Friday 31 January 2014

(Insaniyat Ke Sabse Bade Mohsin, Hazrat Muhammad S.A.W Ki Taleemat) انسانیت کے سب سے بڑے محسن،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات



اسامہ شعیب علیگ

ریسرچ اسکالر ،جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی



جو شخص بھی آپ کی زندگی، آپ کی تعلیمات اور نوع انسانی کی فلاح کے لیے آپ کی جدو جہد کو دیکھے گا، اس کا دل بے اختیار پکار اٹھے گا کہ آپ خدا کے سچے رسول اور نوع انسانی کے سب سے بڑے محسن تھے۔اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پر جوکتاب نازل فرمائی وہ قرآن مجید ہے۔آپ نے اپنے قول وعمل سے اس کی جو تشریح فرمائی اس کا نام سنت ہے۔ قرآن و سنت کو اسلام کہا جاتا ہے۔ آپ کا دنیا پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ آپ نے اسے صحیح عقیدہ اور فکر دیا، اعلیٰ اخلاقی اصول عطا کیے، عدل و انصاف پر مبنی قانون دیا، پاکیزہ تہذیب اور معاشرت سے روشناس کرایا اور ایک ایسا نظامِ حیات عطا کیا جس میں انسان کی فلاح اور کام رانی پائی جاتی ہے۔ یہاں آپ کی بعض تعلیمات پیش کی جا رہی ہیں۔
(ا) انسان کے سامنے ہمیشہ یہ سوال رہا ہے کہ یہ دنیا کیسے وجود میں آئی؟ کیا یہ یوں ہی چلتی رہے گی یا کسی وقت ختم ہوجائے گی؟ وہ یہاں زندگی کیسے گزارے؟ اس کا کوئی متعین راستہ ہے یا اسے یوں ہی بھٹکنے کے لےے چھوڑ دیا گیا ہے؟ اس کے صحیح یا غلط اعمال کا فیصلہ کب ہوگا؟ اس کا کوئی نتیجہ کبھی سامنے آئے گا یا نہیں؟ اس سوال کے ٹھیک جواب سے انسان کی زندگی صحیح رخ پر چلنے لگتی ہے اور جواب غلط ہوجائے تو اس کی زندگی کا رخ بھی غلط ہوجاتا ہے۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں اس کا دوٹوک جواب ہمیں ملتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ دنیا خود بہ خود وجود میں نہیں آئی اور نہ اسے بہت سی ہستیوں نے پیدا کیا ہے، بلکہ اسے ایک خدا نے پیدا کیا ہے، وہی اسے چلا رہا ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی ہم سر اور شریک نہیں ہے۔ وہی انسان کا خالق ومالک اور پروردگار ہے۔ اس نے انسانوں کی ہدایت و راہ نمائی کے لےے اپنے رسول بھیجے۔ جو شخص ان کی اطاعت کرے گا وہ سیدھی راہ پر گام زن رہے گا اور کام یاب ہوگا اور جو اس سے انحراف کرے گاناکامی اور نا مرادی سے دو چار ہوگا۔ یہ دنیا، جس میں انسان کو عقیدہ و عمل کی آزادی حاصل ہے، ایک روز ختم ہوجائے گی اور ایک غیر فانی اور ہمیشہ رہنے والی دنیا وجود میں آئے گی۔ اس وقت ہر فرد اپنے فکر و عمل کی جزا یا سزا پائے گا۔ جس نے خدا کو مان کر اس کی اطاعت کی راہ اختیار کی ہوگی اسے وہ بہترین اجر سے نوازے گا اور جس نے اس سے بغاوت اختیار کی ہوگی اسے بد ترین عذاب سے کوئی چیز بچا نہ سکے گی۔
(۲)اس دنیا میں انسان خاندانوں، قبیلوں، نسلوںاور قوموں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان کے درمیان اور بھی اختلافات ہیں۔ یہ اختلافات عزت و ذلت کا معیار سمجھے جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ سارے انسان ایک ہیں، اس لےے کہ سب ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ ان کے درمیان جو اختلافات ہیں وہ غیر حقیقی ہیں،وہ عزت و ذلت کا معیار نہیں ہیں۔ اس کامعیار تقویٰ اور خدا ترسی ہے۔ صاحبِ عزت وہ ہے جو خدا ترس اور اس کے احکام کا پابند ہے۔ آپ نے اللہ تعالی کا یہ پیغام سنایا:
 ” اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھارے مختلف خاندان اور قبیلے بنادےے، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں سب سے زیادہ بزرگ وہ ہے جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہے۔ اللہ خوب جانتا ہے اور باخبر ہے۔“ (الحجرات: 13)
یہ اس بات کا اعلان ہے کہ دنیا کے کسی بھی انسان کو رنگ و نسل اور ملک و قوم اور اس قسم کے دوسرے اختلافات کی بنیاد پر برتر یا کم تر نہیں قرار دیا جائے گا۔ اس طرح کی ہر تفریق ناقابلِ اعتبار اور ناقابلِ قبول ہے۔ 
(۳)ہر طرف انسانی حقوق پامال ہورہے تھے، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کے تصور ہی سے دنیانا آشنا تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا واضح تصور دیا اور انسان کی جان، مال اور عزت وآبرو کو قابل احترام قرار دیا۔ہر انسان کوزندہ رہنے کاحق ہے۔
قرآن مجید نے کہا کہ:
 ” جس نے کسی ایک انسان کا بھی قتل کیا، جب کہ اس نے نہ تو ناحق کسی کی جان لی ہو اور نہ فساد کامرتکب ہوا ہو ، تو اس نے گویا روئے زمین کے تمام انسانوں کو قتل کر ڈالا۔“ ( المائدة: 32)
 آپ نے بتایا کہ ہر انسان محترم ہے، اس لیے اسے معاشی دوڑ ڈھوپ اور بہتر زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ اسے ذلت و خواری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔
 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
 ”ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے اور انھیں خشکی اور تری پر سواری کی طاقت دی ہے اور پاک چیزوں کی روزی عطا کی ہے اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انھیں فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔“ (بنی اسرائیل:70)
 یہ اس امر کی صراحت ہے کہ خشکی سے ، سمندر سے اور یہاں کی فضاو ¿ں سے فائدہ اٹھانے اور بہتر زندگی گزارنے کا ہر شخص کو حق ہے۔ اس سے اسے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
(۴)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سماج کے کم زور افراد اور طبقات پر ظلم و زیادتی سے منع ہی نہیں فرمایا ، بلکہ ان کے حقوق متعین کرے اور معاشرہ کو ان حقوق کے ادا کرنے کا پابند بنایا۔ 
 عورتوں کے متعلق آپ کا ارشاد ہے: 
” تم جو کھاو وہ ان کو کھلاو، جو پہنو ( اس معیار کا) ان کو پہناو ۔ انھیں زد و کوب نہ کرو اور برا بھلا مت کہو۔“ 
 آپ نے فرمایا:
 ” تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنے بیوی بچوں کے حق میں بہتر ہیں۔“ غلاموں، محکوموں اور زیر دستوں کا کوئی حق ہی نہیں سمجھاجاتا تھا۔ آپ نے فرمایا: 
 ” وہ تمھارے بھائی ہیں۔ تمھیں چاہےے کہ جو کھاو  ان کو بھی وہ کھلاو ، جو پہنو ان کو بھی وہ پہناو ، ان پر کام کا اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ وہ اسے اٹھا نہ سکیں۔ اگر ان کی طاقت سے زیادہ کام ہو تو اس کے پورا کرنے میں ان کی مدد کرو۔ “
 آپ نے کم زور افراد اور طبقات کے حق میں محض پند و نصیحت ہی نہیں فرمائی، بلکہ انھیں قانونی حقوق بھی عطا کےے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو تعلیمات پیش کیں ان کا ایک نمونہ یہ ہے:
” تمہارے رب کا فیصلہ ہے تم صرف اس کی عبادت کرو گے اور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آو گے۔وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیںاف تک نہ کہو، ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو اور ان سے تہذیب و شرافت سے بات کرو۔ ان کے سامنے جذبہ ہمدردی سے جھک کر رہو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو کہ خدایا جس طرح سے انہوں نے بچپن میں ہماری پرورش کی تو ان پر رحم فرما۔قرابت داروں، مسکینوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرو۔ اسراف سے بچو، اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہوتے ہیں۔ بروقت ان کی مدد نہ کر سکو تو بھلے طریقے سے معذرت کرلو۔ اگر توقع ہو کہ آئندہ مدد کر سکوگے (تو مایوس مت کرو)۔اللہ جس کی روزی میں چاہتا ہے وسعت عطا کرتا ہے اور جسے کم دینا چاہتا ہے کم دیتا ہے۔ وہ بندوں کے حالات سے باخبر ہے۔ اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے ڈر سے قتل مت کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی دیں گے۔ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے۔ فحاشی اور بدکاری کے قریب بھی نہ جا۔ یہ بے حیائی کا کام اور برا راستہ ہے۔اللہ نے انسان کو محترم قرار دیا ہے، اس لیے اسے قتل نہ کرو، سوائے اس کے کہ حق و انصاف اس کا تقاضا کرے۔ ناحق اور ظلم کے ساتھ کسی کی جان لی جائے تو اس کے ولی کو قصاص یا دیت لینے اور معاف کرنے کا حق ہے۔ اس معاملے میں اس کی مدد کی جائے گی۔ یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جا۔ہاں احسن طریقہ سے اپنا حقِ خدمت لے سکتے ہو۔ جب وہ سوجھ بوجھ کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کا مال اس کے حوالے کر دو۔ عہد وپیمان کو پورا کرو۔ اس کے بارے میں اللہ کے ہاں سوال ہوگا۔ناپ تول میں کمی نہ کرو، ناپ کے دو تو پورا پورا دو، وزن کرو تو ترازو ٹھیک رکھو۔(معاملات میں) یہ طریقہ بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔ جس بات کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ یاد رکھو!کان، آنکھ، دل، ہر ایک کے بارے میں اللہ کے ہاںپوچھا جائے گا۔زمین میں اترا کر نہ چلو۔ تم نہ زمین کو شق کر سکتے ہو اور نہ پہاڑ کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ یہ باتیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں“۔ (بنی اسرائیل:23-39)
قرآن مجید ،جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا، یہ اس کی تعلیمات کی ایک جھلک ہے۔ ان میں اخلاق اور قانون کا جو حسین امتزاج ہے ، اس کی کوئی مثال شاید کسی دوسری جگہ نہیں مل سکتی۔    
٭٭٭٭


Monday 27 January 2014

(Islam Me Valentine Day Ka Tasaoor) اسلام میں ویلینٹائن ڈے کا تصور




 اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی


ویلینٹائن ڈے اصلاً رومیوں کا تہوار ہے جس کی ابتدا تقریباً 1700سو سال قبل ہوئی تھی۔اہلِ روم میں 14 فروری کو ’یونودیوی‘ کی وجہ سے مقدس مانا جاتا تھا اور اس دیوی کو ’عورت اور شادی بیاہ کی دیوی‘ سمجھا جاتا تھا، اس لیے ان لوگوں نے اس کو محبت اور شادی کا دن ٹھہرا لیا۔بعد میں اسی دن ایک خاص واقعہ پیش آیا۔
 ایک روایت کے مطابق جب سلطنت روم میں جنگوں کا آغاز ہوا تو شادی شدہ مرد اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر جنگوں میں شریک نہیں ہونا چاہتے تھے۔ نوجوان بھی اپنی محبوباؤں کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ جنگوں کے لیے کم افراد کی دستیابی کی وجہ سے شہنشاہ کلاڈئیس (Claudius) نے حکم دیا کہ مزید کوئی شادی یا منگنی نہیں ہونی چاہیے ،لیکن’ ویلنٹائن نامی‘ ایک پادری نے اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ طریقہ سے شادیوں کا اہتمام کیا۔ جب شہنشاہ کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو قید کردیا۔ جو کچھ اس نے نوجوان عاشقوں کے لیے کیا تھا، اسے یاد رکھا گیا اور آج اسی نسبت سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔
ایک دوسری روایت کے مطابق اس کا آغاز’رومن سینٹ ویلنٹائن‘ کی مناسبت سے ہوا جسے 'محبت کا دیوتا' بھی کہتے ہیں۔اسے مذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں پہلے قید میں رکھا گیا، پھر سولی پر چڑھا دیا گیا۔ قید کے دوران ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی۔ سولی پر چڑھائے جانے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کے نام ایک الوداعی محبت نامہ چھوڑا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا ’تمہارا ویلنٹائن‘۔ یہ واقعہ 14/ فروری 279ءمیں پیش آیا۔ اسی کی یاد میں انہوں نے 14/ فروری کو یومِ تجدید ِمحبت منانا شروع کردیا۔
بریٹانیکا‘میں ویلنٹائن ڈے کا پس منظر ذرا مختلف انداز میں ملتا ہے :
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا(1997ئ) میں شائع ہونے والے انسائیکلو پیڈیا آف کیتھولک ازم( Catholicism ) کے بیان کے مطابق سینٹ ویلنٹائن کا اس دن سے کوئی تعلق نہیں ہے،البتہ ’ویلنٹائن ‘نام کے دو مسیحی اولیا (Saints) کا نام ملتا ہے۔ ان میں سے ایک کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ روم کا ایک پادری تھا جسے رومی دوسرا’ طرنی‘ (Terni) کا ایک بشپ تھا جسے لوگوں کو شفابخشنے کی روحانی طاقت حاصل تھی۔ اسے بھی کئی سال پہلے ’شہید‘ کردیا گیا تھا۔ لیکن یہ ابھی تک طے نہیں ہو سکاہے کہ ایک سینٹ ویلنٹائن تھا یا اس نام کے دو افراد تھے؟ البتہ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ ان دونوں کا محبت کرنے والے جوڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ محبت کے پیغامات یا تحائف بھیجنے کا رواج بعد میں غالباً ازمنہ وسطیٰ میں اس خیال کے تحت شروع ہوا کہ14/ فروری پرندوں کی جنسی مواصلت کا دن ہے۔ مسیحی کیلنڈر میں یہ دن کسی سینٹ کی یاد میں تہوار کے طور پرنہیں منایا جاتا۔(The Harper Loll ins Encyclopaedia of Catholicism: P.1294)
یہ ہے اس تہوار کی اصلیت۔لیکن جنسی آوارگی، بیہودگی اور خرافات کو مغربی ذرائع ابلاغ کس طرح ایک ’مقدس تہوار‘ بنا دیتے ہیں، اس کی واضح مثال ’ویلنٹائن ڈے‘ ہے۔ان کی تفریح اور تہوار میں تین چیزوں کا ہونا لازمی ہے یعنی شراب ، موسیقی اور عورت۔
 ایک زمانے تک یورپ میں بھی ’ویلنٹائن ڈے‘ کو’ آوارہ مزاج نوجوانوں کا عالمی دن‘ سمجھا جاتا تھا، مگر آج اسے ’محبت کے متوالوں‘ کے لیے ’یومِ تجدید ِمحبت ‘کے طور پر منایا جانے لگا ہے۔ اب بھی یورپ اور امریکہ میں ایک بڑی تعداد ’ویلنٹائن ڈے‘ منانے کو برا سمجھتی ہے، مگر ذرائع ابلاغ ان کے خیالات کو منظر عام پر نہیں آنے دیتے۔مغربی ذرائع ابلاغ اخلاقی نصب العین کے مقابلے میں ہمیشہ بے راہ روی کو فروغ دینے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
مسلمانوں میں بھی دیکھتے ہی دیکھتے جس طرح ’ویلنٹائن ڈے‘ جدیدنوجوان نسل اور مغرب زدہ طبقات میں پذیرائی حاصل کرچکا ہے، اس کی توقع ایک اسلامی معاشرے میں نہیں کی جاسکتی۔ اس کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ مسلم معاشرہ اندر سے اس قدر کھوکھلا ہوگیا ہے کہ اس کی بقا کے لیے وسیع پیمانے پرتحریک چلانے کی ضرورت ہے۔
ویلینٹائن ڈے میں صبح سے رات گئے ایک دوسرے کو پھول دیے جاتے ہیں، پھولوں کی دکانوں پرزبردست رَش رہتا ہے، گل دستوں کی قیمت میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے،سرخ گلاب کی کمی ہو جاتی ہے،ایک دوسرے کو چاکلیٹ اور مٹھائیوں کا پیکٹ بطور محبت پیش کیا جاتا ہے اورایک دوسرے کو ایسے کارڈ پیش کیے جاتے ہیں جس پر یونانیوں کے عقیدے کے مطابق محبت کے خدا’ Cupid‘ کی تصویر بنی ہوتی ہے ،اس کی شکل کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ ایک لڑکا جس کے دو پَر ہوتے ہیں ،اس کے ہاتھ میں تیرا ور کمان ہے اور وہ تیر کو محبوبہ کے دل میں پیوست کر رہا ہے ۔اس دن عہدوپیمان کیے جاتے ہیں، روٹھوںکومنایا جاتا ہے۔کارڈس اور دیگر تحائف کے تبادلے ہوتے ہیں، موبائل پر پیغامات بھیجے جاتے ہیں،اس کے ذریعہ کمپنیاں موٹی رقم کماتی ہیں،انٹر نیٹ کلبوں پر رش رہتا ہے،جنرل اسٹوروں اور کتابوں کی دکانوں پر ’ویلنٹائن کارڈ‘ اس طرح فروخت ہوتے ہیں جس طرح سے عید کے کارڈ فروخت ہوتے ہیں۔ ان اسٹوروں پر ’کیوپڈ‘ کے بڑے بڑے نشانات آویزاں کیے جاتے ہیں اور بعض بڑے ہوٹلوں نے ’ویلنٹائن ڈنر‘ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب کوئی لڑکا کسی لڑکی سے عشق کے معاملے کو حتیٰ الامکان ظاہر نہیں کرتا تھا،کیونکہ اس طرح کا اظہار سخت معیوب سمجھا جاتاتھا اور ایسی حرکت کے مرتکب نوجوانوں کی خوب درگت بنائی جاتی تھی، مگر آج یہ برا وقت بھی آگیا ہے کہ سب کچھ آرام سے ہوتا ہے اور کسی کو اعتراض کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔الا ماشا ءاللہ۔اس سے نوجوان نسل کی ذہنی رجحان کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ایسا کرنے والے مسلمان لڑکے لڑکیاں ،مسلم گھروں ہی کی اولاد یں ہوتی ہیں ،کسی یہودی ،نصرانی یا ہندوؤں کے گھروں کی نہیں۔اس میں جہاں ان کے والدین کی تربیت کی کمی ہے وہیں تعلیم ،تعلیمی ادارے اور اساتذہ کا بھی اہم کردار ہے۔
اسلام کا نظریہ
حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں کی قدم بقدم پیروی کرو گے ،اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم لوگ بھی اس میں داخل ہونے کی کوشش کرو گے۔آپ سے پوچھا گیا کہ پہلی قوم سے آپ کی مراد یہود ونصاریٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا پھر اور کون؟“(بخاری :7320)۔

اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تقلید اور مشابہت اختیار کرنے سے اجتناب کرنے کی دعوت دی ہے۔لیکن بدقسمتی سے امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ اپنے اخلاق و عادات اور رسوم ورواج میں یہود و نصاریٰ کی پیروی کرنے لگا ہے۔ان میں سے ایک ویلینٹائن ڈے منانا بھی ہے جوہمارے لیے کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔کیوں کہ یہ ایک شرکیہ اور بت پرست قوم کا تہوار ہے۔اس کا مرتکب ہونا غیر قوم کی مشابہت اختیار کرنا ہے ا ور اس کو قرآن و حدیث میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ارشادِ ربانی ہے:

ثم جعلنٰک علیٰ شریعة من الامر فاتبعھا و لا تتبع اھواءالذین لا یعلمون(الجاثیة:18)۔
پھر ہم نے آپ کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے۔لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے“۔

ایک حدیث میں آپ نے ارشادفرمایا:
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے“(ابوداؤد:4031)۔

علمائے اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت جائز نہیں ہے اور اگر وہ تہوار شرکیہ امور سے متعلق ہوئے تو اس میں برضا و رغبت شرکت انسان کو کفر اور مر تد کے درجے تک پہنچا دے گی۔امام ابن تیمیہ ؒ نے صراط مستقیم میں اور امام ذہبیؒ نے تشبیہ الخسیس میں اس کاتفصیلی ذکر کیا ہے۔

پھر یہ بھی کہ اس دن جس محبت کا اظہار کیا جاتا ہے وہ عمومی طور پر غیر محرم کے درمیان ہوتا ہے ،خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔شریعت نے اس کو حرام قرار دیا ہے کیوں کہ اس کا نتیجہ زنا ،فحش باتیں اور والدین سے بغاوت کی صورت میں نکلتا ہے اور’کیوپڈ‘ کی تصویر یا اس کا مجسمہ پیش کرنااس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اسے پسند کر رہا ہے تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ کھلا ہو اشرک ہے اور یہ کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہوگا۔
اس لیے ہم سب کو غیر وں کی مشابہت اختیار کرنے اوران کی تہواروں میں شرکت کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ایسا نہیں ہے کہ کسی قوم کی تقلید اور مشابہت اختیار کرنے سے وہ ہمیں اپنی قوم کا سمجھنے لگیں گے اور سر آنکھوں پر بٹھا لیں گے۔کیوں کہ جو اپنے مذہب اور تہذیب و تمدن کا نہ ہوسکا وہ کسی اور کا کیا ہوگا؟ہمیں عزت تب ہی ملے گی جب ہم اپنے دین اور تہذیب و تمدن سے جڑے رہیں گے۔جیسا کہ قرآن کہتا ہے :

وللہ العزة و لرسولہ و للمومنین ولکن المنٰفقین لا یعلمون (المنٰفقون:۸)
اور عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور منافقین کے لیے ہے،مگر یہ منافقین جانتے نہیں ہیں“۔
٭٭٭٭٭



Friday 3 January 2014

(Ladkiyo Se Mazrat Ke Sath) "لڑکیوں سے معذرت کے ساتھ"


اسامہ شعیب علیگ

٭ایک ہو تو ڈرتی ہے۔
٭دو ہوں تو ڈراتی ہیں۔
٭تین ہوں تو لڑتی ہیں۔
٭چار ہوں تو لڑاتی ہیں۔
٭پانچ ہوں تو ”ہم پانچ“ کے کردار بن جاتی ہیں۔
٭چھ ہوں تو چھکے چھڑاتی ہیں۔
٭سات ہوں تو سات سمندر پار بھی پیچھا کرتی ہیں۔
٭آٹھ ہوں تو آٹھوں پہر رلاتی ہیں۔
٭نو ہوں تو نو، نو نہیں بلکہ یس ، یس کہلواتی ہیں۔
٭دس ہوں تو دس دس مرتبہ آئینے سے باتیں کرتی ہیں۔
٭گیارہ ہوں تو کرکٹ ٹیم بنا لیتی ہیں۔
٭بارہ ہوں تو بس اتنا ہی کافی ہے۔آخر مجھے بھی تو شادی کرنی ہے


(Shaadi Of Line) شادی آف لائن


اسامہ شعیب علیگ
٭آپ کانام ؟
گمنام عرف مسکین۔

٭آپ کی شادی کس نے کرائی تھی؟
جس نے کرائی تھی وہ ملک چھوڑ کر بھاگ چکا ہے۔

٭آپ کو کون سا رنگ پسند ہے؟
جب سے شادی ہوئی ہے کلر بلائنڈ ہو کر رہ گیا ہوں۔

٭شادی کس کی پسند کی تھی؟
یہ زبردستی کی شادی تھی۔

٭آپ کی بیگم آپ کو دیکھ کر گنگناتی ہیں؟
گنگناتی تو نہیں ،البتہ چنچناتی ضرور ہیں۔

٭آپ کو ان کی کون سی ادا سب سے زیادہ پسند ہے؟
ان کی گھور کر الّو جیسی آنکھیں دکھانے والی ادا مجھے بہت پسند ہے۔

٭آپ کو پیار سے کیا کہہ کر پکارتی ہیں؟
اکثر پیار سے مجھے یتیمیو کہہ کر پکارتی ہیں۔

٭کھانے میں ان کو سب سے زیادہ کیا پسند ہے؟
کھانے میں ان کو سب سے زیادہ ’بھیجہ‘ پسند ہے۔

٭شادی کے بعد آپ کو کیا نظر آتا ہے؟
اب مجھے ہر طرف والٹ کا خطرہ منڈلاتا نظر آتا ہے۔

٭ہنی مون کے لیے آپ کہاں گھومنا پسند کریں گے؟
شادی کے بعد تو میں خود ہی گھوم گیا ہوں اب بھلا مجھے گھومنے کی کیا ضرورت ہے؟

٭مستقبل میں آپ کا کیا پروگرام ہے؟

مستقبل میں ہمارا سمندر میں چھلانگ لگانے کا پروگرام ہے۔ بس اب صرف سمندر اور اس کی گہرائی طے کرنا باقی رہ گیا ہے۔

(Suicide, Couses And Treatments) خودکشی- اسباب اور علاج



                                          
     اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر,جامعہ ملیہ اسلامیہ,دہلی


جب کوئی انسان جان بوجھ کر خود کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا یہ عمل خودکشی کہلاتا ہے۔مگر ماہرینِ عمرانیات کی نظر میں انسان کا ہر وہ فعل جو اس کی جان یا صحت کے لیے خطرہ ثابت ہو,وہ بھی اقدامِ خودکشی ہے مثلاًکانوں میں لیڈ لگا کر ریلوے ٹریک پر گانا سنتے ہوئے چلنا خطرے سے خالی نہیں, لیکن اس کے باوجود کوئی ایسا کرے تو اس کا یہ عمل خودکشی میں آئے گا۔
خودکشی کا مسئلہ ابتداءدنیا سے چلا آرہا ہے لیکن دنیا کی پوری تاریخ میں کسی مذہب نے اس پر کوئی واضح نظریہ نہیں پیش کیا ہے سوائے اسلام کے۔یہ دنیا کا پہلا نظامِ حیات ہے جس نے خودکشی کو حرام اور اس کے مرتکب کو ہمیشہ کے لیے جہنمی بتایااور ساتھ ہی ان تمام اسباب پر توجہ دی جس کی وجہ سے انسانی ذہن میں اس کا خیال آسکتا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں اس کا رجحان بہت ہی کم ہے, جو کرتے بھی ہیں تو اس کی وجہ ان کا اسلامی تعلیمات سے دور ہونا ہے اور یہ بھی کہ ان میں زیادہ تر معاملات مشکوک ہوتے ہیں۔خصوصاً جب بظاہر لڑکیاں سسرال میں خودکشی کرتی ہیں۔ان میں سے اکثریت کو قتل کرکے خودکشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے اوریہاں کا قانون کیسا ہے؟سب کو معلوم ہے ۔اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں۔
ہندوستان میں خودکشی کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو بہت خطرناک صورتِ حال سامنے آتی ہے۔کرائم برانچ 2012 کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں کل135445یعنی (%11.2)لوگوں نے خودکشی کی۔اگرچہ اس میں 2011 کے مقابلے%0.1 کمی آئی ہے ۔تامل ناڈو %12.5کے ساتھ سرِ فہرست رہا۔مہاراشٹرا%11.9 اورویسٹ بنگال%11.0 دوسرے,تیسرے نمبر پر رہے۔اترپردیش %2.7سب سے نیچے رہا۔
اگر بات فیملی خودکشی کی ہو تو اس میں کل 109کیسز سامنے آئے۔189 لوگوں کی موت ہوئی ,جس میں عورتیں بچے بھی شامل ہیں۔راجستھان اس معاملے میں 74کیسز کے ساتھ سرِ فہرست رہا۔
خودکشی کے اسباب پر نگاہ ڈالی جائے تو گھریلو مشکلات کی وجہ سے% 25.6, بیماری سے%20.8 , لَو افیئر میں% 3.2 , غربت سے %1.9, نشیلی دواں کی وجہ سے %3.3, جہیز میں% 1.6 , معاشی حالت میں غیر متوقع نقصان کی وجہ سے%2.1, نامعلوم اسباب کی وجہ سے %15.1اور دوسری وجوہات کی وجہ سے %26.5 لوگوں نے(جس میں ریکینگ,جنسی تعلقات میں ناکامی ,احساسِ گناہ ,والدین کی بے جا ڈانٹ ڈپٹ,مطالبات پورے نہ کرنا, لڑکیوں کو کم تر سمجھنایا جہیز دینے کی وجہ سے طعنہ دینااور طویل بیماری,جب اپنوں نے خاص کر اولاد نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہووغیرہ) خودکشی کی ہے۔
عمر اور جنس کے لحاظ سے خودکشی کرنے والے مرد اور عورت کا تناسب دیکھا جائے تویہ14 سال کی عمر تک کا49:51 ہے,15 سے 29سال کی عمر کا56:44 ہے,30 سے44 سال کی عمر کا69:31 ہے,45 سے59 سال کی عمر کا74:26 ہے اور60 سے زائد کا 72:28تناسب ہے۔ اسی طرح خودکشی کرنے والے غیر شادی شدہ مرد اور عورت کا 62:38تناسب ہے, شادی شدہ کا 66:34اور طلاق شدہ کا49:51 تناسب رہا۔
اگر پیشہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سروس کرنے والوں میں%12.5,سیلف سروس میں%38.7, بے روزگار%7.4 , اسٹوڈنٹس%5.5 , ریٹائر0.7% , ہاس وائف%18.2 اور دوسرے پیشے میں%17.0 لوگوں نے خودکشی کی ہے۔
انسانی زندگی میں تعلیم کا اہم کردار ہے لیکن ہمارے یہاں کا تعلیمی سسٹم ایسا ہے کہ ناکامی کی صورت میں کمزور طالب ِعلم دبا میں آکر خودکشی کرلیتے ہیں۔2012کی رپورٹ کے مطابق پرائمری میں%23, میٹرک میں%23, انٹر میں%19.2, ڈپلوما میں%1.5, گریجویٹ میں%3.4, پوسٹ گریجویٹ میں%0.6,ہائر ایجوکیشن میں%9.7طلبہ و طالبات نے خودکشی کی۔

دوسرا اہم سبب یہ کہ ایک طالب ِعلم جب کئی سارے امتحانات پاس کر کے اور ا س پر ہزاروں روپئے خرچ کر کے,جاب کی تلاش کرتا ہے تو اسے ناکامی ملتی ہے۔ہر جگہ اس سے رشوت,سفارش مانگی جاتی ہے ۔اگر اس کے پاس نہ ہو تو وہ ناامید ہو جاتا ہے اور زندگی اسے بوجھ لگنے لگتی ہے۔ایسے میں اس کے دماغ میں مایوسی جڑ پکڑ لیتی ہے۔اگر اس کو صحیح رخ نہ دیا جائے تو اس کے لیے خودکشی کرنا آسان لگنے لگتا ہے۔
 خودکشی کرنے والوں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جن کو بچپن میں محرومی ملی ہو یا جن کے والدین نہ ہوں ,جن کی ذہنی و جسمانی تکمیل کسی اچھے ہمدرد کے بغیر ہوئی ہو یا والدین ہوں, مگر ان کی آپس میں بنتی نہ ہو یا طلاق ہو گئی ہو۔
خودکشی کے طریقے
اس کے مختلف طریقے رائج ہیں۔مثلاً آتشی اسلحہ,تیزدھار آلات اورزہر یا زہریلی ادویہ کے استعمال سے یاآگ میں جل کر,پانی میں ڈوب کر,اونچائی سے چھلانگ لگا کر یا ٹرین کے آگے کود کرلوگ خود کو ہلاک کر لیتے ہیں۔بعض دفعہ موت کو سامنے دیکھ کر لوگوں کا ارادہ آخری وقت میں تبدیل ہوجاتا ہے مگر ٹرین یا آتشی اسلحہ کے استعمال سے بچنے کی امید نہیں رہتی ہے۔
خودکشی کرنے والوں کی پہچان
اس کی بعض پہچان ہوتی ہیں جس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسے لوگوں کو بچایا جا سکتا ہے۔لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہر حال میں اس سے کامیابی مل جائے۔
٭عموماً ایسے لوگوں میں زندہ رہنے اور مر جانے کی خواہشات جنم لیتی ہیں, وہ کشمکش میں مبتلا رہتے ہیںاور ان کا ذہن کسی خاص مسئلہ پر رائے قائم کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
٭جسمانی حرکات و حالت سے بے چینی کا اظہار ہوتا ہے۔غصہ اور ندامت دونوں رویے ان کے اندر آجاتے ہیں۔کبھی ایک دم سے بھڑک اٹھیں گے اور اگلے ہی پل ندامت سے معافی مانگ رہے ہوں گے۔
٭روز مرہ کے کاموں سے ان کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔بیوی بچوں سے دور ,دوست اور احباب سے کٹ جائیں گے۔ملنے میں اجنبیت محسوس کریں گے۔
٭ان کا چہرا تھکا ہوا معلوم ہوگااور کثرت سے سگریٹ نوشی کریں گے۔آنکھیں ویران اور ایک ہی پوزیشن میں رہ کر فضا میں دوڑتی رہیں گی۔نیند سے کوسوں دور رہیں گے۔خاموش رہنے لگیں گے۔ان سب باتوں کا اندازہ تبھی ہوگا جب ہم اپنے گھر کے لوگوں کے روزمرہ معمولات سے واقف ہوں گے۔
خودکشی کے اثرات
اگر خودکشی کرنے والا جان لے کہ اس کے جانے کے بعد گھر والوں یا اعزہ واقارب کو کن مشکلات اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ ایسا کرنے سے پہلے پچاس بار سوچے گا۔اس لیے کہ مرنے والے کے اہل و عیال شرمندہ اورخود کو مجرم گمان کرتے ہیں کہ اگر اس کی بات مان لیتے تو ایسا نہ ہوتا یا یہ کہ ہم لوگ اس کو سمجھ نہ سکے اور ان کو غم,دکھ,ندامت,ذلت و رسوائی کا ڈراور کسی کو کھونے کا احساس بھی ہوتا ہے۔پھر خودکشی کرنے والا شادی شدہ ہے تو بیوی بچے بے سہارا اور یتیم ہو جاتے ہیں ۔معاشرے کے طنزیہ اور چبھتے ہوئے سوالات کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔اگر غیر شادی شدہ لڑکی خودکشی کر لے تو پچاس طرح کی باتیں بننے لگتی ہیں اور کردار پر ہی سوال اٹھنے لگتے ہیں۔لیکن خواتین یا لڑکیاں جو خودکشی کرتی ہیں ,اگر وہ پوسٹ مارٹم کامنظر دیکھ لیں تو کبھی اس کا خیال اپنے دلوں میں نہیں لاتیں, کہ کیسے ان کی لاش کے ساتھ بے حرمتی کی جاتی ہے اور نامحرم ,اجنبی مرد ہاتھ لگا کر چیر پھاڑ کرتے ہیں۔
خودکشی میں معالجین کا کردار
ایسے لوگ خودکشی کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے رابطہ ضرور قائم کرتے ہیں اور اپنی پریشانیوں یا مسائل کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔اس کو وہ مستقل سر درد,سینے میں جلن,مایوسی اور اضمحلال وغیرہ کی صورت میں بیان کریں گے۔اب یہ ڈاکٹر کی سمجھ پر منحصر ہے کہ وہ ان کو کس حد تک بھانپ لیتا ہے۔بہتر ہوگا کہ ان سے اشارے کنائے میں پوچھ لیا جائے ,اس سے وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔
حل
عام حالات میں جب کوئی شخص اپنی زندگی کا خاتمہ کرتا ہے تویہ غم,افسوس اور مایوسی کا ردِ عمل ہوتا ہے۔اس کا سیدھا اور آسان حل یہ ہے کہ حقیقی مسلمان بنا جائے۔ اگر مسائل یا مصیبتیں ہیں بھی تو مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے اس سے نکلنے کی کوشش کیاجائے اور اس میں اللہ تعالی سے مدد طلب کی جائے اور اسی پر بھروسہ کیا جائے ۔قرآن نے ان سب کا علاج بہت ہی اچھے انداز میں پیش کیا ہے:
ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ ان اللہ بالغ امرہ قد جعل اللہ لکل شئی قدیر (الطلاق:(3
اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا ۔ اللہ تعالی اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا
ایک مسلمان پانچ وقت کی نمازکی پابندی کرے تو اس کے لیے اسے مسجد آنا ہوتا ہے جہاں اس کے جاننے والوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے اسی طرح سے جمعہ اور عید کی نماز میں سارے لوگ میں وہ گھرا ہوتا ہے ,اس لیے اس کو تنہائی کا احساس نہیں ستاتالیکن وہ لوگ جو تنہائی اور مایوسی بے اطمینانی کا شکار ہوتے ہیں, ان کے ذہن میں زیادہ خودکشی کے خیالات آتے ہیں۔ان کے لیے اللہ تعالی فرماتا ہے:
و انفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدکم الی التھلکة و احسنوا ان اللہ یحب المحسنون(البقرة:(195
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے
اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان لوگوں پر احسان کرتا ہے تو لوگ مصیبت میں اس کے کام آتے ہیں ۔اس طرح وہ خود کو تنہا محسوس نہیں کرتا اوریہ بہتر ہے اس بات سے کہ خودکشی کرلے۔اللہ تعالی ایسا کرنے والوں کو دردناک عذاب دے گا۔ارشادِ ربانی ہے:
ولا تقتلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیما۔ومن یفعل ذلک عدوانا و فسوف نصلیہ نارا (النسا (29,30:
اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو, یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے۔ جو شخص ظلم وزیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا, اس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے
یاد رہے کہ جس چیز سے خودکشی کی جائے گی, مرنے والے کو حشر کے میدان میں اسی سے عذاب دیا جائے گااور اس کے تمام اچھے کام منسوخ کردیا جائے گا۔جہنم میں بھی ہمیشہ خود کو اسی سے ہلاک کرتا رہے گا۔حدیثِ نبوی ہے:
ابوہریرةؓ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا! جو شخص اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے مار لے تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اوروہ اس کو اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ میں ہمیشہ مارتا رہے گا۔اور جو شخص زہر پی کر اپنی جان لے, تووہ اسی زہر کو جہنم کی آگ میں پیتا رہے گااور ہمیشہ اسی میں رہے گا۔جو شخص اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر مار ڈالے تو وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں گرا کرے گااور ہمیشہ اسی حال میں رہے گا(مسلم:(1026
اللہ تعالی ہم سب کو اس حرام کام سے محفوظ رکھے, آمین
usama9911@gmail.com

٭٭٭٭