Saturday 5 July 2014

(Domestic Violence And Islam) گھریلو تشدد اور اسلام


اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی

معاشرے میں گھر کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔جس میں افرادکے درمیان خوش گوار تعلقات کا ہونا ناگزیر ہے کیوں کہ اس کا اثر نہ صرف معاشرے پر ہوتا ہے بلکہ ملک کی ترقی پر بھی ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے گھر کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے پر خصوصی توجہ دی ہے اور ہر ایک کا دائرہ کار متعین کر دیا ہے۔اب اگر کوئی اپنے دائرہ کار سے نکل کر دوسرے فرد کے دائرہ کارمیں دخل دیتا ہے یا دوسروں کو ان کے فرض کی ادائیگی کے لیے دباو ڈالتا ہے تو یہیں سے’گھریلو تشدد‘ کی شروعات ہوتی ہے۔
اٹھارہویں صدی تک شوہر کے ذریعے بیوی پر تشدد کرنا اور ان کومارنا قانونی لحاظ سے قابلِ قبول تھا۔انیسویں صدی میں یورپ میں جب سیاسی بے داری آئی تو United Kingdomاور United States سمیت دیگر ملکوں میں بھی اس کے خلاف بھی آوازیں اٹھنے لگیں۔1850میںUnited States کی Tennesseeپہلی ریاست تھی جہاں عورت پر تشدد کے خلاف قانون بنا۔بیسویں صدی کے آغاز تک پورے یورپ میں عورتوں پر تشدد کے خلاف سختی کی جانے لگی تاہم پولس کبھی کبھار ہی اس جرم میں کسی کو گرفتار کرتی تھی۔
1970کے آس پاس فیمینزم(Fiminism)،عورتوں کے حقوق اور ان کی تحریک کے تحت گھریلو تشدد کے خلاف باقاعدہ آواز بلند کی گئی اور اس کو بطور اصطلاح استعمال کیا جانے لگاتھا۔
 گھریلو تشدد کی تعریف
امریکہ کے ایک سرکاری ادارے US OFFICE ON VIOLENCE AGAINST WOMENکے مطابق :
"Pattern of abusive behavior in any relationship that is used by one partner to gain or maintain power and control over another intimate partner" .(http://www.usdog.gov/ovw.domviolence.htm)
دو قریبی افراد(مرد او ر عورت )جو کسی بھی رشتہ میں منسلک ہوں،ان میں سے ایک کی جانب سے بد سلوکی کا رویہ ،جو وہ دوسرے کے مقابلے میں طاقت اور اس پر قابو حاصل کرنے یا برقرار رکھنے کے لیے ظاہر کرے“۔
Merriam-Webster Dictionaryکے مطابق:
جب کوئی شخص، کسی دوسرے شخص پر قابو پانے کے لیے دھمکی آمیز، تشدد آمیز یا گھناونا رویہ اختیار کرتا ہے تو وہ گھریلو تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ شوہر،بیوی، پارٹنر، بیٹے، بیٹی اورخاندان کے کسی بھی فرد کے ذریعے انجام دیاجاسکتا ہے۔ اس میں جسمانی تشدد،تیزاب ڈالنا، جنسی حملہ، زنا بالجبر، گھناونی زبان کا استعمال، ہتک آمیز الفاظ کا استعمال، رقم کو روکنا یا چوری کرنا، اہل خانہ یا دوستوں کے تعلقات کو روکنا،بچوں کو اٹھانے یا نقصان پہنچانے کی دھمکی دینا، شناختی یا امیگریشن کاغذات کو چرانا، طبی دیکھ بھال سے انکار کرنا، گھر میں قید رکھنا اور ملک سے نکالنے کی دھمکی دینا وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں جبراً شادی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے“۔
بعض لوگوںکو لگتا ہے کہ تشدد دراصل باہمی رشتوں کا ایک فطری نتیجہ ہے،لیکن ایسا نہیں ہے ۔لوگ عموماً دوسروں کا غصہ گھر وں میں آکر اپنی بیویوں پر نکالتے ہیں۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے ایک انسان کو دوسرے انسان پر بزورِ قوت غالب آنے کی کیفیت کا اظہار ہوتاہے۔
گھریلو تشدد کی قسمیں
جسمانی تشدد:اس میں مارنا ،پیٹنا،دھکا دینا،زخمی کرنا،درد پہنچانااورجسم پر تیزاب پھینک دینا وغیرہ شامل ہیں۔
جذباتی اور ذہنی و نفسیاتی تشدد:اس میں لفظوں سے چوٹ پہنچانا،ذہنی ٹارچر کرنا،عزتِ نفس اور خودداری سے کھیلنا،حقیر سمجھنا،دوسروں کے سامنے بے عزتی کرنا، آزادی سلب کرنا اور دھمکی دیناوغیرہ شامل ہیں۔
مالی تشدد:     اس میں پیسہ نہ دینا ،جمع خرچ روک لینا،تنخواہ نہ دینا، بلا اجازت املاک پر قبضہ کر لینا اور اسے خرچ کر دینا وغیرہ آتا ہے۔
 جنسی تشدد:اس میں زبردستی جنسی تعلقات قائم کرنا،جنسی طور پر ہراساں کرنااورچھیڑ چھاڑ کرناوغیرہ شامل ہیں۔

گھریلو تشدد ایک ’عالمی مرض‘ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔مجموعی طور سے دنیا کی ایک تہائی عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ان پر ظلم و تشدد کرنے والوں میں زیادہ تر ان کے شوہر،سابق شوہر،بوائے فرینڈ، سابق بوائے فرینڈ اور دیگر قریبی رشتہ دار ہوا کرتے ہیں۔بعض رپورٹس کے مطابق ہر سال%35 عورتیں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔کچھ نے تو اسے %70بتایا ہے۔ 20.9میلین جبری مزدوری کر رہے لوگوں میں%55 عورتیں اور لڑکیاں ہیں۔اسی طرح 4.5میلین لوگ جو زبردستی قحبہ خانوں میں ڈھکیلے گئے ہیں ان میں%98 لڑکیاں اور عورتیں ہیں۔
2011/12کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں%7.3 یعنی 1.2میلین عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔%31یعنی 5میلین عورتیں16 سال کی عمر میں گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔اسی طرح ایک ہفتے میں دو عورتیں اوسطاً شوہر کی طرف سے یا سابق شوہر کی طرف سے قتل کر دی جاتی ہیں۔%40سے%70 کے بیچ کناڈا،آسٹریلیا،ساوتھ افریقہ ، اسرائیل اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں عورتیں اپنے پاٹنروں کے ذریعہ قتل کی جاتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت WHO کے مطابق عالمی سطح پر% 38 عورتیں قتل ہوئیں جن کو ان کے پاٹنر یا ایکس پاٹنر کی طرف سے قتل کیا گیا تھا۔زبردستی شادی کیے جانے پر 1,468 لڑکیوں کی موت کے واقعات ہوئے۔
ہندوستان کی صورتِ حال
خواتین پر تشدد میں ہندوستان کازامبیا کے بعد دنیا میں دوسرا نمبر ہے۔رینکا چودھری کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی%70 عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔
نیشنل کرائم برانچ کی رپورٹ کے مطابق ہر 3 منٹ پر ایک عورت پر کسی نہ کسی ظلم کی وجہ سے کیس درج کیا جاتا ہے۔ہر29 منٹ پر ایک عورت سے جنسی زیادتی کی جا تی ہے۔ہر 60منٹ پر ایک عورت جہیز کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہے اور ہر 9منٹ پر ایک عورت سے اس کے شوہر یا شوہر کے رشتہ داروں کی طرف سے تشدد کیا جاتا ہے۔ %7.5عورتیں ذہنی تشدد کی وجہ سے خودکشی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ان میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں طرح کی عورتیں شامل ہیں لیکن زیادہ تر شادی شدہ عورتیں ہی اس کا شکار ہوتی ہیں۔
نیشنل کرائم برانچ کی رپورٹ2012 کے مطابق خواتین کے خلاف کل2,44,270 کیسز سامنے آئے۔2011میں ان کی تعداد2,28,650 تھی۔یعنی اس میں%6.4 کا اضافہ ہوگیا۔ان میں شوہر اور اس کے رشتہ داروں کی طرف سے بیوی پر تشدد کے%43.6،عورت کی عصمت پر حملہ کرنے کے%18.6،اغوا کے%15.7،جنسی زیادتی کے%10.2،عورت کی بے عزتی کرنے کے%3.8،جہیز کی وجہ سے استحصال کے%3.7،جہیز کی وجہ سے موت کے%3.4 ،عورتوں اور لڑکیوں کی اسمگلنگ کے%01.0 اور عورتوں کے خلاف دیگر جرائم کے%0.1 واقعات ہوئے۔
ریاستوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو آسام%89.54،تری پور%86.95،ویسٹ بنگال%70.30، دہلی%69.75، آندھراپردیش%66.05،راجستھان%63.75،کیرلہ%61.21،اڑیسہ%58.79،جموںکشمیر%58.60 اور ہریانہ %50.31 کے ساتھ سرِفہرست رہے۔
گھریلو تشدد کے اسباب
شوہر اور اس کے رشتہ دار ، بیوی نام کی گھر میں موجود ہستی پر صدیوں سے ظلم کرتے آئے ہیں۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے ۔اس کی مختلف وجوہا ت ہیں۔ 1979 میں ہوئی ایک ریسرچ سے پتہ چلا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ ’ان چاہا حمل‘ ہے۔(NIHFW survey 1979)
1995 کی رپورٹ کے مطابق تشدد کی ایک بڑی وجہ شوہر کے ماں باپ تھے کہ گھر میں کس کی چلے گی؟2004 کے سروے میں شوہر کا کم پڑھا لکھا ہونا ،شراب اور دیگرمنشیات کی لت وغیرہ کو بنیادی اسباب میں سے بتایا گیا ۔
2000 میں’ اسکول آف سوشل سائنس‘ ، جے این یو کے ہریہر ساہو نے گھریلو تشدد پر ریسرچ کی۔ان کے مطابق اس کی مختلف وجوہات ہیں: شوہر کا بیوی کودھوکہ باز سمجھنا، بیوی کے گھر سے پیسے اور تحفے کا نہ آنا، بیوی کاساس اور سسر کی عزت نہ کرنا، شوہر کو بنا بتائے بیوی کا باہر چلے جانا، بیوی کا گھر اور بچوں کی ذمہ داری نہ لینا، بیوی کا کھانا ٹھیک سے نہ بناناوغیرہ ۔دیگر وجوہات میں تعلیم کی      کمی ،گھر میںسر پرست افراد کی جاہلیت اور حقوق نسواں سے بے اعتنائی، غر بت و افلاس ،لڑ کی اور لڑ کے کی مر ضی کے خلا ف شا دی جو کہ گھر یلو نا چا قی کا سبب بنتی ہے،آپسی حقو ق سے نا وا قفیت،بے جا پابندی ،اسلا م سے دوری اور تقو ی کا خا تمہ،عورتوں کو فر ما ں بر داراور مطیع بنا نے کی خو ا ہش،غیر ا خلاقی قو ا نین کی تائید چاہنا اورشک کی بنا پر تشد د کرنا وغیر ہ وغیرہ ہیں۔
ہندوستان میں گھریلو تشدد کے خلاف ایک بل پاس کیا گیا جس کا نام ’خانگی تشدد سے تحفظِ خواتین بل 2005‘رکھا گیا ۔لیکن اس کا ایک نقصان دہ پہلو یہ بھی ہے کہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ اس کا استعمال آپسی رنجشوں کی وجہ سے بدلہ لینے،بلا وجہ مردوں کو ڈرانے دھمکانے،بلیک میل کرنے، انتقام لینے اوران میں خوف و ہراس پیدا کرنا وغیرہ میں ہو رہا ہے۔
گھریلو تشدد کو بڑھاوا دینے میں کچھ حد تک عورتوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔وہ سمجھتی ہیں کہ یہ مرد ذات کا حصہ ہے۔خصوصاً بر صغیرمیں اس طرح کا رجحان بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔UNICEFکی 2012کی رپورٹ میں% 57 لڑکوں اور%53 لڑکیوں نے جن کی عمر15سے19 کے درمیان تھی ،بیوی کو مارنا صحیح ٹھیرایا۔اسی طرح جارڈن اور افغانستان میں%90،مالی میں%87اور سینٹرل افریقن ریپبلک میں%80 عورتوں نے تشدد کو صحیح کہا۔
تشددکے نتیجے میں عورتوں کو جسمانی معذوری ، دائمی صحت کے مسائل،ذہنی بیماریاں ،محدود مالی حالت اور ناپائیدارتعلقات کا ہونا جیسے غیر معمولی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اس طرح کے ماحول میں پرورش پانے والے بچے بھی بڑے ہو کر اسی راہ کو اختیار کر لیتے ہیں اور وہ بھی تشدد کرتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 750,000بچے بچیاں گھریلو تشدد کے گواہ ہیں ۔اس سے ان کے اندر مایوسی،جارحانہ رویہ،تشدد پسندی،جرائم پسندی کے رجحانات پیدا ہو تے ہیں۔
اسلام کا نظریہ
یورپ نے گھریلو تشدد کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مختلف کوششیں کی ۔انہوں نے عورتوں کو ’خود مختار‘بنایا،ان کو ہر طرح کے ’حقوق‘ عطا کیے اور ان کو مکمل ’آزادی‘ دے دی گئی حتی کہ انہیںان کے والدین،بھائی ،شوہر اور اولاد سے بھی آزاد کر دیا گیا۔لیکن ان تمام تدابیر سے بھی گھریلو تشدد میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اسلام نے گھریلو تشدد کا صحیح حل پیش کیا ہے۔اس نے عورت اور مرد کے سامنے ایک ایساخاندانی نظام دیاجس میں دونوں کی فطرت کا خیال رکھا گیا اور دونوں کو ایک دوسرے کا مددگار اور رفیق بنایا۔جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
 و المومنون و المومنٰت بعضھم اولیاءبعض۔(التوبة:71)
مومن مرد اور مومن عورتیں،یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔
اسی طرح اس نے دونوں کے دائرہ کار متعین کر دیے اور اسی کے مطابق انہیں ذمہ داریوں سے نوازا ،ساتھ ہی واضح کر دیا کہ ہر کوئی اپنے عمل کا ذمہ دار ہے اور اس سے اسی کے مطابق باز پرس کی جائے گی۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الا کلکم راع و کلکم مسﺅل عن رعیتہ،فالامام الذی علی الناس راع و ھو مسﺅل عن رعیتہ،والرجل راع علی اھل بیتہ و ھو مسﺅل عن رعیتہ،والمراة راعیة علی اھل بیت زوجھا و ولدہ و ھی مسﺅلة عنھم۔(بخاری:7138)
آگاہ ہو جاو، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔پس امام(امیر المومنین)لوگوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بار ے میں سوال ہوگا۔
ساتھ ہی اسلام نے مردوںکو عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے،ان کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے اور معاف کرنے کی تاکید کی ۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے:
وعاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسیٰ ان تکرھوا شیئا و یجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا۔(النسا:19)
ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔
                      متعدد احادیث میں بھی عورتوں سے اچھا سلوک کرنے کی ہدایت دی گئی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خیرکم خیرکم لاھلہ و انا خیرکم لاھلی و اذا مات صاحبکم فدعوہ۔(الترمذی:1828)
تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہواور میں ،تم میں سے سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوںاور جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے چھوڑ دو یعنی اسے برائی سے یاد نہ کیا کرو۔
اسی طرح آپ نے ایک اور جگہ فرمایا:
اکمل المومنین ایمانا احسنھم خلقاً وخیارکم خیارکم لنسائھم۔(الترمذی:1161)
مسلمانوں میں سے کامل ترین ایمان والا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر ہے اور تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں۔
ساتھ ہی اسلام نے مردوں کو عورتوں پر تشد د کرنے سے بھی واضح الفاظ میں منع کر دیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا یجلد احدکم امراتہ جلد العبد ثم یجامعھا فی آخر الیوم۔(بخاری:5204)
تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح نہ مارے کہ پھردوسرے دن اس سے ہم بستر ہوگا۔
اسلام میں کہا گیا کہ شوہر بیوی کو کسی طرح کی چوٹ نہ پہنچائے،اس کا خون نہ بہائے، اسے مار ے نہیں اور نہ ہی بیوی کے جسم کا کوئی حصہ توڑے۔
ایک دفعہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بیوی پر شوہر کے کیا حقوق ہیں؟آپنے فرمایا: ”جب توکھانا کھائے تو اسے بھی کھلائے، لباس پہنے تو اسے بھی پہنائے، اس کے منہ پر نہ مارے نہ برا کہے، بات چیت بھی صرف گھر کی حد تک کرے“۔        (ابو داد)۔
اگرچہ قرآن کریم میں بعض حالات میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس میں بھی پہلے سمجھانے، پھر نفسیاتی طریقے سے متنبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔اس کے بعد بھی نہ سمجھیں تب کہیں جا کر ضرورت بھرمارنے کی اجازت دی ہے لیکن اس کو بھی ناپسند کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فالصٰلحٰت قٰنتٰت حٰفظٰت للغیب بما حفظ اللہ و الٰتی تخافون نشوزھن فعظوھن و اھجروھن فی المضاجع و اضربوھن فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلاً ان اللہ کان علیّا کبیرا۔(النسا:34)
پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاو۔خواب گاہوں میں ان سے علاحدہ رہو اور مارو،پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے نہ تلاش کرو،یقین رکھو کہ اوپر اللہ تعالی موجود ہے جو بڑا اوربالاتر ہے۔
اس طرح سے اسلام نے گھریلو تشدد کا راستہ بند کر دیا ہے۔٭٭٭٭










No comments:

Post a Comment