Monday 7 July 2014

(Is masturbation break's the fast? And if it is broken then what is his Atonement ) کیا مشت زنی کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے؟ اور اگر ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا کیا کفارہ ہے؟

Osama Shoaib Alig
Research Scholar
Jamia Millia Islamia 
New-Delhi 

مشت زنی سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے ، جوبھی یہ حرام کام کرے اس کے ذمہ اس دن کی قضاء اوراس عظیم گناہ سے توبہ کرنا ضروری ہے ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
روزے کی حالت میں اگر عمدا مشت زنی کی جائے اورمنی کا اخراج ہوجائے تو روزہ باطل ہوجاتا ہے ، اس لیے اسے فرضی روزہ کی قضاء کرنا ہوگي اوراس کےساتھ ساتھ اللہ تعالی سبحانہ وتعالی کے ہاں توبہ بھی کرے ۔
کیوں کہ مشت زنی عام حالت میں بھی حرام ہے چہ جائے کہ روزے کی حالت میں۔ آج کل لوگ اسے سری عادت کا نام بھی دیتے ہیں ۔
دیکھیں : فتاوی الشيخ ابن باز ( 15 / 267 ) ۔
اورشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
جب روزے دار مشت زنی کرے اورانزال ہوجائے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، لھذا اس پر اس دن کی قضاء واجب ہے نہ کہ کفارہ ، کیونکہ کفارہ توصرف جماع کی بنا پر واجب ہوتا ہے ، اس کےعلاوہ اسے اپنے فعل پر توبہ کی کرنی چاہیے ۔ دیکھیں : فتاوی ارکان اسلام صفحہ ( 478 ) ۔
        لہذا جب وہ مشت زنی کرے اورانزال ہوجائے توروزہ ٹوٹ جائے گا لیکن اگرانزال نہ ہوتو پھر روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی نے شرح ممتع میں کہا ہے :
         اگرانزال کے بغیر مشت زنی کی تو اس کا روزہ نہيں ٹوٹے گا ۔ دیکھیں : الشرح الممتع ( 6 / 388 ) ۔
            بعض علماء کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ آيا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں ؟ اس میں دوقول ہیں :
پہلا قول : اس سے اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ امام شافعی ، امام احمد کا یہی مذھب ہے ، لیکن امام شافعی نے اس سے نئے مسلمان کومستثنی کیا ہے یا پھر ایسے شخص کو جودیہاتی ہو ،وہیں پرورش پائي ہو اوراہل علم سے دور رہتا ہوتواس کا روزہ فاسد نہيں ہوگا ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی المجموع میں کہتے ہیں :
جب روزہ دارکھانے پینے اورجماع کے حکم سے ناواقف ہونے کی بنا پرکھا پی لیے یا جماع کرلے  تو اگر تو وہ نیا مسلمان ہو یا پھر  دیہات میں پرورش پانے والا ہو جس پریہ مخفی ہوکہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا ، اس لیے وہ بھول جانے والے شخص کے مشابہ ہونے کی بنا پرگنہگار نہيں ہوگا ، اس میں نص بھی وارد ہے ۔
اوراگر وہ شخص مسلمانوں سے میل جول رکھنے والا ہوکہ اس پر اس کے حرام ہونے کا حکم مخفی نہ ہو تواس کا روزہ ٹوٹ جائے گا ، کیوں کہ وہ کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے ۔( اھـ المجموع للنووی( 6 / 352 )۔
دیکھیں المغنی لابن قدامۃ المقدسی ( 4 / 368 ) اور الکافی ( 2 / 244 ) ۔
        مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) کے علماءکرام نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے ، لجنۃ الدائمۃ مندرجہ ذیل سوال کیا گيا کہ :
جس نے رمضان میں دن کے وقت مشت زنی کرلی اوراسے اس کے حرام کا ہونے کا علم نہ ہو اورنہ ہی اسے ان ایام کا علم ہوجس میں وہ اس کا مرتکب ہوا تھا اس کا کیا حکم ہے ؟
کمیٹی کا جواب تھا :
اس گندی عادت کی بنا پرتوڑے ہوئے روزں کی قضاء کرنی واجب ہے کیونکہ مشت زنی سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے ، اوراسے ان ایام کی کوجاننے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں روزہ توڑا تھا ۔ دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 258 ) ۔
دوسرا قول : اس سے روزہ فاسد نہيں ہوتا جس طرح کہ بھولنے والے کا روزہ فاسد نہيں ہوتا ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ اورحافظ ابن قیم رحمہمااللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیارکیا ہے :
شیخ الاسلام " الفتاوی الکبری " میں کہتے ہیں :
روزے دارنے اگر کوئي روزہ توڑنے والا کام اس کی حرمت سے جاہل ہونے کی بنا پر کرلیا توکیا اسے روزہ دوبارہ رکھنا ہوگا ؟
امام احمد کے مسلک میں دو قول ہیں : زيادہ صحیح اورظاہریہی ہے کہ اس سے قضاءواجب نہیں ہوگي ، اورخطاب توابلاغ کے بعدہوتا ہے اس لیےکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
ّّتا کہ میں تمہیں اس کے ساتھ ڈراؤں اورجسے یہ پہنچے ٗٗ ۔
اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :
ّّہم اس وقت تک عذاب نہيں دیتے جب تک کہ رسول نہ مبعوث کردیںٗٗ
اوراس لیے بھی کہ اللہ تعالی نے فرمایا :
ّّتا کہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ تعالی کے خلاف کوئي دلیل نہ رہےٗٗ۔
اس طرح کی کئی ایک آيات قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں اللہ تعالی نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ کسی ایک کواس وقت تک سزا نہيں دیتا اورنہ ہی اس کا محاسبہ کرتا ہے جب تک کہ اس کے پاس رسول کا لایا ہوا دین نہ پہنچ جائے ۔
اورجس کویہ علم ہوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کےرسول ہیں اوروہ اس پر ایمان لے آيا لیکن وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائي ہوئي اکثر اشیاء کا علم نہ رکھے تواللہ تعالی اسے اس چيزکی سزا نہيں دے گا جواسے پہنچی ہی نہیں ۔
کیونکہ جب اللہ تعالی بلوغت کےبعد ترک ایمان پراسے سزا نہيں دیتا توپھر اس کی بعض شرائط پربھی ابلاغ سے قبل سزانہ دینا اولی ہوگا ، اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بھی اس جیسی مثالیں ملتی ہیں ۔
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی سے ایسے نوجوان کے بارے میں سوال کیا گيا جس نے رمضان میں شہوت غالب آنے پرمشت زنی کرلی کیونکہ وہ اس کے حکم سے جاہل تھا کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، تواس کا حکم کیا ہوگا ؟
شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
حکم یہ ہے کہ اس کےذمہ کچھ نہیں ، اس لیے کہ ہم گزشتہ سطور میں یہ بیان کیا ہے کہ روزہ دار کا روزہ تین شروط سے ٹوٹتا ہے :علم ہونا چاہیے ، یاد ہو ، اورارادہ ہونے پر ۔
لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ : انسان کومشت زنی کرنے سے صبر کرنا چاہیے اس لیے کہ مشت زنی حرام ہے جس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
ّّ اورجولوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ، سوائے اپنی بیویوں اوراملکیت کی لونڈیوں کے یقینا یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں ، لھذا جواس کے سوا کچھ اورچاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ٗٗ۔ المومنون ( 5 - 7 ) ۔
اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
ّّ اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جوبھی شادی کرنے کی استطاعت رکھے اسے شادی کرنی چاہیے ، اورجوطاقت نہيں رکھتا وہ روزے رکھے اس لیے کہ یہ اس کے لیے ڈھال ہیں۔ٗٗ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1400 ) ۔
اوراگر مشت زنی جائز ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی راہنمائی فرماتے ، اس لیے مکلف کےلیے ایسا کرنا آسان ہے ، اور اس لیے بھی کہ انسان اس میں لذت متعہ پاتا ہے ، لیکن روزے میں مشقت ہے ، توجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کی راہنمائی فرمائي تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ مشت زنی کرنا حرام ہے اورجائز نہيں ۔ ا ھـ
دیکھیں مجموع الفتاوی لابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 19 / 981 ) ۔
آپ کے لیے احتیاط اسی میں ہے کہ ان ایام کی قضاء میں روزے رکھیں ، اوران ایام کی تحدید میں کوشش میں ظن غالب پر عمل کریں ۔
شیخ ابن بازرحمہ اللہ تعالی مجموع الفتاوی میں کہتے ہيں :
جس نے رمضان میں دن کےوقت جماع کیا اوراس پرروزہ فرض بھی تھا یعنی وہ مقیم اورصحیح اوربالغ تھا ، لیکن جماع جہالت کی بنا پرکربیٹھا تواس کے بارہ میں اہل علم کا اختلاف پایا جاتا ہے :
کچھ کا کہنا ہے کہ : اس پرکفارہ ہوگا ، کیونکہ اس نے سوال نہیں کیا اورنہ ہی دین کی سمجھ حاصل کی ہے اوریہ کوتاہی ہے ۔
دوسرے اہل علم کہتے ہیں : جہالت کی بنا پراس پر کفارہ لازم نہیں ، تواس سے آپ کویہ علم ہوا ہوگا کہ آپ کے لیے احتیاط اسی میں ہے کہ کفارہ ادا کریں ، کیونکہ آپ نے کوتاہی کی ہے اورحرام کام کرنے سے قبل سوال بھی نہیں کیا ۔ اھـ دیکھیں مجموع الفتاوی لابن باز ( 15 / 304)
اس معاملہ میں احتیاط یہی ہے کہ کفارہ ادا کیا جائے ، اوریہاں کفارہ واجب اس لیے کہ اس نے جماع کے ساتھ روزہ توڑا ہے ، اوررمضان میں دن کے وقت روزہ کی حالت میں جماع کے علاوہ باقی کسی بھی روزہ توڑنے والی چيز سےکفارہ واجب نہيں ہوتا ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب

No comments:

Post a Comment