالی داس،جے دیو،کبیر داس، رومی و حافظ، شیلے ،براوننگ ،ایلزبتھ اور شیکسپیئر کو بھی پڑھا تھا، جس کا اثر آپ کی شاعری میں بھی جھلکتا ہے لیکن آپ نے ان سب کے امتزاج سے اپنی ایک الگ راہ نکالی اسی وجہ سے آپ دیگر شعراءسے ممتاز نظر آتے ہیں۔آپ کی شاعری میں بے ساختہ پن ہے۔دل و دماغ میں جو کچھ آتا ہے وہ شعر کی شکل میں نکلتا ہے ۔ اسی لیے اس میں کوئی الجھاویا بکھراونہیں ہوتا۔آپ صرف یہ چاہتے ہیں کہ جیئیں اور دنیا کو بے خود اور متحیر نظروں سے خاموش دیکھتے رہیں۔چناں چہ اس نظریے سے دنیا کو دیکھنے کے بعدآپ کی جو شاعری وجود میں آتی ہے وہ لازوال ،سچی اور دل سے نکلی ہوئی آواز ہوتی ہے۔
ٹیگور کے تشبیہات اور استعارے انوکھے ہوتے ہیں ۔وہ اپنے کلام میں ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے تصور میں منظر آجاتا ہے۔ٹیگور کا شاعری کے میدان میں ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے بنگلہ کو الگ پہچان دی اور اس کو سنسکرت سے آزاد کرایا۔اس سے پہلے بنگلہ شاعری میں سنسکرت غالب تھی ۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز مادری زبان پنجابی سے کیا لیکن پھر بعد میں آپ اپنے استاد مولوی میر حسن کے کہنے پر اردو میں شعر کہنے لگے۔شروعاتی دور میں آپ نے عام صنفِ شاعری اور بچوں کی نظموں وغیرہ میں طبع آزمائی کی جیسے ایک گائے اور بکری،بچے کی دعا اور پرندے کی فریاد وغیرہ۔اسی دور میں آپ کی شاعری کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو مغربی شعراءٹینی سن،ایمرسن اور گوئٹے وغیرہ کے کلام سے ماخوذ ہے۔یہ درحقیقت اقبال کی موضوعی نظموں کا اوّلین نقوش ہیں(آثارِ اقبال،ص23)۔
لیکن یورپ سے واپسی پر آپ کی شاعری کا اصل دور شروع ہوتا ہے ،جس کو ہم اسلامی شاعری بھی کہہ سکتے ہیں۔اس میں آپ نے ایسی نظمیں کہیں جس میں خودی اور بے خودی کا فلسفہ تھا۔جیسے’ انسان اوربزم قدرت‘،’عقل و دل‘اور’کنار راوی‘ وغیرہ۔
بات اگر دونوں کے کلام کی ہو تو اگرچہ دونوں نے الگ الگ ماحول میں پرورش پائی تھی، لیکن کے دونوں کے بعض افکار و نظریات میں بڑی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے۔اس کا اثر ہم ان کے کلام میں بھی دیکھتے ہیں۔جیسے ٹیگور نے اپنی شاعری میں انسان اور کائنات کے درمیان ایک ماورائی رشتہ بتا یا ہے جس سے ظاہر و باطن کی دنیا الگ ہو جاتی ہے۔اس کو علامہ اقبال نے بھی تسلیم کیا اور کہاکہ:
” عالمِ روحانی عالمِ مادی سے بے تعلق نہیں ۔انفس و آفاق ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔(فکر ِ اقبال:خلیفہ عبد الحکیم،459)۔
ٹیگور نے تزکیہ نفس پر زور دیا ہے ۔ایک جگہ فرمایا:
میں ہمیشہ کوشش کروں گا کہ تمام برائیاں اپنے دل سے نکال ڈالوںاور اپنے عشق کو پھولوں کی طرح تازہ اور شگفتہ رکھوں۔یہ جان کر کہ تری جگہ میرے دل کی خلوتِ حرم میں ہے“(گیتا نجلی)۔
علامہ اقبال بھی دل کو پاک رکھنے کی تلقین کرتے ہیں اور اس سلسلے میں خودی کا نظریہ پیش کرتے ہیں:
دل بے سوز کم گیرو نصیب از صحبت مردے
مسِ تابیدآور کہ گیرد در تو اکسیرم
ٹیگور انسان کو سب سے بلند مقام پر دیکھنا چاہتے ہیںاوراقبال بھی اپنی شاعری کے ذریعے انسان کو بلند ترین مقام پر پہنچانا چاہتے ہیں ۔آپ فرماتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ٹیگور اور اقبال دونوں کا مقصد ایک تھا لیکن نظریہ اور طریقہ الگ تھا۔اقبال اسلام کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں ،جب کہ ٹیگور انسانیت کو ہی مذہب مانتے ہیں اور اسی پر اپنی شاعری کی بنیاد رکھتے ہیں۔اسی وجہ سے بعض افکارو نظریات میں اختلاف بھی نظر آتا ہے۔جیسے ٹیگور نے اپنی شاعری میں خدا اور انسانوں کے درمیان دوری اور قُرب کو یاس ومایوسی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ایک جگہ فرمایا:
میں تجھ کو اپنا معبود سمجھتا ہوں
اور تجھ سے دور ہی رہتا ہوں
جب میں تجھ کو اپنا نہ جانوں
تو قربت محسوس میں تجھ سے کرتا ہوں
         جب کہ اقبال کے یہاں مایوسی کا نام و نشان نہیں ملتا ہے۔چناں چہ آپ کہتے ہیں:
غلام ہمت بیدار آں سوارانم          ستارہ رابسناں سفتہ درگربستند
من ندانم نور یا ناراست اندر سینہ ام    ایں قدر دانم بیاض او بہ مہتا بے زند
 ٹیگور لازوال طاقت کے سامنے سپردگی کو روحانی سکون حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔آپ گیتانجلی میں ایک جگہ کہتے ہیں:
اے مہر درخشاں میں موسمی خزاں کے اس لکّہ ابر کی طرح ہوں جو بے کار ادھر اُدھراڑتاپھرتا ہے ،کرنوں نے مجھے چوم کر ابھی گلا نہیں دیا کہ میں فنا ہو کر تیرے نور میں مل جاوں ۔اگر تیری یہی مرضی ہے اور اگر تجھے یہی انداز پسند ہے تو الخ
جب کہ اقبال مذہب پرست تھے اس وجہ سے سپردگی کے خلاف تھے چناں چہ آپ خدا کے حضور میں بھی اپنی انسانی خودی کو فراموش نہیں کرتے ہیں:
اناالحق جز مقامِ کبریا نیست           سزاے او چلیپا ہست یا نیست
اگر فردے بگوید سرزنش بہ           اگر قومے بگوید نار وانیست
ٹیگور کی شاعری میں بعض جگہوں پر ٹیگور کی سوچ میں نفی تصوف زیادہ نظر آتا ہے ،جب کہ اقبال کے یہاں صرف اور صرف ثبوتی تصوف ہے۔آپ فرماتے ہیں:
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال  ملاّ کی شریعت میں فقط مستی گفتار
شاعر کی نوامردہ و افسردہ و بے ذوق    افکار میں سرمست،نہ خوابیدہ نہ بیدار
وہ مردمجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو                 ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
ٹیگور پر سکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں ،جب کہ اقبال خطرات سے بھری زندگی چاہتے ہیں اور مشکلات کو دعوت دے کر ان پر حاوی ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔آپ کا کمال یہی ہے کہ آپ ہار کر بیٹھ جانے والوں میں سے نہیں تھے،بلکہ اسی میں سے راہ نکالنے کی تلقین کرتے ہیں:
مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی                میری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی
تو اے مسافر شب خود چراغ بن اپنا             کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی
ٹیگور نے انسان کو بے بس اور لاچار قرار دیا ہے،لیکن اقبال کہتے ہیں کہ انسان ایک خاص حد تک ہی بے بس اور لاچار ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عملی قوت بالکلیہ محروم ہے اور وہ اپنے فہم وادراک سے عروج و کمال کے منازل طے نہیں کرسکتا۔
ٹیگورکی شاعری میں سادگی،تازگی،برجستہ پن،روانی،ترنم اور موسیقی کا لاجواب امتزاج نظر آتا ہے لیکن جوش وخروش، ولولہ اور شعلہ افشانی نہیں پائی جاتی ہے،جب کہ اقبال کی شاعری میں اضطراب،بے داری،شعلہ،مردانہ پن،جلال اور خودداری ہے۔
فنونِ لطیفہ
رابندر ناتھ ٹیگور شاعرہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ افسانہ نگا ر ،ناول نگار ، ڈرامہ نگار، موسیقار، رقاص اور مصور نگار بھی تھے ۔ ان تمام میدانوں میں آپ نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی۔ آپ خود ہی گیت لکھتے اور اس کی دھنیں خود ہی وضع کرتے تھے۔ آپ کے گیت کلاسکی ہندوستانی گانوں کے طرز پر نہیں ہیں، البتہ اس میں ہندوستانی موسیقی کا اثر ضرور دکھائی دیتا ہے۔ آپ کو بنگالی دھنوں سے خاص محبت تھی۔ دوسروں کے مقابلے میں آپ کے گیت مختلف اور متنوع موضوعات و احساسات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔
ٹیگور ہندوستان کے پہلے جدید مصور تھے اور آپ کا آرٹ اولین جدید ہندوستان آرٹ تھا۔ اگر چہ نقادوں نے اس کے آرٹ ہونے میں شک ظاہر کیا ہے لیکن ان لوگوں کی یہ رائے صرف ہندوستانی آرٹ کے پس منظر میں تھی جب کہ ٹیگور صرف ہندوستانی مصور نہیں تھے بلکہ آپ مغربی مصور ی کے بھی ماہر تھے اور راجپوت اور مغل مصوری کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ ان تمام کے امتزاج سے آپ نے نئی طرزِ مصوری ایجاد کی تھی۔
علامہ اقبال کے نزدیک ’ فن برائے فن‘ نہیں بلکہ ’فن برائے زندگی‘ ہونا چاہیے اور زندگی صرف خودی کا نام ہے اسی لیے آپ تمام فنونِ لطیفہ میں اسی زندگی کو تلاش کرتے ہیں :
سرود و شعر سیاست کتاب و دین وہنر            گہر بیں ان گرہ میں تمام یکدانہ
ضمیر بندہ خاکی سے ہے نمود ان کی             بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ
اگرخودی کی حفاظت کریں تو عین حیات                نی کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ
        اسی وجہ سے آپ نے فنونِ لطیفہ پر ٹیگور کی طرح طبع آزمائی نہیں کی۔آپ کو فنون لطیفہ میں وہیں مناظر پسند آتے ہیں ، جو حسن وجمال کے ساتھ جاہ جلال کی نمائش کریں :
یک زباں بارفتگاں صحبت گزیں               صنعت آزاد مرداں ہم بہ بیں
خیز و کارا یبک و سوری نگر                     وانما چشمے اگر داری جگر
خویش را از خود بروں آوردہ اند               ایں چنیں خود راتماشاکردہ اند
لیکن پھر بھی آپ کو ستار سے دلچسپی تھی اور آپ قوالی بھی پسند کرتے تھے۔
        اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں میں یہاں پرفنونِ لطیفہ کے نظریے میں بنیادی اختلاف پائے جاتے ہیں شاید یہ مذہب کے اختلاف کا نتیجہ ہو۔
نوبل پرائز       
ٹیگور کو” گیتانجلی “ پر1913ءمیں یورپ کا سب سے بڑا علمی انعام ’ نوبل پرائز‘ادب کے میدان میں ملا ۔یہ انعام لٹریچر کی ممتاز ترین تصنیف پردیا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کے مداحوں کو اس بات کا قلق ہمیشہ رہتا ہے کہ ان کو نوبل پرائز کیوں نہیں دیاگیا؟ چوں کہ نوبل کمیٹی کی تمام دستاویزات اور خط و کتابت پر پچاس برس تک راز رکھنے کی پابندہوتی ہے اس لیے 1960ءسے پہلے تک اس رازپر پردہ پڑا ہوا تھا۔1963میں دستاویزات کے آنے پر یہ راز کھلا کہ یورپ میں چھڑنے والی جنگ کی ممکنہ تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے کمیٹی کا خیال تھا کہ یہ انعام ایسے ہاتھ میں جائے جو شانتی، امن اور انسانیت کا درس دیتا ہو۔ کیوں کہ نوبل انعام یافتہ ادیب کوراتوں رات شہرت مل جاتی ہے تو اس کی تحریروں کا اثر واضح طور پر دنیا کے سبھی انسانوں پر کچھ نہ کچھ بہر حال پڑتا ہے۔
ہیئر لڈ ہئیارن نے مختلف ماہرین کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد یہ خیال ظاہر کیا کہ اس انعام کو کسی ایسے قلم کار کے ہاتھوں میں نہ جانا چاہےے جو کسی مخصوص قوم کے ملّی جذبات کو ابھار ہا ہو اور دنیا میں اس کو غالب ہونے کی اشاعت کر رہا ہو۔ ظاہر ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ اسلام اور مسلمانوں کی عظمت کو یاد کرنے اور اسے دو بارہ بحال کرنے پر منحصر ہے اور اقبال اپنی ملت کو اقوام مغرب سے بالاتر بھی سمجھتے تھے۔ ایک جگہ آپ نے فرمایا :
دیار مغرب کے رہنے والوں خدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ زرکم عیار ہوگا
نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
        ظاہر ہے اس طرح کے خیالات پر آپ کو نوبل پرائز کیسے مل سکتا تھا ؟ البتہ انگریز سرکار نے آپ کو ’سر‘ کا خطاب ضرور عطا کیا تھا لیکن ٹیگور نے آپ کو یہاں پر بھی مات دے دی کیوں کہ آپ کو سات برس پہلے ہی یہ خطاب مل گیا تھا۔ لیکن حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ علامہ اقبال نے اس خطاب کو ٹیگور کی طرح انگریزوں کی ظلم و زیادتی پر واپس کیوں نہیں کیا؟۔


٭٭٭٭