Tuesday 22 July 2014

(Eid al-Fitr message) عید الفطر کا پیغام

اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی
Mob:9911319959

عید الفطر اہلِ اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے۔اس کو عیداس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ہر سال واپس لوٹ کر آتی ہے اور بار بار آتی رہتی ہے۔اس کے ایک معنی خوشی اور مسرت کے بھی ہیں۔ فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں،ا س دن سے روزہ کا سلسلہ ختم ہوتا ہے ،لہٰذا اس تہوار کو عید الفطر کا نام دیا گیا ہے۔حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عید الفطر وہ دن ہے جب لوگ رمضان کے روزوں سے فارغ ہوتے ہیں اور عید ا لاضحی وہ دن ہے جب لوگ قربانیاں کرتے ہیں“۔(ترمذی:781)
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لیے صرف دو عیدیں ہیں۔بعض لوگوں نے جو دوسری’ عیدیں‘ ایجاد کر رکھی ہیں وہ بدعت میں سے ہیں اور شریعت میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
عید کا آغاز 624 میں ہوا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے اہلِ مدینہ دو عیدیں مناتے تھے،جن میں وہ لہوو لعب میں مشغول رہتے تھے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے تھے۔آپنے دریافت کیا کہ ان دونوں کی حقیقت کیا ہے؟لوگوں نے عرض کیا کہ عہدِ جاہلیت سے ہم اسی طرح دو تہوار مناتے چلے آرہے ہیں۔آپ نے فرمایا:
        اللہ تعالی نے اس سے بہتر دو دن تمہیں عطا کیے ہیں،ایک عید الفطرکا دن اور دوسرا عید الاضحی کا دن“۔(ابوداد:1134)
صدقہ فطر ادا کرنا
عید الفطر کی مناسبت سے ایک اہم کام صدقہ فطر کی ادائیگی ہے۔روزے کے دوران انسان سے جو بھول چوک یا غلطی ہوتی ہیں ،اس کی تلافی کے لیے رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر کا حکم دیا ہے۔حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کی روزی کے لیے مقرر فرمایا“۔(ابوداد:1609)
صدقہ فطر کی مشروعیت نماز سے پہلے تک ہے،بہتر ہے کہ اسے رمضان ہی میں ادا کردیا جائے تا کہ غرباءو مساکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ یہ ہر مسلمان مرد عورت چھوٹے بڑے ،سب پر فرض ہے۔اس کی مقدار ایک صاع، گندم کے علاوہ (تقریبا ڈھائی کلو گرام)اور گندم، نصف صاع ہے ۔اس کے برابر قیمت ( تقریبا60 روپئے)بھی دی جا سکتی ہے۔
چاند رات میں عید الفطر کی تیاری
چاند رات ،عید الفطر کی تیاری اور اسے منانے کے حوالے سے ہمیں اسلامی تعلیمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔چاند رات دراصل عبادت اور فضیلت کی رات ہے۔اس رات رمضان رخصت ہوجاتا ہے اور اللہ تعالی ’مزدور‘ کو اس کی ’ مزدوری‘ دیتا ہے،ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے ایک مہینہ میں کیا کھویااورکیا پایا؟رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں سے خود کواور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی یا نہیں؟اللہ تعالی سے اپنی مغفرت کرا ئی یا نہیں؟اس لیے ہمیں اس رات اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور مغفرت اور دعاں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے یا کم از کم ایسے اعمال انجام نہیں دینے چاہیے جو اللہ تعالی کے غضب کو دعوت دیتے ہوں ۔
مگر معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے۔اس رات بازاروں میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا اس قدر اختلاط ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ شانوں سے شانے ٹکراتے ہیں،جب کہ روایتوں میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی چبھوئی جائے ،یہ اس بات سے بہتر ہے کہ اس کا جسم کسی ایسی عورت سے چھو جائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے“۔(بیہقی:5455)
چاند رات آپس میں چھیڑ چھاڑ اور ہنسی مذاق ہوتا ہے، گرل فرینڈا ور بوائے فرینڈایک دوسرے کے لیے تحفے خریدتے ہیں ، خواہ والدین یا بھائی بہن کے لیے خریدیں یا نہ خریدیں،لڑکیاں بے پردہ گھومتی ہیں،اجنبی مردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر چوڑیاںپہنی جاتی ہے یا مہندی لگوائی جاتی ہے،یہ بھی زنا کی ایک شکل ہے ۔حدیثِ نبوی ہے :
 نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آدمی کے لیے اس کے حصہ کا زنا مل کر رہے گا،شہوت کی نظر سے دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے،شہوانی باتوں کا سننا کانوں کا زنا ہے،اس موضوع پر گفتگو کرنا زبان کا زنا ہے، پکڑنا ہاتھ کا زنا ہے،اس کے لیے چل کر جانا پیروں کا زنا ہے،خواہش اور تمنا دل کا زنا ہے اور شرم گاہ یا تو زنا کا عمل کر بیٹھے گی یا ارتکاب سے رک جائے گی(بخاری)
یہ کام اس وقت انجام پاتے ہیں، جب رمضان کوگذرے ہوئے ایک دن بھی نہیں ہوتااور ان کو عید کے نام پر کیا جاتا ہے جب کہ عید ،رمضان المبارک کے ذریعے ایک مہینہ کی ٹریننگ کے بعد تربیت کو ناپنے کا ذریعہ ہے کہ اب ہم اس خوشی کے موقع پر کون سا رویہ اختیار کریں گے؟وہ جو شیطان کو پسند ہے یا وہ جس کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے اوراس میں ہم اپنے نفس کی پیروی کریں گے یا احکامِ شریعت کی اتباع کریں گے؟
اس وقت والدین ،خاص کر ماں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کی عید کی تیاری میں کن چیزوں کا خیال رکھ رہی ہیں،ان کے لباس اور زیب و زینت کے سامان میں اسراف و تبذیر اور نمائش سے کام لے رہی ہیں،جو اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہے اور جس کو شیطانی عمل کہا گیا ہے یا حکمت اور تدبر سے ان کے دلوں کو خوش کر رہی ہیں کہ یہ ان کا حق ہے۔قرآن کریم نے اسراف اور فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔
ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین ۔وکان الشیطان لربہ کفورا۔(بنی اسرائیل:27)
فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے۔
اس لیے اگر اللہ تعالی نے آپ کو مال سے نوازا ہے تو اس کی اتنی نمائش نہ کریں کہ غریبوں کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے،بہت قیمتی کپڑے اور دوسری چیزیں اپنے بچوں پر نہ لادیں کہ ان کو دیکھ کر خود پر رونا آئے،اسی لیے کہا گیا ہے کہ غریب کے گھر کے سامنے گوشت کی ہڈیاں یا پھلوں کے چھلکے نہ پھیکے جائیں کہ اس کے بچے بھی دیکھ کر مانگنے لگیں اور وہ بے چارہ غم کے آنسو پی کر جلتا رہے۔
عید الفطر کی دعوتیں
صاحبِ مال کو عیدکے موقع پر غریبوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے تا کہ وہ اور ان کے بچے بھی اس خوشی میں شامل ہو سکیں۔انھیں اس دن اپنے گھروں میں بلانا چاہیے اور خو دبھی ان کے یہاں جانا چاہیے، تاکہ ان کو الگ تھلگ ہونے کا احساس نہ ہو۔وہ یہ نہ بھولیں کہ آج مسلمانوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثریت نے زکوة دینا چھوڑ دیا ہے، جس کو اللہ تعالی نے غریبوں کے لیے مقرر کیا ہے۔اس سنہرے اصول کو سکھ قوم نے اپنا لیا ،اسی وجہ سے ان میں بھکاری ڈھونڈھنے پر شاید ہی آپ کو ملے ۔
عموماً ایساہوتا ہے کہ لوگ اپنا اسٹیٹس دیکھ کر دوست احباب کو بلاتے اور ان کی دعوتیں کرتے ہیں اور غریبوں کو درکنار کر دیتے ہیں۔اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبوں کا خاص خیال رکھنے کی بارہا تاکید کی ہے۔ حضرت ابوہریرةؓ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
             ”بیواں اور مسکینوں کی خبرگیری کرنے والا،اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔(راوی حدیث کہتے ہیں کہ)میرا گمان ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ اس عبادت کرنے والے کی طرح ہے جو سست نہیں ہوتا اور اس روزے دار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا۔(بخاری:5353)
دوسری طرف عید الفطر کے موقع پر غریب بھی صبر و شکر سے کام لے کر قناعت کا تاج اپنے سر پر رکھیں۔اپنے دلوں میں اللہ تعالی سے شکوہ نہ کریں کہ وہ ہمیں کیوں نہیں دیتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کو دوسروں کے مال پر حسرت کرنے دیں۔پیوند لگے کپڑوں میں تقوی وصبر کے ساتھ جو شان ہے وہ ریشمی لباس میں نہیں۔اللہ تعالی نے جن کو غریب بنایا ہے وہ مال داروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ وہ انبیاءکرام کے طریقے پر ہیں، اگر وہ صبر و شکر سے کام لیں اور لالچ یا سوال کی ذلت نہ اٹھائیں۔حضرت اسامہ بن زیدؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو (میں نے دیکھا کہ) اس میں داخل ہونے والے زیادہ ترمساکین ہیں اور مال دار لوگوں کو (حساب کے لیے) روکا ہوا تھا۔البتہ جہنمیوں کو جہنم کی طرف لے جانے کا حکم دے دیا گیا تھا“۔(بخاری:5196)
اس لیے عید کے دن اللہ تعالی سے شکوہ شکایت کرنے کی ضرورت نہیں۔عام دن کی طرح یہ دن بھی گذر جائے گا۔رب کعبہ کی قسم دنیا کی رنگینیاں انہی کو ستاتی ہیں جو موت سے غافل ہیں اور اسی کو کل سمجھتے ہیں ، اس لیے ایک دن کی خاطر غریبی کو داغدار نہ ہونے دیں ۔اللہ تعالی اس کا بہترین اجر عطا فرمائے گا۔(انشاءاللہ)
اسی ضمن میں ایک سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ عید کے دن مسلم نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد اہتمام کے ساتھ فلم دیکھنے سینما ہال جاتی ہے ۔اسی وجہ سے سلمان خان نے عید پر اپنی فلم ریلیز کرنے کی تاریخ متعین کر رکھی ہے۔یہ مسلم قوم کی پستی کی انتہا ہے کہ لوگ عید کو اس وجہ سے بھی جانیں۔اس کا تذکرہ بڑی شان اور فخریہ انداز میں کیا جاتا ہے کہ عید پر تو سلمان خان کی فلم’ ہٹ‘ ہے۔ہم سب کو اس سے اجتناب کرنا ہوگا تاکہ ایسا نہ محسوس ہو کہ رمضان کے جاتے ہی شیطان آزاد ہو کر اپنا کام انجام دینے لگے ہیں۔
 دوسری بات یہ کہ عید کے موقع پر ہمیں فلسطین،عراق،افغانستان،برما اور مصر وغیرہ کے مسلمان،خصوصاً وہاں کے معصوم بچوں کو نہیں بھولنا چاہیے ۔ اگر ہم ان کے لیے یہاں سے کچھ کر نہیں سکتے تو کم از کم ان کی پریشانیوں اور مسائل کو یاد کرتے ہوئے اللہ تعالی سے دعا تو کر سکتے ہیں کہ ان کے مسائل حل کرے اور انھیں بھی ہماری طرح خوشیاں منانے کا موقع عنایت کرے۔
عید کی سنتیں
(۱)غسل کرنا(۲)حسبِ استطاعت نئے کپڑے پہنا(۳)خوشبو لگانا(۴)کھجور کھانا،حضرت انسؓ سے مروی ہے:
نبی کریمﷺ عیدالفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے ۔عموماًان کی تعداد طاق ہوتی تھی۔“(بخاری:9530)
(۵)عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ اس سے ہر قدم پر ثواب ملتا ہے اور غیروں کو مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی احساس ہوتا ہے ۔حضرت ابورافعؓ روایت کرتے ہیں کہ:
نبی کریمﷺ عید کی نماز کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے ،اس کے علاوہ دوسرے راستے سے واپس آتے تھے“۔(ابنِ ماجہ:1300)
(۶) راستے میں تکبیریں (اللہ اکبر اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا ،ہم سب کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے،نوجوان طبقہ عموماً آپس میں ہوہااور دنیا بھر کی بکواس کرتا ہوا جاتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تا کہ اللہ تعالی کی حمد ہو اور دوسرے محسوس کریں کہ آج کوئی خاص دن ہے ۔اس سے غیروں پر رعب بھی پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ مرے مرے انداز میں منہ لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔
(۷) خطبہ سننا:نمازِ عید الفطر کے بعد امام خطبہ دیتا ہے ،اس کو سن کر جانا چاہیے،اکثر لوگ نماز ختم ہوتے ہی بھاگنے لگتے ہیں۔خطبہ میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے،اللہ تعالی سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگی جاتی ہے ،عالمِ اسلام اور بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں،جن کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے اور پوچھتاہے:اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزا ہے جو اپنا کام مکمل کر دے ؟فرشتے عرض کرتے ہیں:اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
اے میرے فرشتو!میرے بندوں اور باندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نمازِ عید کی صورت میں) دعا کے لیے نکل آئے ہیں،میری عزت و جلال،میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم!میں ان کی دعاں کی ضرور قبول کروں گا،اللہ تعالی پھر فرماتا ہے: بندو! گھروں کو لوٹ جا، میں نے تمہیں بخش دیااور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔نبیِ کریم ﷺ فرماتے ہیں! پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) اس حال میں لوٹتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں“۔
خواتین کا عیدگاہ میں جانا
عید کی نماز کے لیے خواتین اور بچے بچیوں کو بھی لانا چاہیے۔حضرت امِ عطیہ ؓ سے مروی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی کے روز پردہ نشین دوشیزاں،چھوٹی بچیوںاور حائضہ عورتوں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں گی ، اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں گی۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ :بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جن کے پاس چادر نہیں ہوتی۔فرمایا! جس عورت کے پاس چادر نہ ہو ،وہ اپنی بہن سے لے لے“۔(بخاری:974)
عیدگاہ کے منتظمین کو اس کے لیے پردے اور دوسری ضروریات کا انتظام کرنا چاہیے۔اس سے شوکتِ اسلام کا اظہار ہوتا ہے اور مرد عورتیں بچے عیدگاہ میں اللہ تعالی کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دعائیں کرتے ہیں تو اگر کسی ایک کی بھی دعا قبول ہو گئی تو یہ تمام حاضرین کے لیے باعثِ برکت ہو گی۔تنگ نظر علما اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں ، معلوم نہیں ۔جب کہ یہی عورتیں اور لڑکیاں بے تحاشا بازاروں، یونیورسٹیوں، کالجوں ، میلوں اور عرسوںوغیرہ میں شریک ہوتی ہیں،تب ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
البتہ خواتین کو عیدگاہ آتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ پردے میں ہوں،خوشبونہ رکھی ہو،مردوں سے الگ ہو کراور راستے کے کنارے دب کر چلیں۔خوشبو کے سلسلے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:
”    جب عورت خوشبو لگا کر نکلتی ہے اور کسی مجلس کے پاس سے گذرتی ہے تو وہ ایسی اور ویسی ہے یعنی زانیہ ہے“۔(ابوداد:4173)
 شوال کے چھ روزے رکھنا
اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے رمضان کے بعد والے مہینہ یعنی شوال میں چھ نفلی روزے رکھے،تاکہ رمضان کے جاتے ہی عبادات و اذکار کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے اور ان کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر رکھا کہ انسان اس کی طرف مائل ہو۔احادیث میں اس کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے، اس کے بعد شوال میں چھ روزے رکھے تو اس کو عمر بھر روزے رکھنے کا ثواب مل جائے گا“۔(مسلم:1165)
usama9911@gmail.com


Friday 18 July 2014

(Shab-e-Qadar And Muslim Society) شبِ قدر اور مسلم معاشرہ

اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی

شبِ قدرسے مراد رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔یعنی اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں شب ۔قرآن مجید نے شبِ قدر کو ایک ہزار راتوں سے بہتر قرار دیا ہے ۔یہاں ہزار مہینوں سے مراد اس دنیا میں رائج 83 سال 4 مہینہ نہیں ہیں بلکہ سالہا سال پر مشتمل طویل مدت ہے۔اس کا مطلب یہ ہواکہ ہزار مہینوں کے شب وروز کی عبادت سے جتنا ثواب ملتا ہے اور اللہ تعالی کی قربت حاصل ہوتی ہے ،وہ اس ایک رات میں حاصل ہو جاتی ہے ۔

وجہ تسمیہ :اس کے نام کے سلسلے میں مختلف توجیہ بیان کی جاتی ہے ۔جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
٭قدر کے معنی تقدیر اور حکم کے ہیں۔اس رات تمام مخلوقات کے لیے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے ،اس کا جو حصہ اس رمضان سے آئندہ رمضان تک پیش آنے والا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو کائنات کی تدبیر اور تنفیذِ امور کے لیے مقرر ہیں۔اس لیے اس رات کا ناملیلة القدر رکھا گیا۔
٭قدر کے ایک معنی عظمت و شرافت کے بھی آتے ہیں ،چوں کہ یہ عظمت و شرافت والی رات ہے اس لیے اس کا نام لیلة القدر رکھا گیا۔
       ٭قدر کے ایک معنی تنگی کے آتے ہیں اور اس رات فرشتے اتنی کثیر تعداد میں زمین پر اترتے ہیں کہ جگہ تنگ پڑ جاتی ہے اس لیے اس کو لیلة القدر کہا گیا۔
شبِ قدر میں انجام پانے والے امور
روایتوں میں آتا ہے کہ اس مبارک رات میں مختلف امور انجام پاتے ہیں جیسے اسی رات جنت میں درخت لگائے گئے، اسی رات قرآن کریم لوحِ محوظ سے آسمانی دنیا پر نازل ہوا،اسی رات ملائکہ کی پیدائش ہوتی ہے ،اسی رات ملائکہ نازل ہوتے ہیں،یہی وہ رات ہے جو سراپا سلامتی ہے ، اسی رات اللہ تعالی کی رحمتِ خاصہ نازل ہوتی ہیں اور اسی رات میں دعائیں بکثرت قبول ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
شبِ قدر کی فضیلت
حضرت امام مالکؒ اپنی کتاب موطا میں روایت کرتے ہیں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھلی امتوں کی عمریں دکھلائی گئیں تو شاید آپ کواپنی امت کی عمروں کو بہ نسبت ان کے کم دیکھ کر یہ خیال ہوا کہ میری امت کے لوگ عمل کے اس درجے تک نہیں پہنچ سکیں گے جس پرسابقہ امتوں کے لوگ پہنچے ہیں تو اللہ تعالی نے آپ کو شبِ قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے(جس میں عبادت کرنے کا ثواب برسہا برس کی عبادت کے اجر و ثواب کے برابر ہے)ارشادِ ربانی ہے:
انا انزلناہ فی لیلةالقدر۔وما ادراک ما لیلة القدر۔لیلة القدر خیر من الف شھر۔تنزل الملٰئکة و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر۔سلٰم ہی حتی مطلع الفجر(القدر:(1-5)
ہم نے اس(قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے ۔اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے؟شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوعِ فجر تک“۔
 اس حدیث سے بھی ہم اس کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 ”جو شخص شبِ قدر میں ایمان اور احتساب کے ساتھ کھڑا ہو (یعنی اس رات میں نفل پڑھے )تو اس کے پہلے کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے“۔(بخاری:1/270)
 خیال رہے کہ اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں اور کبیرہ گناہ بغیر متعین توبہ کے معاف نہیں ہوتے ہیں ، اس کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ ایک مومن کی شایانِ شان بات نہیں ہے کہ وہ کبیرہ گناہ کرے اور پھر تائب نہ ہو۔عہدِ نبوی میں اس کا تصور ہی نہیں تھا۔کبیرہ گناہوں کو بے فکری سے بطور عادت اپنا لینا اور فسق و فجور پر مطمئن رہنا منافق کا کام ہے۔ایک مسلم کی شان یہ ہے کہ اولاً تو کبیرہ گناہوں کا مرتکب نہ ہو اور اگر شیطان اس سے ایسی حرکت کرا بھی دے تو فوراً اس سے تائب ہو جائے اور ندامت کے آنسو سے گناہ کو دھو ڈالے۔
شبِ قدرکی پہچان
اللہ تعالی نے اس کو باقاعدہ متعین طور پر نہیں بتایا ہے بلکہ بعض قریب ترین اشاروں سے رہ نمائی کر دی ہے۔ حدیث نبوی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
شبِ قدر تلاش کرو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں، اس رات کی خا ص پہچان یہ ہے کہ اس صبح کو جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی شعاعیں نہیں ہوتی ہیں“۔(مسلم:762)
بعض لوگ اس سے مراد رمضان کی ستائیسویں شب لیتے ہیں لیکن یہ متعین طور سے نہیں کہا جا سکتا ۔اس کو مبہم رکھنے میں غالباً اللہ تعالی کی یہ مصلحت ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کم از کم پانچ راتوں میں انسان اس کی عبادت کا خاص اہتمام کرے ۔
شبِ قدر کی دعا
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے پوچھا کہ اگر مجھے شبِ قدر کا معلوم ہو جائے تو میں اللہ تعالی سے کیا مانگوں؟آپ نے فرمایا عرض کرو کہ:
الھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔
 ”ائے اللہ تو بہت معاف کرنے والا ہے ،معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرما دے“۔(ترمذی)
شبِ قدر میں کیا کریں؟
ان راتوں میں نفلی نماز ،قرآن کی تلاوت مع ترجمہ،احادیث و دینی کتب کا مطالعہ،ذکر و دعا،توبہ استغفار، وغیرہ کا بطور خاص اہتمام کرنا چاہیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں عبادت اور دوسرے نیک کاموں میں خود بھی اہتمام کرتے تھے اور اپنے اہل و عیال اور دوسرے لوگوںکو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔جیسا کہ حدیثِ نبوی ہے:
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ رمضان کے آخری عشرے میں جس قدر محنت و مشقت سے عبادت کرتے دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے“۔(مسلم:1175)
آج ہم مسلمانوں کی اکثریت اس سے غافل ہے ۔اگر خود عبادت کرتے بھی ہیں تو اپنی بیوی اور بچوں کو اس کی طرف متوجہ نہیں کرتے ہیں کہ جانے دو ،بیوی دن بھر کام کاج میں لگی ہوئی تھی تو تھک گئی ہوگی یا بچے اتنے گرم موسم میں روزہ رکھ رہے ہیں اور اسی حالت میں اسکول جانا ہوتا ہے تو نیند خراب ہو گی اور اس سے پڑھائی متاثر ہوگی ۔لیکن اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ یہ دنیا ہی کل نہیں ہے ۔آخرت کی زندگی ہی دائمی زندگی ہے اور اسی میں اصل کامیابی ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم خود کو اور اپنے اہل و عیال کو بھی جہنم کی آگ سے بچا سکیں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :
یٰا ایھا الذین اٰمنوا قوا انفسکم و اھلیکم نارا و قودھا الناس و الحجارة.(التحریم:6)
ائے لوگو جو ایمان لائے ہو،بچا اپنے آپ کو اور اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے“۔
 حضرت عمرؓ نے پوچھا یا رسول اللہ خود کو تو جہنم سے بچاناسمجھ میں آ گیا لیکن گھر والوں کو کیسے بچائیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس سے تم کو منع کیا گیا، ا ن کو منع کرواور جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ،اس کا تم انھیں بھی حکم دو“۔
ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب میں وہ ہوگا جو اپنے گھر سے بے خبر رہا۔(روح المعانی:28/156)
 لیکن ہمیں اس کی عموماً فکر نہیں ہوتی ہے ۔اولاد کی پڑھائی کے سلسلے میں یا ان کے نمبرات کم آنے پر محاسبہ ضرور کیا جاتا ہے مگر نماز،روزے اور عبادات کے معاملے میں کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہوتی یا ہوئی بھی تو رسمی طور سے اور پھر کہہ دیا جاتا ہے کہ کیا کریں صاحب!اولاد تو ہماری سنتی ہی نہیں۔لیکن اسی اولاد کو پڑھائی یا کاروبار کے سلسلے میں خوب ’سنایا‘ جاتا ہے۔
 ہم میں سے اکثرکا آخری عشرے کے آتے آتے سارا جوش ختم ہونے لگتا ہے اور عید کی تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔خاص کر لڑکیوں اور خواتین کے آخری دس دن بازاروں کے چکر کاٹتے ہوئے گزرتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ رمضان خریدوفروخت،بازاروں میں چلنے پھرنے،نئے نئے کپڑوں،چوڑیوں اور جوتیوں کی تلاش کا مہینہ ہے ،انھیں کے لیے سوچتی ہیں،تلاش کرتی ہیں،ذہنوں میں نقشہ بناتی ہیںاور انھیں میں مشغول رہتی ہیں۔
بازاروں میں مردوں اور عورتوں کا اس قدر اختلاط ہوتا ہے کہ شانے سے شانے ٹکراتے ہیں،بے پردگی ہوتی ہے اور آپس میںاور دکانداروں سے بھی غیر ضروری ہنسی مذاق ہوتا ہے (یہ سب روزے کی حالت میں ہوتا ہے)اوردن بھر بازار کے چکر کاٹ کر جب گھر لوٹتی ہیں تو کھانے پکانے میں جت جاتی ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھکان کی وجہ سے آخری عشرے میں عبادتوں کا اہتمام نہیں ہو پاتا ہے ،جس کی وجہ سے بہت حد تک ممکن ہے اللہ تعالی کی ان رحمتوں و برکتوں سے محروم رہ جائیںجو آخری عشرے کی طاق راتوں میں نازل ہوتی ہیں۔حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
شبِ قدر میں حضرت جبرئیلؑ فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ اترتے ہیں اور اللہ کے جو بندے کھڑے یا بیٹھے عبادت اور ذکرِ الہی میں مشغول ہوتے ہیں،ان کے لیے خیر و رحمت کی دعا کرتے ہیں“۔(مشکوة)
اس لیے بہتر ہے کہ رمضان سے پہلے یا شروع ہی میں شاپنگ کر لی جائے تا کہ جب ’مزدور‘ کو ’مزدوری‘ ملنے کا وقت آئے تو وہ غفلت میں نہ ہوں۔
مہمان نوازی مسلم معاشرے کی پہچان ہے لیکن اس میں اعتدال ضروری ہے اور اس میں نیت کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔بعض لوگ جھوٹی شان اور نام ونمود کے لیے بڑی بڑی افطار پارٹیاں کرتے ہیں ۔اس سے اجر ضائع ہو سکتا ہے اور یہ کہ گھر کی عورتوں کو مشکل پیش آتی ہے اور ان کو شبِ قدر میں نماز و اذکار اور عبادات کا وقت نہیں مل پاتا ۔
 شبِ قدر کی تراویح یا ایسے بھی عورتوں کا مسجد میں آکر نماز پڑھنے کا رجحان ادھر کچھ دنوں سے بڑھا ہے۔حالاں کہ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے لیکن اسلام نے ان کو مسجد میں آنے کی اجازت دی ہے ،مگر ساتھ میں کچھ شرطیں بھی لگائی گئی ہیں جیسے ان کا راستہ الگ ہو،سادہ کپڑوں میں ہوں ،پردے کا اہتمام ہواور خوشبونہ لگائی ہووغیرہ وغیرہ ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
 ”جو عورت مسجد میں آنا چاہے تو وہ خوشبو کو ہاتھ تک نہ لگائے۔(ابوداد:245)
موجودہ دور میں اس کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔عورتیں یا لڑکیاں بنا سنگار ،خوشبو میں بسی ہوئیںاور بے پردہ آتی ہیں (الاما شاءاللہ)یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا ۔اسی کو دیکھتے ہوئے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
 ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر موجودہ دور کی بنا سنگار کرنے والی خواتین کو دیکھتے ،تو انھیں مسجد میں آنے سے روک دیتے،جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں“۔(مسلم:246)
شب ِقدر میں مردوں کی طرف سے نمازوں کا اہتمام ہوتاضرور ہے لیکن لاعلمی کی وجہ سے یا بگاڑ آنے کی وجہ سے دیکھا جاتاہے کہ لوگ مسجدوں کے باہر جمگھٹا لگائے رہتے ہیں ،چائے،کافی ،سگریٹ اور جلیبی وغیرہ کا دور چلتا رہتا ہے اور ہنسی مذاق، ٹھٹول اور ایک دوسرے کی غیبت کر کے ’ٹائم پاس‘ کیا جاتا ہے ۔زیادہ وقت باہر اور تھوڑا وقت مسجد کے اندر گذرتا ہے۔اس سے جتنا ثواب نہیں ملتا اس سے زیادہ گناہ مل جاتا ہے۔اگر نماز پڑھ چکے ہوں تو گھروں کو واپس ہو جانا چاہیے،نہ کہ مسجدوں کے باہر ’بازاری مجمع‘ لگانا چاہیے۔ مسجد کے اندر یا باہر کھڑے ہو کر ہنسی مذاق کرنے یا غیبت کرنے سے نہ صرف گناہ ملتا ہے بلکہ اس سے غیر مسلموں میں اسلام اور مسلمان ،دونوں کا غلط پیغام جاتا ہے۔
انسان کو اپنی استطاعت بھر ہی کام کرنا چاہیے ۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حولاءؓبنت تویت ان کے پاس سے گزریں تو میں نے آپ سے عرض کیا کہ یہ حولائؓ بنت تویت ہیں،لوگ کہتے ہیں کہ یہ رات بھر سوتی نہیں (عبادت کرتی ہیں)۔آپ نے فرمایااس قدر عمل اختیار کرو جس قدر تمہیں طاقت ہو، قسم ہے اللہ کی تم تھک جا گے اور اللہ (اجر و ثواب دے کر)نہیں تھکے گا“۔(مسلم:378)
 ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ شبِ قدر میں سحری کھا کے نیند کی وجہ سے سو جاتے ہیں اس سے ان کی فجر کی نماز’ گول‘ ہو جاتی ہے،جب کہ فرض نماز مقدم ہے اور اس کے بعد نفل نماز ہے۔اس لیے اس سے اجتناب کرنا ہوگا۔
اسی ضمن میں ایک بات یہ بھی ہے کہ تراویح کی نماز میں لوگ پہلی رکعت میں بیٹھے رہتے ہیں اور جب امام رکوع میں جاتے ہیں تو نماز میں شامل ہو جاتے ہیں ۔نوجوان نسل زیادہ ایسا کرتی ہے اور اس دوران آپس میں گپ شپ،ہنسی مذاق ،فیس بک اور چیٹنگ کی جاتی ہے ۔اس سے دو نقصان ہوتا ہے :
اول یہ کہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور دوم یہ کہ اس کی وجہ سے صف بندی کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔جب کہ حدیثِ نبوی ہے :
نبی ِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم صفیں ویسے کیوں نہیں بناتے جیسے کہ فرشتے اپنے رب کے یہاں بناتے ہیں؟ہم نے کہا:فرشتے اپنے رب کے ہاں کیسے صفیں بناتے ہیں؟آپ نے فرمایاوہ پہلے ابتدائی صفیں مکمل کرتے ہیں اور آپس میں جڑ کر کھڑے ہوتے ہیں“(ان کے درمیان کوئی خلانہیں رہتا)۔(ابوداد:661)
ہم لوگ ’کولر یا پنکھے‘ ہی کے سامنے کھڑے ہونا چاہتے ہیں،اگر صف نامکمل ہے تو ہوا کرے ۔ ان سب سے اجتناب کرنا ہوگا ۔
ان سب باتوں کا خیال رکھ کے ہم اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں ۔ہم سب کو اللہ تعالی توفیق دے۔
usama9911@gmail.com  


Tuesday 15 July 2014

(Zakat's Nisaab And Conditions) زکوۃ کا نصاب اور اس کی شرطیں


اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی
سوال: زکوٰة کنچیزوں پر فرض ہے؟
جواب: زکوٰة مندرجہ ذیل چیزوں پر فرض ہے:
1: سونا، جب  ساڑھے سات تولہ (87.479گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
2:چاندی جب  ساڑھے باون تولہ (612.35 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
3:روپیہ، پیسہ اور مالِ تجارت، جب  اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی (612.35 گرام) کے برابر ہو۔
نوٹ: اگر کسی کے پاس تھوڑا سا سونا ہے، کچھ چاندی ہے، کچھ نقد روپے ہیں، کچھ مالِ تجارت ہے، اور ان کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولے (612.35 گرام) چاندی کے برابر ہے تو اس پر بھی زکوٰة فرض ہے۔ اسی طرح اگر کچھ سونا ہے، کچھ چاندی ہے، یا کچھ سونا ہے، کچھ نقد روپیہ ہے، یا کچھ چاندی ہے، کچھ مالِ تجارت ہے، تب بھی ان کو ملاکر دیکھا جائے گا کہ ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت بنتی ہے یا نہیں؟ اگر بنتی ہے تو زکوٰة واجب ہے، ورنہ نہیں۔ الغرض سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت میں سے دو چیزوں کی مالیت جب چاندی کے نصاب کے برابر ہو تو اس پر زکوٰة فرض ہے۔
4:ان چیزوں کے علاوہ چرنے والے مویشیوں پر بھی زکوٰة فرض ہے، اور بھیڑ بکری، گائے، بھینس اور اُونٹ کے الگ الگ نصاب ہیں، ان میں چوں کہ تفصیل زیادہ ہے، اس لئے نہیں لکھتا، جو لوگ ایسے مویشی رکھتے ہوں وہ اہلِ علم سے دریافت کریں۔
5:                   عشری زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰة فرض ہے، جس کو “عشر” کہا جاتا ہے، اس کی تفصیلات آگے ملاحظہ کریں۔
نصاب کی واحد شرط کیا ہے؟
س: عام طور سے زکوٰة کے لئے شرطِ نصاب جو سننے میں آتا ہے، وہ ہے ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا یا ان کی مالیت۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص جس کے پاس نہ سونا ہے، نہ چاندی، بلکہ پانچ ہزار روپے نقد ہیں، اسے کس نصاب پر عمل کرنا چاہئے، سونے پر یا چاندی پر؟ اور مالیت کا حساب لگائے تو کس چیز کے مطابق؟ اگر چاندی کی شرط پر عمل کرتا ہے تو وہ صاحبِ نصاب ٹھہرے گا، لیکن اگر سونے کی شرط پر عمل کرتا ہے تو ہرگز صاحبِ زکوٰة نہیں ٹھہرتا، لہٰذا وہ زکوٰة کی ادائیگی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وضاحت فرمائیں کہ ایسے شخص کو کون سی راہ اختیار کرنی چاہئے؟
آج کل نصاب کے دو معیار کیوں چل رہے ہیں؟ جبکہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو ایک ہی معیار تھا، یعنی دو سو درہم (چاندی) کی مالیت بیس دینار (سونے) کی مالیت کے برابر تھے، آج ان کی مالیتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے، لہٰذا کس شرط پر عمل کرنا لازمی ہے؟ نصاب کی واحد شرط کیا ہے؟
ج: آپ کے سوال کے سلسلے میں چند باتیں سمجھ لینا ضروری ہے:
اوّل: کس مال میں کتنی مقدار واجب الادا ہے؟ کس مال میں کتنے نصاب پر زکوٰة واجب ہوتی ہے؟ یہ بات محض عقل و قیاس سے معلوم نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لئے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی طرف رُجوع کرنا ناگزیر ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مال کا جو نصاب مقرّر فرمایا ہے اس کو قائم رکھنا ضروری ہے، اور اس میں رَدّ و بدل کی گنجائش نہیں، ٹھیک اسی طرح، جس طرح کہ نماز کی رکعات میں رَدّ و بدل کی گنجائش نہیں۔
     دوم:   آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کا نصاب دو سو درہم (یعنی ساڑھے باون تولے یعنی تقریباً 612.35 گرام) اور سونے کا نصاب بیس مثقال (ساڑھے سات تولے یعنی تقریباً 87.479 گرام) مقرّر فرمایا ہے، اب خواہ سونے چاندی کی قیمتوں کے درمیان وہ تناسب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا قائم رہے یا نہ رہے، سونے چاندی کے ان نصابوں میں تبدیلی کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں، جس طرح فجر کی نماز میں دو کے بجائے چار رکعتیں اور مغرب کی نماز میں تین کے بجائے دو یا چار رکعتیں پڑھنے کا کوئی اختیار نہیں۔
سوم: جس کے پاس نقد روپیہ پیسہ ہو یا مالِ تجارت ہو تو یہ ظاہر ہے کہ اس کے لئے سونے چاندی میں سے کسی ایک کے نصاب کو معیار بنانا ہوگا، رہا یہ کہ چاندی کے نصاب کو معیار بنایا جائے یا سونے کے نصاب کو؟ اس کے لئے فقہائے اُمت نے، جو درحقیقت حکمائے اُمت ہیں، یہ فیصلہ دیا ہے کہ ان دونوں میں سے جس کے ساتھ بھی نصاب پورا ہوجائے اسی کو معیار بنایا جائے گا، مثلاً: چاندی کی قیمت سے نصاب پورا ہوجاتا ہے، مگر سونے سے نصاب پورا نہیں ہوتا (اور یہی آپ کے سوال کا بنیادی نکتہ ہے)، تو چاندی کی قیمت سے حساب لگایا جائے گا، اور اس کی دو وجہیں ہیں، ایک یہ کہ زکوٰة فقراء کے نفع کے لئے ہے، اور اس میں فقراء کا نفع زیادہ ہے، دوم یہ کہ اس میں احتیاط بھی زیادہ ہے کہ جب ایک نقدی (یعنی چاندی) کے ساتھ نصاب پورا ہوجاتا ہے اور دُوسری نقدی (یعنی سونے) کے ساتھ پورا نہیں ہوتا تو احتیاط کا تقاضا یہ ہوگا کہ جس نقدی کے ساتھ نصاب پورا ہوجاتا ہے اسی کا اعتبار کیا جائے۔
زکوٰة کب واجب ہوئی؟
 س: میرے پاس سال بھر سے کچھ رقم تھی، جسے میں خرچ بھی کرتی رہی، شوال کے مہینے سے رجب تک میرے پاس    10000 روپے بچے، اور رجب میں ہی 35000روپے کی آمدنی ہوئی، اب یہ بتائیں کہ رمضان میں صرف 10000 کی زکوٰة نکالنی ہوگی یا 35000 بھی اس میں شامل کئے جائیں گے جب کہ 35000 پر رمضان تک صرف تین ماہ کا عرصہ گزرا ہوگا؟
ج: جو آدمی ایک بار نصاب کا مالک ہوجائے تو جب اس نصاب پر ایک سال گزرے گا تو سال کے دوران حاصل ہونے والے کل سرمائے پر زکوٰة واجب ہوگی، ہر رقم پر الگ الگ سال گزرنا شرط نہیں، اس لئے رمضان المبارک میں آپ پر کل رقم کی زکوٰة واجب ہوگی جو اس وقت آپ کے پاس ہو۔
س: اگر کسی کے پاس68000 روپیہ اور 6 تولہ سونا ہے تو اس سونے پر بھی زکوٰة دی جائے گی یا صرف روپے کی ہی زکوٰة نکالنی ہوگی؟
                 ج: اس صورت میں زکوٰة سونے پر بھی واجب ہے، سال پورا ہونے کے دن سونے کی جو قیمت ہو اس کے حساب سے 6 تولے سونے کی مالیت کو بھی رقم میں شامل کرکے زکوٰة ادا کی جائے۔
نقد اور مالِ تجارت کے لئے چاندی کا نصاب معیار ہے۔
س: نصاب ساڑھے سات تولہ سونا، ساڑھے باون تولہ چاندی کا ہے، اس سلسلے میں جاننا چاہوں گا کہ نقدی اور مال کا حساب کس کے معیار پر کیا جائے چاندی یا سونا؟
ج: چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا جائے۔
نوٹ: ساڑھے سات تولہ سونا مساوی ہے 87.479 گرام کے، اور ساڑھے باون تولے چاندی 612.35گرام کے برابر ہے۔
س: آج کل کم سے کم کتنی رقم کی ملکیت پر زکوٰة فرض ہوگی؟
ج: ساڑھے باون تولے چاندی کی بازار میں جتنی قیمت ہو اتنی مالیت پر، چونکہ چاندی کا بھاوٴ بدلتا رہتا ہے اس لئے اس کی مالیت کا لکھنا بے سود ہے، جس دن زکوٰة واجب ہو اس دن کی قیمت کا اعتبار ہے۔نصاب سے کم اگر فقط سونا ہو تو زکوٰة واجب نہیں
س: اگر کسی عورت کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے باون تولہ چاندی ہو تو اس پر زکوٰة واجب ہے، اس سے کم پر زکوٰة واجب نہیں ہے، اگر کسی عورت کے پاس 5,6تولہ سونا ہو چاندی اور نقدی وغیرہ کچھ نہ ہو اور وہ زکوٰة نہیں دیتی، یہ صحیح ہے یا نہیں؟
ج: اگر صرف سونا ہو، اس کے ساتھ چاندی یا نقد روپیہ اور دیگر کوئی چیز قابلِ زکوٰة نہ ہو تو ساڑھے سات تولے (87.479 گرام) سے کم سونے پر زکوٰة نہیں۔ساڑھے سات تولے سونے سے کم پر نقدی ملاکر زکوٰة واجب ہے
س: میری چار لڑکیاں بالغ ہیں، ہر ایک کے پاس 4 تولہ سونا زائد یا کم ہے، میں نے ہمیشہ کے لئے دے دیا تھا، اور ہر ایک کے پاس روپیہ چار سو ریال، چھ سو، ایک ہزار ریال جمع رہتا ہے، کیا ان سب پر زکوٰة، قربانی، فطرہ علیحدہ ادا کرنا واجب ہے یا نہیں؟
ج… آپ نے جو صورت لکھی ہے اس میں آپ کی سب لڑکیوں پر الگ الگ زکوٰة، قربانی، صدقہٴ فطر لازم ہے، کیونکہ سونا اگرچہ نصاب سے کم ہے، مگر نقدی کے ساتھ سونے کی قیمت ملائی جائے تو ساڑھے باون تولے (612.35 گرام) چاندی کی قیمت بن جاتی ہے۔
کیا نصاب سے زائد میں، نصاب کے پانچویں حصے تک چھوٹ ہے؟
س: میرے پاس صرف سونے کے تین زیورات ہیں، ایک کا وزن 78 تولہ، دُوسرے کا 2 تولہ، تیسرے کا 01 تولہ 5ماشہ۔ کل 81 تولہ 5 ماشہ کے زیورات ہیں، میں چاہتا ہوں کہ صرف چالیسواں کی شرح سے 2 تولہ کی زکوٰة نکال دوں، اور وہ اس طرح کہ 2 تولہ کا ایک زیور ہی اپنی غریب پھوپھی کو دے دوں، کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ 17 ماشہ پر زکوٰة معاف ہے، کیونکہ نصاب کے پانچواں حصہ سے کم ہے، مگر ایک صاحب فرماتے ہیں کہ دورِ حاضر میں ڈھائی فیصد کی شرح زکوٰة کی ہوگئی ہے، چالیسواں کی اصطلاح منسوخ ہوگئی، اب مجھ کو ڈھائی فیصد کے حساب سے کل 977 ماشے کا ڈھائی فیصد یعنی 24.425 ماشہ دینا ہوگا نہ کہ صرف 24 ماشہ یعنی 2 تولہ؟ خلش دُور کریں۔
ج: ڈھائی فیصد اور چالیسواں حصہ تو ایک ہی چیز ہے، اصطلاحیں بدلتی تو رہتی ہیں، منسوخ نہیں ہوا کرتیں، دراصل اس مسئلے میں حضرت امام ابوحنیفہ اور صاحبین (امام ابویوسف اور امام محمد) کا اختلاف ہے کہ نصاب سے رقم کچھ زیادہ ہو تو زائد پر زکوٰة ہے یا نہیں؟ حضرت امام کے نزدیک نصاب سے زائد جب پانچواں حصہ ہوجائے تو اس پر زکوٰة ہے، نصاب اور پانچویں حصے کے درمیان کی مالیت پر “چھوٹ” ہے، اسی طرح پانچویں حصے سے پانچویں حصے تک “چھوٹ” ہے، جب مزید پانچواں حصہ ہوجائے گا تب اس پر زکوٰة آئے گی۔
صاحبین فرماتے ہیں کہ نصاب سے زائد جتنی بھی مالیت ہو، خواہ کم یا زیادہ اس پر زکوٰة ہے۔ پس حضرت امام کے قول کے مطابق آپ کے ذمہ صرف 80 تولہ پر زکوٰة ہے اور زائد مقدار جو 17 ماشے کی ہے، وہ چونکہ نصاب کے پانچویں حصے سے کم ہے، اس پر زکوٰة نہیں، جبکہ صاحبین کے نزدیک اس زائد 17 ماشے پر بھی اس کے حساب سے زکوٰة ہے۔
عوام کے لئے زیادہ باریکی میں جانا مشکل ہے، ان کے لئے سیدھی سی بات یہ ہے کہ کل مالیت کا چالیسواں حصہ (یا اڑھائی فیصد) ادا کردیا کریں، لہٰذا آپ 2 تولے اپنی پھوپھی صاحبہ کو دے دیں، یہ 80 تولے کی زکوٰة ہوگئی، اور 01 تولہ 15 ماشے جو زائد ہیں، ان کی قیمت لگاکر اس کا چالیسواں حصہ ادا کردیں۔
ایضاً
س: میں بزرگوں سے سنتا چلا آرہا ہوں اور کتابوں میں پڑھتا ہوں کہ زکوٰة چاندی سونا پر ہے، اگر کسی کے پاس روپے ہوں یا نوٹ ہوں، تو ان کو بھی چاندی سونا میں حساب کرلو، اب پھر دیکھو ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا کے برابر ہوئے کہ نہیں؟ اگر ہوگئے تو صاحبِ نصاب ہوگئے اور اب اس کا چالیسواں حصہ زکوٰة نکال دو، یعنی چالیس سے تقسیم کردو اور اگر باقی کچھ بچ جائے تو اگر وہ نصاب کے پانچویں حصے سے کم ہے تو اس کو چھوڑدو اس پر زکوٰة معاف ہے۔ میرے پاس مثلاً: 120 تولہ چاندی کے زیورات ہیں، اور 450روپے بینک میں ہیں، جن پر ایک سال مکمل گزر گیا، اب 450 روپے کا میں نے 9 تولہ چاندی بشرح 50 روپے فی تولہ بنالیا، گویا میرے پاس کل 129 تولے چاندی یا کل 6450 نقدی ہیں، اگر میں صرف ان کو چاندی سمجھ کر چالیسواں حصہ نکالتا ہوں تو صرف 3 تولہ چاندی یعنی 150روپے زکوٰة واجب ہے، 9 تولہ بڑھتری پر جو نصاب کے پانچویں حصے سے کم ہے زکوٰة واجب نہیں، اگر میں دُوسرے طریقے سے یعنی 6450 روپے پر اڑھائی فیصد کے حساب سے نکالتا ہوں تو اس پر 161 روپے 25 پیسے زکوٰة آئے گی، بتائیے کون سی رقم 150 روپے یا 161 روپے 25 پیسے صحیح ہیں؟ شکوک رفع فرمائیں۔
ج: جو سونا چاندی نصاب سے زائد ہو مگر نصاب کے پانچویں حصے سے کم ہو اس میں زکوٰة واجب ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے، احتیاط کی بات یہی ہے کہ اس کو بھی واجب سمجھ کر ادا کیا جائے، اس لئے آپ کی ذکر کردہ مثال میں 161 روپے 25پیسے ہی ادا کرنا چاہئے۔
نصاب سے زیادہ سونے کی زکوٰة۔
س: اگر کسی شخص کے پاس نصاب سے زیادہ سونا ہے، تو اس صورت میں کیا زکوٰة پوری مقدار پر فرض ہے یا نصاب سے زائد مقدار پر؟
ج: پوری مقدار پر۔ بعض لوگ زکوٰة کو انکم ٹیکس پر قیاس کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ نصاب سے کم مقدار پر چونکہ زکوٰة نہیں، اس لئے جب نصاب سے زیادہ ہوجائے تو صرف زائد پر زکوٰة ہے اور نصاب کی مقدار “چھوٹ” میں داخل ہے، مگر یہ خیال صحیح نہیں، بلکہ جتنا بھی سونا، چاندی یا روپیہ پیسہ ہو اس سب کی زکوٰة لازم ہے، جبکہ نصاب کو پہنچ جائے۔
نوٹ پر زکوٰة۔
س: فی زمانہ تمام ممالک میں سکہ کے بجائے کاغذی نوٹ رائج ہیں، جن کی حیثیت وعدے یا اقرارنامے کی ہے، کیا یہ کاغذی نوٹ سکہ میں شمار ہوسکتا ہے؟ اگر سکے میں شمار نہیں ہوسکتا تو اس پر زکوٰة بھی واجب نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فلزی سکہ رائج الوقت پر زکوٰة لازم کی ہے۔
ج: نوٹ یا تو خود سکہ ہے یا مالیت کی رسید ہے، اس لئے زکوٰة تو نوٹوں پر ہر حال میں لازم ہے، البتہ نوٹ سے زکوٰة کے ادا ہونے کا مسئلہ محلِ نظر رہا ہے، بہت سے اکابر کی رائے میں یہ خود سکہ نہیں، بلکہ رسید ہے، اس لئے زکوٰة اس سے ادا نہیں ہوتی، اور بعض اہلِ علم کے نزدیک اس کو دورِ جدید میں سکہ کی حیثیت حاصل ہے، اس لئے زکوٰة ادا ہوجاتی ہے، پہلے قول پر احتیاط زیادہ ہے اور دُوسرے قول میں سہولت زیادہ ہے۔
زکوٰة بچت کی رقم پر ہوتی ہے تنخواہ پر نہیں
س: فوجی سپاہی کو تنخواہ ملتی ہے، اس کے ساتھ مکان کا کرایہ، ٹرانسپورٹ کا کرایہ وغیرہ ملتا ہے، 1300 روپے تک نقد لے لیتے ہیں، کیا اس رقم پر زکوٰة ہوتی ہے؟ جبکہ روپے اکٹھے اس کے پاس آتے ہیں، لیکن بڑی مشکل سے گزارہ ہوتا ہے۔
ج: زکوٰة بچت کی رقم پر ہوتی ہے، جبکہ بچت کی رقم ساڑھے باون تولے یعنی 612.35 گرام چاندی کی مالیت کو پہنچ جائے، جب کچھ بچتا ہی نہیں تو اس پر زکوٰة کیا ہوگی؟
زکوٰة ماہانہ تنخواہ پر نہیں، بلکہ بچت پر سال گزرجانے پر ہے
س: اپنی تنخواہ کی کتنی فیصد رقم زکوٰة میں دینی چاہئے؟ ہماری کل تنخواہ صرف 500 ہے۔
ج: اگر بچت نصاب کے برابر ہوجائے اور اس پر سال بھی گزر جائے تو ۱ ۲ ۲فیصد زکوٰة واجب ہے، ورنہ نہیں۔
تنخواہ کی رقم جب تک وصول نہ ہو، اس پر زکوٰة نہیں
س: میں جس کمپنی میں کام کرتا ہوں، اس کمپنی پر میری کچھ رقم (تنخواہ کی مد) میں واجب ہے، موجودہ ظاہری صورتِ حال کے مطابق اس کے ملنے کی کوئی خاص اُمید نہیں، لیکن اگر اللہ پاک کے فضل و کرم سے یہ رقم مل جاتی ہے تو احقر کا ارادہ ہے کہ اس سے اپنی ذاتی ضرورت کے لئے ایک مکان یا فلیٹ خرید لے (میرے پاس اپنا ذاتی مکان نہیں ہے)، کیا مجھے اس رقم پر زکوٰة ادا کرنی چاہئے؟ واضح رہے کہ یہ رقم کمپنی پر ایک سال سے زیادہ کے عرصے سے واجب الادا ہے۔
ج: تنخواہ کی رقم جب تک وصول نہ ہو، اس پر زکوٰة نہیں، تنخواہ کی رقم ملنے کے بعد اس پر سال پورا ہوگا تب اس پر زکوٰة واجب ہوگی، اور اگر آپ پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں تو جب نصاب پر سال پورا ہوگا اس کے ساتھ اس تنخواہ کی وصول شدہ رقم پر بھی زکوٰة واجب ہوجائے گی۔
زکوٰة کس حساب سے ادا کریں؟
س:یہ فرمائیں کہ زکوٰة جمع شدہ رقم پر ادا کی جاتی ہے، مثلاً: کسی ماہ ایک شخص کے پاس 2 ہزار روپے ہیں، تیسرے یا چوتھے ماہ میں وہ 1500 روپے رہ جاتے ہیں، اور جب سال مکمل ہوتا ہے تو وہ رقم 2500 ہوتی ہے، تو اب کس حساب سے زکوٰة ادا کرنا ہوگی؟ تفصیل سے مطلع فرمائیں۔
ج: پہلے یہ اُصول سمجھ لیجئے کہ جس شخص کے پاس تھوڑی تھوڑی بچت ہوتی رہی، جب تک اس کی جمع شدہ پونجی ساڑھے باون تولہ (612.35 گرام) چاندی کی مالیت کو نہ پہنچے اس پر زکوٰة واجب نہیں، اور جب اس کی جمع شدہ پونجی اتنی مالیت کو پہنچ جائے (اور وہ قرض سے بھی فارغ ہو) تو اس تاریخ کو وہ “صاحبِ نصاب” کہلائے گا، اب سال کے بعد اسی قمری تاریخ کو اس پر زکوٰة واجب ہوجائے گی، اس وقت اس کے پاس جتنی جمع شدہ پونجی ہو (بشرطیکہ نصاب کے برابر ہو) اس پر زکوٰة واجب ہوگی، سال کے دوران اگر وہ رقم کم و بیش ہوتی رہی اس کا اعتبار نہیں، بس سال کے اوّل و آخر میں نصاب کا ہونا شرط ہے۔
کاروبار میں لگائی ہوئی رقم پر زکوٰة واجب ہے
س: میں خود ایک کمپنی میں نوکری کرتا ہوں، اس کے ساتھ میں نے کچھ پیسہ شراکت میں کاروبار میں لگایا ہوا ہے، جس سے کچھ آمدنی ہوجاتی ہے، جس سے ہمارا خرچ چلتا ہے، اور کچھ بچت (زیادہ سے زیادہ 10,12 ہزار روپے سالانہ) ہوجاتی ہے، کیا کاروبار میں لگائے ہوئے پیسے پر زکوٰة دینا ہوگی جبکہ ہم بچت کی ہوئی رقم پر پورے سال کی زکوٰة دیتے ہیں؟
ج: کاروبار میں لگے ہوئے روپے پر بھی زکوٰة ہے۔
اصل رقم اور منافع پر زکوٰة
س: زید نے 5ہزار روپے ایک جائز تجارت میں لگائے ہیں، سال گزرنے کے بعد زید کتنی رقم زکوٰة میں دے گا؟ اصل رقم پر زکوٰة ادا کی جائے گی، اس کل منافع پر جو سال بھر کمایا؟
ج:سال گزرنے پر اصل رقم مع منافع کے جتنی رقم بنتی ہو اس پر زکوٰة ہے۔
قابلِ فروخت مال اور نفع دونوں پر زکوٰة واجب ہے۔
س… مجھے دُکان چلاتے ہوئے تقریباً 3 سال ہوگئے ہیں، دُکان کھولے تو زیادہ عرصہ ہوگیا ہے، لیکن پہلے بچوں کا سامان وغیرہ تھا، میرا سوال یہ ہے میں نے زکوٰة کبھی نہیں دی، آپ مجھے بتلائیے کہ میں کس طرح سے زکوٰة دوں؟ دُکان کے پورے مال پر زکوٰة ہے یا اس سے جو سالانہ منافع ہوتا ہے؟ اور اس سے پہلے جو میں نے زکوٰة نہیں دی، اس کا کیا کروں؟ کیونکہ میرے والد صاحب کا حج کا بھی فارم بھروادیا ہے، اس میں میں نے بھی کچھ رقم دی ہے۔
ج… آپ کی دُکان میں جتنا قابلِ فروخت سامان ہے، اس کا حساب لگاکر اور منافع جوڑ کر سال کے سال زکوٰة دیا کیجئے، اور اس کے ساتھ گھر میں جو قابلِ زکوٰة چیز ہو اس کی زکوٰة بھی اس کے ساتھ ادا کردیا کیجئے، گزشتہ سالوں کی زکوٰة بھی آپ کے ذمہ واجب الادا ہے، اس کو بھی حساب کرکے ادا کیجئے، سال کے اندر جو رقم گھر کے مصارف اور دیگر ضروریات میں خرچ ہوجاتی ہے، اس پر زکوٰة نہیں۔
کاروبار میں قرضہ کو منہا کرکے زکوٰة دیں۔
س… صورتِ حال یہ ہے کہ میں اسپیئر پارٹس کا کاروبار کرتا ہوں، میں کراچی سے مال لے کر آتا ہوں، اور آگے چھوٹے چھوٹے گاوٴں میں سپلائی کرتا ہوں، میں جن سے مال لیتا ہوں ان کا قرضہ میرے اُوپر تقریباً 30,000 روپے ہے، اور دُوسروں کے اُوپر میرا قرضہ تقریباً 18000روپے ہے، اور میرے پاس تقریباً 80000روپے کا مال موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ میں کس طرح سے زکوٰة نکالوں؟ ایک جگہ میں نے پڑھا ہے کہ کل رقم میں سے قرض نکال کر جو بچے اس پر زکوٰة ادا کرنی پڑتی ہے، لیکن وہ رقم جو کہ دُوسروں پر قرضہ ہو اس کے لئے کیا حکم ہے؟ اور وہ رقم جو میں نے قرضہ دے رکھی ہو؟
ج: جتنی مالیت آپ کے پاس موجود ہے، خواہ نقدی کی شکل میں ہو یا مالِ تجارت کی شکل میں، نیز آپ کے وہ قرضے جو لوگوں کے ذمہ ہیں، ان سب کو جمع کرلیا جائے، اس مجموعی رقم میں سے وہ قرضہ جات منہا کردئیے جائیں جو آپ کے ذمہ ہیں، منہا کرنے کے بعد جتنی مالیت باقی رہے اس کی زکوٰة ادا کردیا کریں، صورت مسئولہ میں 68 ہزار روپے کی زکوٰة آپ کے ذمہ واجب ہے۔
قابلِ فروخت مال کی قیمت سے قرض منہا کرکے زکوٰة دی جائے۔
           س:زید نے قرض کے پیسوں سے ایک دُکان کھولی، سال پورا ہونے پر حساب کرکے 95000روپے کا مال موجود ہے،    جبکہ     شروع میں 110000 کا مال ڈالا تھا، اور قرض جو دُکان پر 60000روپے کا بقایا ہے، اور نقد 2000 روپے پڑے ہوئے ہیں، تو کیا ان پر زکوٰة ادا ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اگر ہوسکتی ہے تو کتنی؟
          ج:جتنی مالیت کا سامان قابلِ فروخت ہے، اس کی قیمت میں سے قرض کی رقم منہا کرکے باقی ماندہ رقم میں 2000ہزار روپے جمع کرکے اس کی زکوٰة ادا کردیجئے۔
صنعت کا ہر قابلِ فروخت مال بھی مالِ زکوٰة ہے۔
س… صنعت کے سلسلے میں کون سا مال زکوٰة سے مستثنیٰ ہے اور کون سے مال پر زکوٰة واجب ہے؟
ج… صنعت کار کے پاس دو قسم کا مال ہوتا ہے، ایک خام مال، جو چیزوں کی تیاری میں کام آتا ہے، اور دُوسرا تیار شدہ مال، ان دونوں قسم کے مالوں پر زکوٰة ہے، البتہ مشینری اور دیگر وہ چیزیں جن کے ذریعہ مال تیار کیا جاتا ہے، ان پر زکوٰة نہیں۔
سال کے دوران جتنی بھی رقم آتی رہے، لیکن زکوٰة اختتامِ سال پر موجود رقم پر ہوگی
 س…زکوٰة کے لئے رقم یا مال پر پورا سال گزر جانا ضروری ہے، جبکہ مالِ تجارت میں فائدہ سے جو اضافہ ہوتا ہے اس تمام پر بارہ ماہ کا         پورا عرصہ نہیں گزرتا، مثلاً: ایک شخص کے پاس جنوری 1984 تک کل سرمایہ 20000 روپے تھا، جو تین ماہ تک اندازاً               22ہزار       ہوگیا، چھ ماہ گزرنے پر 25ہزار روپے ہوگیا، نو ماہ گزرنے پر 28ہزار ہوگیا، اور بارہویں مہینے کے اختتام تک اس کی رقم بڑھ کر 30ہزار روپے ہوگئی، اب زکوٰة کس رقم پر واجب ہوگی؟ جبکہ وہ شخص ہمیشہ اپنی زکوٰة و دیگر آمدنی کے لئے حساب شمسی سال کے اختتام پر کرتا ہے۔
ج… یہاں دو مسئلے ہیں، ایک یہ کہ زکوٰة میں قمری سال کا اعتبار ہے، شمسی سال کا اعتبار نہیں۔ اب یا تو حساب قمری سال کے اعتبار سے کرنا چاہئے، اور اگر شمسی سال کے اعتبار سے حساب کرنا ہی ناگزیر ہو تو دس دن کی زکوٰة مزید ادا کردینی چاہئے۔
دُوسرا مسئلہ یہ ہے کہ قمری سال کے ختم ہونے پر اس کے پاس جتنا مال ہو اس سب پر زکوٰة واجب ہوجائے گی۔ مثلاً: کسی کا سالِ زکوٰة یکم محرّم سے شروع ہوتا ہے، تو اگلے سال یکم محرّم کو اس کے پاس جتنا مال ہو اس پر زکوٰة ادا کرے، خواہ اس میں سے کچھ حصہ دو مہینے پہلے ملا ہو یا دو دن پہلے۔ الغرض سال کے دوران جو مال آتا رہے اس پر سال گزرنے کا حساب الگ سے نہیں لگایا جائے گا، بلکہ جب اصل نصاب پر سال پورا ہوگا تو سال کے اختتام پر جس قدر بھی سرمایہ ہو، اس پورے سرمائے پر زکوٰة واجب ہوجائے گی، خواہ اس کے کچھ حصوں پر سال پورا نہ ہوا ہو۔
جب نصاب کے برابر مال پر سال گزر جائے تو زکوٰة واجب ہوگی
س… عمر کا ایسا کاروبار ہے کہ اسے روزانہ سو روپے بچت ہوتی ہے، وہ یہ سو روپے بینک میں رکھتا ہے، مثلاً: دس رجب سے عمر نے یہ پیسے جمع کرنے شروع کئے، اور دُوسرے سال دس رجب کو اس نے حساب کیا تو تقریباً 36000 روپے تھے، اب ان پیسوں میں رمضان، شوال وغیرہ کے پیسے بھی ہیں، جن پر ابھی سال نہیں گزرا، اب سوال یہ ہے کہ آیا عمر دس رجب کو 36000 روپے کی زکوٰة اکٹھی نکالے گا یا دس رجب سے اڑھائی روپے روزانہ نکالے گا؟ کیونکہ اس کی روزانہ بچت سو روپیہ ہے، کیا اکٹھی زکوٰة نکالنے سے وہ دُوسرے رجب تک زکوٰة سے مستثنیٰ ہوجائے گا اور یوں اس کی زکوٰة ادا ہوجائے گی، جب کہ مالِ زکوٰة پر سال گزرنا شرط ہے؟
ج… جب نصاب پر سال پورا ہوجائے تو سال کے بعد جتنا روپیہ ہو سب پر زکوٰة واجب ہوتی ہے، خواہ کچھ روپیہ درمیان سال میں حاصل ہوا ہو۔ پورے سال کی زکوٰة کا حساب ایک ہی وقت کیا جاتا ہے، الگ الگ دنوں کا حساب نہیں کیا جاتا۔ مثلاً: آپ نے جو صورت لکھی ہے ایک شخص نے دس رجب کو سو روپے روزانہ جمع کرنے شروع کئے، اگلے سال دس رجب کو اس کے پاس 36000روپے ہوگئے، اس کا سال اس وقت سے شروع ہوگا جب اس کی اتنی رقم جمع ہوجائے جو ساڑھے باون تولے (612.35گرام) چاندی کی مالیت کے برابر ہو، جس تاریخ کو اتنی مالیت جمع ہوگی اس سے اگلے سال اسی تاریخ کو جمع شدہ پوری رقم کی زکوٰة اس کے ذمہ واجب ہوجائے گی۔
زکوٰة اندازاً دینا صحیح نہیں ہے۔
س… دُکان کی زکوٰة اندازاً ادا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ یعنی اگر کپڑا ہے تو اس کو پورا ناپنا چاہئے یا اندازاً ادا کردیا جائے؟
ج… زکوٰة پورا حساب کرکے دینی چاہئے، اگر اندازہ کم رہا تو زکوٰة کا فرض ذمہ رہے گا، اگر پورے طور پر حساب کرنا ممکن نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ کا اندازہ لگانا چاہئے۔
کسی خاص مقصد کے لئے بقدرِ نصاب مال پر زکوٰة
س… اگر میں نے نصاب کے بقدر رقم کسی خاص مقصد، مثلاً: بہن وغیرہ کی شادی کے لئے جمع کر رکھی ہو تو بھی کیا اس پر زکوٰة واجب ہے؟
ج… جی ہاں! واجب ہے۔
اگر پانچ ہزار روپیہ ہو اور نصاب سے کم سونا ہو تو زکوٰة کا حکم
س… زکوٰة کس پر فرض ہے؟ اگر کسی شخص کے پاس پانچ ہزار روپیہ ہو اور نصاب سے کم سونا ہو تو کیا اس پر زکوٰة دینی پڑے گی؟ اگر ہاں تو کتنی؟
      ج… چونکہ پانچ ہزار روپے اور سونا دونوں مل کر ساڑھے باون تولے یعنی 612.35گرام چاندی کی مالیت سے بہت زیادہ ہیں، اس لئے اس شخص پر زکوٰة فرض ہے، اس کو چاہئے کہ سونے کی “آج کے بھاوٴ” سے قیمت لگالے اور اس کو پانچ ہزار میں جمع کرکے اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰة ادا کردے۔
زیور کی زکوٰة قیمتِ فروخت پر
س… واجب زکوٰة سونے کی قیمت پر کیسے لگائی جائے؟ آیا بازار کی موجودہ قیمتِ فروخت (جس پر سنار بیچتے ہیں) یا وہ قیمت لگائی جائے جو اگر ہم بیچنا چاہیں تو ملے (جو سنار ادا کریں)؟
ج… جس قیمت پر زیور فروخت ہوسکتا ہے، اتنی قیمت پر زکوٰة واجب ہوگی۔
زیورات کی زکوٰة کی شرح
س…۱:عورتوں کے پہننے کے زیور پر زکوٰة کی شرح کیا ہے؟
2:زیورات کی قیمت موجودہ بازار کے نرخ پر لگائی جائے گی یا جس قیمت پر خریدے گئے ہیں؟
۳:… سات تولہ سے زائد اگر سونے کے زیورات ہوں تو پورے زیورات پر زکوٰة لگے گی یا سات تولہ اس میں سے کم کردئیے جائیں گے؟
ج… سونے چاندی کے زیورات کی قیمت لگاکر اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰة ادا کی جائے، قیمت کا حساب زکوٰة واجب ہونے کے دن بازار کی قیمت سے ہوگا، پورے زیورات پر زکوٰة ہوگی، سات تولے کم کرکے نہیں۔
استعمال والے زیورات پر زکوٰة
س… زیورات جو عموماً عورت کے استعمال میں رہتے ہیں کیا ان پر زکوٰة ہے یا نہیں؟ کیونکہ استعمال میں رہنے والی اشیاء پر زکوٰة نہیں ہے، میرے ایک عزیز جدہ میں رہتے ہیں اس کا بیان ہے کہ جدہ کے عرب لوگ زیور پر زکوٰة نہیں دیتے، اور کہتے ہیں کہ یہ روزمرّہ استعمال کی چیز ہے، وغیرہ۔
ج… امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایسے زیورات پر بھی زکوٰة ہے جو استعمال میں رہتے ہوں، عربوں کے مسلک میں نہیں ہوگی۔
زیورات اور اشرفی پر زکوٰة واجب ہے
س… میرے پاس سونا چاندی کے زیورات ہیں، جو کہ زیرِ استعمال ہیں، اور کچھ سونا و چاندی اپنی اصل حالت پر یعنی اشرفی کی صورت میں ہے، اب آیا زکوٰة دونوں اقسام کے سونا، چاندی پر ہے یا صرف اشرفی کی شکل کے سونے اور چاندی پر؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زیرِ استعمال زیورات پر زکوٰة نہیں، اصل صورتِ حال سے مطلع فرمائیں۔
ج… زیرِ استعمال زیورات پر بھی زکوٰة ہے، لہٰذا صورتِ مذکورہ میں زکوٰة دونوں پر واجب ہے، یعنی زیورات اور اشرفی دونوں پر۔
زیور کے نگ پر زکوٰة نہیں، لیکن کھوٹ سونے میں شمار ہوگا
س… کیا زکوٰة خالص سونے پر لگائیں گے یا زیورات جس میں نگ وغیرہ بھی شامل ہوں اس نگ کے وزن کو شامل کرتے ہوئے زکوٰة لازم ہوگی؟ اور اس طرح سے کھوٹ کا کیا مسئلہ ہے؟
ج… سونے میں جو نگ وغیرہ لگاتے ہیں ان پر زکوٰة نہیں، کیونکہ ان کو الگ کیا جاسکتا ہے، البتہ جو کھوٹ ملادیتے ہیں وہ سونے کے وزن ہی میں شمار ہوگا، اس کھوٹ ملے سونے کی بازار میں جو قیمت ہوگی اس کے حساب سے زکوٰة ادا کی جائے گی۔
سونے کی زکوٰة
س… زکوٰة جو مال کے چالیسویں حصے کی صورت میں ادا کی جاتی ہے، اگلے سال اگر مال میں اضافہ نہیں ہوا تو کیا ادا کردہ مال کم کرکے دی جائے گی؟ مثلاً: ساڑھے سات تولہ سونا پر زکوٰة واجب ہے، موجودہ ریٹ کے حساب سے رقم کا اڑھائی فیصد ادا کردیتی ہوں۔ فرض کریں سونے کی مالیت 15000 ہے، اور اڑھائی فیصد کے حساب سے 325 روپے بنتی ہے، اب اگلے سال جبکہ میرے پاس سونا ساڑھے سات تولے سے زیادہ نہیں ہوا، کیا اس سونے پر زکوٰة ہوگی جو میں 325 روپے کی صورت میں گزشتہ سال ادا کرچکی ہوں (کیونکہ مال کا چالیسواں حصہ تو نکل چکا ہے) یا اس سال بھی ساڑھے سات تولہ پر دوں گی؟ میری خالہ بیوہ ہے، اس کے پاس ساڑھے سات تولے سے زائد سونا ہے، کیا اس پر زکوٰة واجب ہے؟ وہ زکوٰة کی رقم لے سکتی ہیں؟ کیا ان کی یتیم بیٹی (نابالغ) کو رقم دینا صحیح ہے؟
ج… سال پورا ہونے کے بعد آدمی کے پاس جتنی مالیت ہے، اس پر زکوٰة لازم آتی ہے، آپ کی تحریر کردہ صورت میں آپ نے ساڑھے سات تولے سونے پر 325 روپے زکوٰة کے اس سال ادا کردئیے، لیکن سونے کی یہ مقدار تو آپ کے پاس محفوظ ہے اور سال پورا ہونے تک محفوظ رہے گی، اس لئے آئندہ سال بھی اس پوری مالیت پر زکوٰة لازم ہوگی، البتہ اگر آپ سونے ہی کا کچھ حصہ زکوٰة میں ادا کردیتیں اور باقی ماندہ سونا بقدرِ نصاب نہ رہتا ہو تو اس صورت میں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس سونے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر زکوٰة فرض ہے، مثلاً: نقد روپیہ یا تجارتی مال یا کسی کمپنی کے حصص وغیرہ، پس اگر سونے کے علاوہ کوئی اور چیز بھی موجود ہو جس پر زکوٰة آتی ہے اور وہ سونے کے ساتھ مل کر نصاب کی مقدار کو پہنچ جاتی ہے تو زکوٰة فرض ہوگی۔ آپ کی خالہ کے پاس اگر ساڑھے سات تولہ سونا موجود ہو تو اس پر زکوٰة فرض ہے، اس کو زکوٰة دینا جائز نہیں۔ یتیم نابالغ لڑکی اگر نصاب کی مالک نہ ہو تو اس کو زکوٰة دے سکتے ہیں۔
سونے کی زکوٰة کی سال بہ سال شرح
س… فرض کریں میرے پاس نصاب کا سونا 8 تولہ ہے، میں نے آٹھ تولے کی زکوٰة ادا کی، آئندہ سال تک میں نے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا، اور پچھلے سال کی زکوٰة نکال کر اب یہ سونا نصاب سے کم ہے، یعنی موجودہ تو آٹھ تولے ہی ہے، لیکن چونکہ میں آٹھ تولے کا چالیسواں حصہ ادا کرچکا ہوں تو وہ چالیسواں حصہ نکال کر پھر نصاب بنے گا یا ہر سال آٹھ تولے پر ہی زکوٰة دینا ہوگی؟ وضاحت کردیں۔
ج… پہلے سال آپ کے پاس آٹھ تولے سونا تھا، آپ نے اس کی زکوٰة اپنے پاس کے پیسوں سے ادا کردی، اور وہ سونا جوں کا توں آٹھ تولے محفوظ رہا، تو آئندہ سال بھی اس پر زکوٰة واجب ہوگی۔ ہاں! اگر آپ نے سونا ہی زکوٰة میں دے دیا ہوتا اور سونے کی مقدار ساڑھے سات تولے سے کم ہوگئی ہوتی اور آپ کے پاس کوئی اور اثاثہ بھی نہ ہوتا، جس پر زکوٰة آتی ہو تو اس صورت میں آپ پر زکوٰة واجب نہ ہوتی۔
زیورات پر گزشتہ سالوں کی زکوٰة
س… میرے پاس دس تولہ سونے کا زیور ہے، جو مجھے جہیز میں ملا تھا، اب ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا کہ ہم اس کی زکوٰة ادا کریں، ہماری شادی کو بھی تقریباً بیس سال ہوگئے ہیں، اسی عرصے میں کسی سال ہم نے زکوٰة ادا کی اور کسی سال نہیں، اب میں یہ چاہتی ہوں کہ یہ سونا اپنے دونوں لڑکوں کے نام پر پانچ پانچ تولہ تقسیم کردوں، اس طرح پانچ تولے پر زکوٰة ادا نہیں کرنی پڑے گی، اب اس بارے میں تفصیل سے جواب عنایت کریں کہ یہ جائز ہے کہ نہیں؟
ج… گزشتہ جتنے سالوں کی زکوٰة آپ نے نہیں دی، وہ تو سونا فروخت کرکے ادا کردیجئے، آئندہ اگر آپ اپنے بیٹوں کو ہبہ کردیں گی تو آپ پر زکوٰة نہیں ہوگی، بیٹے اگر صاحبِ نصاب ہوئے تو ان پر ہوگی، ورنہ ان پر بھی نہیں ہوگی۔ لیکن بیٹوں کو ہبہ کرنے کے بعد اس زیور سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔بچیوں کے نام پانچ پانچ تولہ سونا کردیا، اور ان کے پاس چاندی اور رقم نہیں، تو کسی پر بھی زکوٰة نہیں
س… اگر کوئی شخص اپنی بچیوں کے نام الگ الگ پانچ پانچ تولے سونا رکھ دے تاکہ ان کے بیاہ شادی میں کام آسکے تو یہ شرعاً کیسا ہے؟ کیا مجموعہ پر زکوٰة واجب ہوگی یا یہ الگ الگ ہونے کی صورت میں واجب نہ ہوگی؟
ج… چونکہ زیور بچیوں کے نام کردیا گیا ہے، اس لئے وہ اس کی مالک بن گئیں، اس لئے اس شخص کے ذمہ اس کی زکوٰة نہیں، اور ہر ایک بچی کی ملکیت چونکہ حدِ نصاب سے کم ہے، اس لئے ان کے ذمہ بھی زکوٰة نہیں۔ البتہ جو لڑکی بالغ ہو اور اس کے پاس اس زیور کے علاوہ بھی کچھ نقد روپیہ پیسہ خواہ اس کی مقدار کتنی ہی کم ہو، اور اس پر سال بھی گزر جائے تو اس لڑکی پر زکوٰة لازم ہوگی، کیونکہ جب سونے چاندی کے ساتھ کچھ نقدی مل جائے اور مجموعہ کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہوجائے تو زکوٰة فرض ہوجاتی ہے۔ اور جو لڑکی نابالغ ہے اس کی ملکیت پر زکوٰة نہیں، جب تک کہ وہ بالغ نہیں ہوجاتی۔
سابقہ زکوٰة معلوم نہ ہو تو اندازہ سے ادا کرنا جائز ہے
س… اگر زکوٰة واجب الادا تھی، لیکن کم علمی کی بنا پر ادا نہ کی جاسکی، زکوٰة کے واجب الادا ہونے کی مدّت کا تو شمار ہے، جبکہ زکوٰة کی رقم کا ٹھیک ٹھیک حساب کرنا دُشوار ہے، کیونکہ اس مدّت کے سونے کا بھاوٴ حاصل کرنا ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے، تو پھر زکوٰة کیونکر اور کس طرح ادا کی جائے؟ اگر یہ مدّت 1970 سے ہو تو۔
ج… اس صورت میں تخمینہ اور اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے کہ قریباً اتنی رقم واجب الادا ہوگی، احتیاطاً اندازے سے کچھ زیادہ دیں۔
زکوٰة کا سال شمار کرنے کا اُصول
س… زکوٰة کب تک ادا کی جاتی ہے؟ یعنی عید کی نماز سے پہلے یا پھر بعد میں بھی ادا کی جاسکتی ہے؟
ج… جس تاریخ کو کسی شخص کے پاس نصاب کے بقدر مال آجائے، اس تاریخ سے چاند کے حساب سے پورا سال گزرنے پر جتنی رقم اس کی ملکیت ہو، اس کی زکوٰة واجب ہے، زکوٰة میں عید سے قبل و بعد کا سوال نہیں۔
زکوٰة کی ادائیگی کا وقت
س… زکوٰة کیا صرف ماہِ رمضان ہی میں نکالنا چاہئے یا اگر کسی ضرورت مند کو ہم زکوٰة کی مقرّرہ رقم ماہِ شعبان میں دینا چاہیں تو کیا نہیں دے سکتے؟ یہ اس لئے پوچھ رہی ہوں کہ کچھ لوگوں کو جن کو میں یہ رقم دیتی ہوں وہ کہتے ہیں کہ رمضان میں تقریباً ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے، اس لئے اگر رمضان سے پہلے مل جائے تو بچوں وغیرہ کے لئے چیزیں بآسانی خریدی جاسکتی ہیں۔
ج… زکوٰة کے لئے کوئی مہینہ مقرّر نہیں، اس لئے شعبان میں یا کسی اور مہینے میں زکوٰة دے سکتے ہیں، اور زکوٰة کا جو مہینہ مقرّر ہو اس سے پہلے زکوٰة دینا بھی صحیح ہے۔
س… کاروباری آدمی زکوٰة کس طرح نکالے؟ فرض کرلیا کہ رمضان المبارک 1400ھ میں ہمارے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے، 2500روپے زکوٰة دے دی، اب رمضان المبارک 1401ھ آنے والا ہے، ہمارے پاس ایک لاکھ بیس ہزار روپے ہوگئے، ایک سال میں بیس ہزار روپیہ نفع ہوگیا، تقریباً شوال کے ماہ میں پانچ ہزار، ذی الحجہ میں دس ہزار، اسی طرح ہر ماہ میں نفع ہوا اور سال کے آخر میں بیس ہزار روپے خالص نفع ہوگیا، اب زکوٰة کتنی رقم پر نکالیں اور کس طرح نکالیں؟ سنا ہے کہ رقم کو ایک سال پورا ہونا چاہئے۔
ج… سال کے ختم ہونے پر جتنی رقم ہو اس کی زکوٰة ادا کی جائے، خواہ کچھ رقم چند روز پہلے ہی حاصل ہوئی ہو، عوام کا خیال ہے کہ زکوٰة کا سال رمضان مبارک ہی سے شروع ہوتا ہے، اور بعض رجب کے مہینے کو “زکوٰة کا مہینہ” سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔
شرعی مسئلہ یہ ہے کہ سال کے کسی مہینے بھی جس تاریخ کو کوئی شخص نصاب کا مالک ہوا ہو، ایک سال گزرنے کے بعد اسی تاریخ کو اس پر زکوٰة واجب ہوجائے گی، خواہ محرّم کا مہینہ ہو یا کوئی اور، اور اس شخص کو سال پورا ہونے کے بعد اس پر زکوٰة ادا کرنا لازم ہے، اور سال کے دوران جو رقم اس کو حاصل ہوئی، سال پورا ہونے کے بعد جب اصل نصاب کی زکوٰة فرض ہوگی اس کے ساتھ ہی دورانِ سال حاصل ہونے والی رقم پر بھی زکوٰة فرض ہوگی۔
س… زکوٰة کی ادائیگی کے لئے سال کی ایک تاریخ کا تعین ضروری ہے یا اس مہینے کی کسی تاریخ کو حساب کرلینا چاہئے؟
ج… اصل حکم یہ ہے کہ جس تاریخ سے آپ صاحبِ نصاب ہوئے، سال کے بعد اسی تاریخ کو آپ پر زکوٰة فرض ہوگی، تاہم زکوٰة پیشگی ادا کرنا بھی جائز ہے، اور اس میں تأخیر کی بھی گنجائش ہے، اس لئے کوئی تاریخ مقرّر کرلی جائے، اگر کچھ آگے پیچھے ہوجائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔
س… زکوٰة سن عیسوی کے سال پر یا سن ہجری کے سال پر نکالی جائے؟
ج… زکوٰة میں قمری سال کا اعتبار ہے، شمسی سال کا اعتبار نہیں، حکومت نے اگر شمسی سال مقرّر کرلیا ہے تو غلط کیا ہے۔
سال پورا ہونے سے پہلے زکوٰة ادا کرنا صحیح ہے
س… جناب ہم زکوٰة شبِ برأت یا رمضان المبارک میں نکالتے ہیں، شرعی نقطہٴ نظر سے معلوم کرنا ہے کہ مجبوری کے تحت زکوٰة قبل از وقت نکالی جاسکتی ہے؟
ج… جب آدمی نصاب کا مالک ہوجائے تو زکوٰة اس کے ذمہ واجب ہوجاتی ہے، اور سال گزرنے پر اس کا ادا کرنا لازم ہوجاتا ہے، اگر سال پورا ہونے سے پہلے زکوٰة ادا کردے یا آئندہ کے کئی سالوں کی اکٹھی زکوٰة ادا کردے تب بھی جائز ہے۔
زکوٰة نہ ادا کرنے پر سال کا شمار
س… گزشتہ سال کی زکوٰة جو کہ فرض تھی کسی وجہ سے ادا نہ کی جاسکی، دُوسرا سال شروع ہوگیا تو نئے سال کا حساب کس طرح کیا جائے گا؟
ج… جس تاریخ کو پہلا سال ختم ہوا، اس دن جتنی مالیت تھی اس پر پہلے سال کی زکوٰة فرض ہوگی، اگلے دن سے دُوسرا سال شروع سمجھا جائے گا۔
درمیان سال کی آمدنی پر زکوٰة
س… میں نے دس ہزار روپے تجارت میں لگائے، اور ایک سال کے بعد ستمبر میں زکوٰة کی مطلوبہ رقم نکال دی، زکوٰة نکالنے کے دو ماہ بعد نومبر میں ایک پلاٹ بیچ کر مزید پندرہ ہزار روپے تجارت میں لگادئیے، اب میں مجموعی رقم پچّیس ہزار روپے پر آئندہ سال کس ماہ میں زکوٰة نکالوں؟ یا پھر الگ الگ رقم پر الگ الگ مہینے میں زکوٰة ادا کروں؟
ج… زکوٰة انگریزی مہینوں کے حساب سے نہیں نکالی جاتی، بلکہ اسلامی قمری مہینوں کے حساب سے نکالی جاتی ہے، جب پہلی رقم پر سال پورا ہوجائے تو پوری رقم جو درمیان سال میں حاصل ہوئی اس کی زکوٰة بھی لازم ہوجاتی ہے، ہر ایک کے لئے الگ الگ حساب نہیں کیا جاتا، اس لئے جب آپ کے سال پورا ہونے کی تاریخ آئے تو آپ پچّیس ہزار روپے اور اس پر جو منافع حاصل ہوا اس سب کی زکوٰة ادا کیجئے۔
گزشتہ سال کی غیرادا شدہ زکوٰة کا مسئلہ
س… میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں باقاعدگی سے ہر سال زکوٰة ادا کرتا ہوں، اس سال بھی میری نیت بالکل صاف تھی کہ زکوٰة ادا کی جائے گی، چونکہ زکوٰة دینے کے لئے اوّلین شرط ہے کہ زکوٰة کے مہینے میں حساب ہر حال میں کرلیا جائے، مگر زکوٰة کے آخری دنوں میں یعنی مہینے کے آخری دس پندرہ دنوں میں ایک پولیس کیس مجھ پر ہوگیا، جس کی بھاگ دوڑ کی وجہ سے زکوٰة کے مہینے میں حساب نہ کرسکا، اب آپ سے دریافت کرنا ہے کہ اب جبکہ زکوٰة کا مہینہ ختم ہوچکا ہے، اب حساب ان دنوں میں کرکے زکوٰة ادا کرسکتا ہوں یا نہیں؟ اور وہ زکوٰة قابلِ قبول ہوگی یا نہیں؟ میں چاہتا ہوں کہ زکوٰة بہرحال ادا ہونی چاہئے یا اس کے علاوہ اگر دُوسرا طریقہٴ کار قرآن اور سنت کی روشنی میں ہو ویسا کیا جائے۔
ج… جب بھی موقع ملے حساب کرکے زکوٰة ادا کردیجئے، ادا ہوجائے گی، اور زکوٰة کا کوئی معین مہینہ نہیں ہوتا، بلکہ قمری سال کے جس مہینے کی جس تاریخ کو آدمی صاحبِ نصاب ہوا ہو، آئندہ سال اسی تاریخ کو اس کا نیا سال شروع ہوگا، اور گزشتہ سال کی زکوٰة اس کے ذمہ لازم ہوگی، خواہ کوئی مہینہ ہو، بعض لوگ رمضان کو اور بعض لوگ رجب کو زکوٰة کا مہینہ سمجھتے ہیں، یہ غلط ہے۔
مال کی نکالی ہوئی زکوٰة پر اگر سال گزرگیا تو کیا اس پر بھی زکوٰة آئے گی؟
س… کسی نے اپنے مال کی زکوٰة نکالی، لیکن اسے کسی مستحق کے حوالے نہیں کیا، اور ایک سال پڑی رہی، تو کیا اس رقم پر بھی زکوٰة نکالی جائے گی؟ یعنی زکوٰة پر زکوٰة نکالی جائے گی؟
ج… زکوٰة پر زکوٰة نہیں، اس رقم کو تو زکوٰة میں ادا کردے، اس کے بعد جو رقم باقی بچے اس کی زکوٰة ادا کردے۔
کس پلاٹ پر زکوٰة واجب، کس پر نہیں؟
س… اگر خالی پلاٹ پڑا ہے اور وہ زیرِ استعمال نہیں ہے، تو زکوٰة اس پر عائد ہوتی ہے یا نہیں؟
ج… اگر پلاٹ کے خریدنے کے وقت یہ نیت تھی کہ مناسب موقع پر اس کو فروخت کردیں گے تو اس کی قیمت پر زکوٰة واجب ہے، اور اگر ذاتی استعمال کی نیت سے خریدا تھا تو زکوٰة واجب نہیں۔
خرید شدہ پلاٹ پر زکوٰة کب واجب ہوگی؟
س… اگر ایک پلاٹ (زمین) لیا گیا ہو اور اس کے لئے کچھ ارادہ نہیں کیا کہ آیا اس میں ہم رہیں گے یا نہیں تو اس سلسلے میں زکوٰة کے لئے کیا حکم ہے؟
ج… پلاٹ اگر اس نیت سے لیا گیا تھا کہ اس کو فروخت کریں گے، تب تو وہ مالِ تجارت ہے، اور اس پر زکوٰة واجب ہوگی، اور اگر ذاتی ضرورت کے لئے لیا گیا تھا تو اس پر زکوٰة نہیں، اور اگر خریدتے وقت تو فروخت کرنے کی نیت نہیں تھی، لیکن بعد میں فروخت کرنے کا ارادہ ہوگیا تو جب تک اس کو فروخت نہ کردیا جائے اس پر زکوٰة واجب نہیں۔
رہائشی مکان کے لئے پلاٹ پر زکوٰة
            س… میرے پاس زمین کا ایک پلاٹ 150 گز کا ہے، جو کہ مجھے چند سال قبل والدین نے خرید کر دیا تھا، اس وقت پلاٹ مبلغ 35000روپے کا لیا تھا، مگر اب تک صرف قیمتِ فروخت چالیس ہزار سے زیادہ نہیں (جبکہ بیچنے کا ارادہ نہیں، بلکہ مکان کی تعمیر کا ارادہ ہے)، کیا اس پلاٹ پر زکوٰة واجب الاد ہے؟ کب سے اور کس حساب سے؟
ج… جو پلاٹ رہائشی مکان کے لئے خریدا گیا ہو اس پر زکوٰة نہیں۔
تجارتی پلاٹ پر زکوٰة
س… اگر مکانات کے پلاٹوں کی خرید و فروخت کی جائے تو کیا یہ مالِ تجارت کی طرح تصوّر ہوں گے، یعنی ان کی کل مالیت پر زکوٰة واجب ہے یا صرف نفع پر؟ اگر پلاٹ کئی سال بعد فروخت کیا گیا تو کیا ہر سال اس کی زکوٰة ادا کرنا ہوگی یا ایک دفعہ صرف سالِ فروخت میں؟
ج… اگر پلاٹوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا جائے اور فروخت کرنے کی نیت سے پلاٹ خریدا جائے تو پلاٹوں کی حیثیت تجارتی مال کی ہوگی، ان کی کل مالیت پر زکوٰة ہر سال واجب ہوگی۔
س… کاروباری مقصد کے لئے اور اپنی رہائشی ضرورت کے علاوہ جو زمین اور مکانات خریدے اور قیمت بڑھنے پر فروخت کردئیے، اس سلسلے میں زکوٰة کے کیا اَحکامات ہیں؟
ج… جو زمین، مکان یا پلاٹ فروخت کی نیت سے خریدا ہو، اس پر ہر سال زکوٰة واجب ہے، ہر سال جتنی اس کی قیمت ہو اس کا چالیسواں حصہ نکال دیا کریں۔
تجارت کے لئے مکان یا پلاٹ کی مارکیٹ قیمت پر زکوٰة ہے
س… جو مکان یا پلاٹ اپنے پیسوں سے یہ سوچ کر خریدا ہو کہ بعد میں سوچیں گے، اگر رہنا ہوا تو خود رہیں گے ورنہ بیچ دیں گے، ان پلاٹ اور مکان کی تعداد اگر کئی ہو تو آیا زکوٰة واجب ہوگئی؟ اور اگر ہاں، تو قیمتِ خرید پر مارکیٹ ویلیو پر؟
ج… جو زمین یا پلاٹ خریدا جائے خریدتے وقت اس میں تین قسم کی نیتیں ہوتی ہیں، کبھی تو یہ نیت ہوتی ہے کہ بعد میں ان کو فروخت کردیں گے، اس صورت میں ان کی قیمت پر ہر سال زکوٰة فرض ہوگی، اور ہر سال مارکیٹ میں جو ان کی قیمت ہو اس کا اعتبار ہوگا، مثلاً: ایک پلاٹ آپ نے پچاس ہزار کا خریدا تھا، سال کے بعد اس کی قیمت ستر ہزار ہوگئی،، تو زکوٰة ستر ہزار کی دینی ہوگی۔
اور دس سال بعد اس کی قیمت پانچ لاکھ ہوگئی تو اب زکوٰة بھی پانچ لاکھ کی دینی ہوگی، الغرض ہر سال جتنی قیمت مارکیٹ میں ہو، اس کے حساب سے زکوٰة دینی ہوگی۔اور کبھی یہ نیت ہوتی ہے کہ یہاں مکان بناکر خود رہیں گے، اگر اس نیت سے پلاٹ خریدا ہو تو اس پر زکوٰة نہیں۔اسی طرح اگر خریدتے وقت نہ تو فروخت کرنے کی نیت تھی، اور نہ خود رہنے کی، اس صورت میں بھی اس پر زکوٰة نہیں۔
جو مکان کرایہ پر دیا ہے، اس کے کرایہ پر زکوٰة ہے
س… میرے پاس دو مکان ہیں، ایک مکان میں، میں خود رہائش پذیر ہوں، اور دُوسرا کرائے پر، تو آیا زکوٰة مکان کی مالیت پر ہے یا اس کے کرائے پر؟ اللہ تعالیٰ آپ کو اجرِ عظیم نصیب فرمائے۔
ج… اس صورتِ میں زکوٰة مکان کی قیمت پر واجب نہیں، البتہ اس کے کرایہ پر جبکہ نصاب کو پہنچے تو زکوٰة واجب ہوگی۔
مکان کی خرید پر خرچ ہونے والی رقم پر زکوٰة
س… ایک ماہ قبل مکان کا سودا کرچکے ہیں، ہم نے دو ماہ کا وقت لیا تھا جو کہ رمضان میں ختم ہو رہا ہے، بیعانہ ایڈوانس ادا کرچکے ہیں، اب ادائیگیٴ زکوٰة کس طرح ہوگی؟ کیونکہ رقم تو اب ہماری نہیں ہے، مالک مکان کی ہوگئی، اب ہمارا تو صرف مکان ہوگیا، کیا اس رقم سے زکوٰة ادا کریں جو کہ مالک کو دینی ہے؟
ج… اگر زکوٰة ادا کرنے سے قبل مکان کی قیمت ادا کردی تو اس پر زکوٰة واجب نہیں، اور اگر سال ختم ہوگیا اب تک مکان کے پیسے ادا نہیں کئے بلکہ بعد میں وقتِ مقرّرہ پر ادا کریں گے تو اس سے زکوٰة ساقط نہ ہوگی، اس پر زکوٰة واجب ہے۔
حج کے لئے رکھی ہوئی رقم پر زکوٰة
س… ایک شخص کے پاس اپنی کمائی کی کچھ رقم تھی، انہوں نے حج کرنے کے ارادے سے درخواست دی اور رقم جمع کرائی، لیکن قرعہ اندازی میں ان کا نام نہیں آیا، اور حکومتِ وقت کی جانب سے ان کی رقم واپس مل گئی، وہ شخص پھر آئندہ سال حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور درخواست بھی دینے کا ارادہ ہے، آپ یہ بتائیں کہ حج کرنے کے لئے جو رقم رکھی گئی ہے، اس پر زکوٰة ادا کرنا ضروری ہے یا ایسی رقم سے کوئی زکوٰة نکالی نہیں جائے گی یا دُوسری رقم کی طرح اس پر بھی زکوٰة نکالی جائے گی؟
ج… اس رقم پر بھی زکوٰة واجب ہے۔
چندہ کی زکوٰة
س… ہم ایک برادری کے لوگ ایک مشترکہ مقصد کے لئے (یعنی خدانخواستہ اگر انہی لوگوں میں سے کسی کی موت واقع ہوجائے تو اس کی لاش کو اس کے ورثاء کے حوالے کرنے کے لئے جو اخراجات وغیرہ ہوتے ہیں) چندہ اکٹھا کرلیتے ہیں اور یہی چندہ کسی کا زیادہ ہوتا ہے کسی کا کم، لہٰذا حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک سال اس چندہ کا گزر جائے اور مجموعی طور پر نصابِ زکوٰة پر پورا اُترے تو کیا زکوٰة واجب الادا ہوگی یا نہیں؟ اگر زکوٰة واجب الادا ہو تو اس کا طریقہٴ ادائیگی کیا ہوگا؟
ج… جو رقم کسی کارِ خیر کے چندے میں دے دی جائے، اس کی حیثیت مالِ وقف کی ہوجاتی ہے، اور وہ چندہ دینے والوں کی مِلک سے خارج ہوجاتی ہے، اس لئے اس پر زکوٰة نہیں۔
زیورات کے علاوہ جو چیزیں زیرِ استعمال ہوں ان پر زکوٰة نہیں
س… ایک آدمی کے پاس کچھ بھینسیں ہیں، کچھ کشتیاں ہیں جن میں وہ مچھلی کا شکار کرتا ہے، اور جال بھی ہے، جال کی قیمت ساٹھ ستر ہزار روپے ہے، اور تمام چیزوں کی مالیت تقریباً 4 لاکھ بنتی ہے، ان پر زکوٰة دینی ہوگی یا نہیں؟
ج… یہ چیزیں استعمال کی ہیں، ان پر زکوٰة نہیں، البتہ زیورات پر زکوٰة ہے، خواہ وہ پہنے ہوئے رہتے ہوں۔
زیورات کے علاوہ استعمال کی چیزوں پر زکوٰة نہیں
س… زکوٰة کن لوگوں پر واجب ہے؟ کیا آرام و آسائش کی چیزوں (مثلاً: ریڈیو، ٹی وی، فریج، واشنگ مشین، موٹرسائیکل، وغیرہ) پر بھی زکوٰة دینی چاہئے؟
ج… زیورات کے علاوہ استعمال کی چیزوں پر زکوٰة نہیں۔
استعمال کے برتنوں پر زکوٰة
س… ایسے برتن (مثلاً: دیگ، بڑے دیگچے وغیرہ) جو سال میں دو تین بار استعمال ہوں، ان کی بھی زکوٰة قیمتِ خرید موجودہ پر ہوگی (تانبے کی)، یا اس قیمت پر جس پر کہ دُکاندار پُرانے (غیرشکستہ) برتن خرید کر ادا کرتے ہیں؟
ج… ایسے برتن جو استعمال کے لئے رکھے ہوں خواہ ان کے استعمال کی نوبت کم ہی آتی ہو، ان پر زکوٰة واجب نہیں۔
ادویات پر زکوٰة
س… دُکان میں پڑی ادویات پر زکوٰة لازم ہے یا صرف اس کی آمدنی پر؟
ج… ادویات کی قیمت پر بھی لازم ہے۔
واجب الوصول رقم کی زکوٰة
س… میں ایک ایسا کام کرتا ہوں کہ خدمات کی انجام دہی کی رقوم کافی لوگوں کی طرف واجب الوصول رہتی ہیں، اور وصولی بھی پانچ چھ مہینے بعد ہوتی ہے، کچھ لوگوں سے وصولی کی بہت کم اُمید ہوتی ہے، کیا ان واجب وصول رقوم پر زکوٰة دینی چاہئے یا جب وصول ہوجائیں اس کے بعد؟
ج… کاریگر کو کام کرنے کے بعد جب اس کا حق الخدمت (اُجرت، مزدوری) وصول ہوجائے تب اس کا مالک ہوتا ہے، پس اگر آپ صاحبِ نصاب ہیں تو جب آپ کا زکوٰة کا سال پورا ہو، اس وقت تک جتنی رقوم وصول ہوجائیں ان کی زکوٰة ادا کردیا کیجئے، اور جو آئندہ سال وصول ہوں گی ان کی زکوٰة بھی آئندہ سال دی جائے گی۔
حصص پر زکوٰة
س… میرے پاس ایک کمپنی کے سات سو حصص ہیں، جن کی اصلی قیمت دس روپیہ فی حصص ہے، جبکہ موجودہ قیمت 30 روپے فی حصص ہے، زکوٰة کون سی قیمت پر واجب ہوگی؟
ج… حصص کی اس قیمت پر جو وجوبِ زکوٰة کے دن ہو۔
خرید کردہ بیج یا کھاد پر زکوٰة نہیں
س… زمین کے لئے جن پیسوں سے بیج اور کھاد خرید کر رکھا ہے، کیا ان پر بھی زکوٰة ادا کرنی چاہئے؟
ج… جو کھاد اور بیج خرید کر رکھ لیا ہے، اس پر زکوٰة نہیں۔
پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰة
 س… میں ایک مقامی بینک میں ملازم ہوں، جہاں میرا فنڈ مبلغ 29000 روپے جمع ہوگیا ہے، اور اس میں سے میں نے کل 27000 روپے بطور لون لیا ہے، کیا اس پر بھی زکوٰة دینی ہوگی؟ اگر دینی ہوگی تو کب سے اور کتنی؟
ج… پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ وصول ہوجائے، جب تک وہ گورنمنٹ کے کھاتے میں جمع ہے اس پر زکوٰة واجب نہیں، اس مسئلے پر حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کا رسالہ لائقِ مطالعہ ہے۔
کمپنی میں نصاب کے برابر جمع شدہ رقم پر زکوٰة واجب ہے
س… میں نے پیسے کسی کمپنی کو دئیے ہیں، جو کہ منافع و نقصان کی بنیاد پر ہر ماہ منافع ادا کرتی ہے، جس سے ہمارے گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں۔ میری آمدنی کبھی اتنی نہیں ہوتی کہ بہت ہی ضروری گھر کے اخراجات کے بعد کچھ پس انداز کرلیا جائے، کیونکہ ہم کثیرالاولاد ہیں۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ زکوٰة کس طرح سے ادا ہو؟ اگر ماہانہ آمدنی سے ادا کرتے ہیں تو فاقہ کی صورت پیش آتی ہے، اور اگر اصل مال سے نکلواتے ہیں تو بھی آمدن مزید کم ہوجاتی ہے، اور ہاتھ تو پہلے ہی تنگ رہتا ہے، پھر قرض اُٹھانے کی ضرورت پیش آئے گی، جس سے ہمیشہ بچتا ہوں، اور قرض کبھی نہیں لیتا، رہنمائی فرمائیں۔
ج… جو رقم آپ نے کمپنی میں جمع کر رکھی ہے اگر وہ مالیتِ نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کے برابر ہے، تو اس کی زکوٰة آپ کے ذمہ ہے، زکوٰة ادا کرنے کی جو صورت بھی آپ اختیار کریں۔
بینک جو زکوٰة کاٹتا ہے اس کا انکم ٹیکس سے کوئی تعلق نہیں
س… ایک شخص کے پاس گھر میں دس ہزار ہیں، بینک میں بھی دس ہزار ہیں، بینک کی رقم سے حکومت زکوٰة کاٹتی ہے، اور وہ شخص انکم ٹیکس بھی ادا کرتا ہے، تو کیا وہ رقم جو بینک میں جمع ہے اس پر زکوٰة دوبارہ دے گا جبکہ انکم ٹیکس بھی حکومت کو دینا ہے یا صرف وہ رقم جو اس کے گھر میں موجودد ہے، صرف اس پر زکوٰة ادا کرنی ہوگی؟
ج… بینک جو زکوٰة کاٹتا ہے، بعض اہلِ علم کے نزدیک زکوٰة ادا ہوجاتی ہے، اور حکومت کو انکم ٹیکس دینا ہے اتنی مقدار کو چھوڑ کر باقی رقم کی زکوٰة ادا کردی جائے۔
مقروض کو دی ہوئی رقم پر زکوٰة واجب ہے، اور زکوٰة میں قیمتی کپڑے دے سکتے ہیں
س… میرا سوال یہ ہے کہ میں نے گھر خرچ میں سے بچا بچا کر پانچ ہزار روپے جمع کئے ہیں، اور ان میں سے چھ سو روپے تو ایک کو قرض دے دئیے، دو سال ہوگئے اس نے آج تک واپس نہیں کئے ہیں، اور نہ ہی ابھی واپس کرنے کا کوئی ارادہ ہے، باقی رقم بھی کسی ضرورت مند نے مانگی تو میں نے اسے دے دی، اسے بھی ایک سال ہوگیا ہے، اس نے بھی واپس نہیں دی۔ تو پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس رقم پر بھی زکوٰة دینی ہوگی یا نہیں؟ جواب ضرور دیں۔ اور جو کپڑے میں نے اپنے پہننے کے لئے بنائے ہیں، وہ کپڑے زکوٰة میں دے سکتے ہیں یا نہیں؟
ج… جو رقم کسی کو قرض دے رکھی ہو اس کی زکوٰة ہر سال ادا کرنا ضروری ہے، خواہ رقم کی واپسی سے پہلے ہر سال دیتے رہیں یا رقم وصول ہونے کے بعد گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰة یکمشت ادا کریں۔ کپڑوں کی قیمت لگاکر ان کو زکوٰة میں دے سکتے ہیں، لیکن ایسا نہ ہو کہ وہ کپڑے لائقِ استعمال نہ رہنے کی وجہ سے آپ کے دِل سے اُتر گئے ہوں اور آپ سوچیں کہ چلو ان کو زکوٰة ہی میں دے ڈالو۔
ٹیکسی کے ذریعہ کرایہ کی کمائی پر زکوٰة ہے، ٹیکسی پر نہیں
س… ایک شخص کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے، اس سے وہ ایک ٹیکسی خریدتا ہے، ایک سال بعد چالیس ہزار روپیہ کمائی ہوگئی، اب زکوٰة کتنی رقم پر دے؟
ج… اگر گاڑی فروخت کی نیت سے نہیں خریدی، بلکہ کمائی کے لئے خریدی ہے تو سال کے بعد صرف چالیس ہزار کی زکوٰة دیں گے، گاڑی کمانے کا ذریعہ ہے اس پر زکوٰة نہیں۔ اور اگر اس شخص کے پاس گاڑی کی کمائی کے علاوہ کچھ روپیہ پیسہ یا زیور نہ ہو تو اس کی زکوٰة کا سال اس دن سے شروع ہوگا جس دن گاڑی کی کمائی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کو پہنچ گئی تھی۔
     س… ایک ٹیکسی ہم نے 48000 کی لی تھی، مالک کو قسطوں کے ذریعہ ہم روپے دے چکے ہیں، پھر یہ ٹیکسی ہم نے 55000 روپے میں فروخت کردی، جس میں ہم نے دس ہزار روپے نقد لئے اور ڈیڑھ ہزار روپے قسط ہم ان سے لے رہے ہیں، تقریباً 32000 روپے ہم وصول کرچکے ہیں اور 13000 روپے باقی ہیں۔ اس پہلے والی ٹیکسی کو فروخت کرکے ویسی ہی دُوسری ٹیکسی 98500 روپے کی اُدھار لی، تین ہزار روپے قسط وار دیتے ہیں، ڈیڑھ ہزار روپے پہلے والی ٹیکسی کے اور ڈیڑھ ہزار اس نئی ٹیکسی پر کماتے ہیں اور قسط دیتے ہیں، اس ٹیکسی کے 70000 روپے کا حساب یعنی زکوٰة ہم کس طرح ادا کریں اور یہ کہ کتنے روپے ہمیں زکوٰة کے دینے ہوں گے؟

ج… ان گاڑیوں سے جو منافع حاصل ہوجائے اور حدِ نصاب تک پہنچ جائے، تو سال گزرنے کے بعد اس پر زکوٰة آئے گی، صرف گاڑیوں پر زکوٰة نہیں آئے گی، کیونکہ یہ حصولِ نفع کے آلات ہیں، ان پر زکوٰة نہیں آتی۔ لیکن یہ خیال رہے کہ بعض لوگ گاڑی اسی نیت سے خریدتے ہیں کہ جونہی اس کے اچھے دام ملیں گے اس کو فروخت کردیں گے، اور یہ ان کا گویا باقاعدہ کاروبار ہے، ایسی گاڑی درحقیقت مالِ تجارت ہے، اور اس کی قیمت پر زکوٰة واجب ہے۔(بشکریہ  محدث)