Sunday 31 August 2014

(Hajj Mubarak and his teachings) حجِ مبارک اور اس کی تعلیمات


اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی

اسلام کی بنیاد جن پانچ چیزوں پر ہے ،ان میں سے ایک حج ہے۔یہ ہراس مسلمان عاقل و بالغ مرد، عورت پر عمر میں ایک بار فرضِ عین ہے جس کے پاس اتنی دولت ہو کہ وہ اپنی ضروریات کے علاوہ آنے جانے کے اخراجات اور اس دوران اپنے اہل و عیال کے خرچ کو پورا کر سکتا ہو، صحت مند ہو، راستہ مامون و محفوظ ہو اور اگر عورت ہے تو اس کے ساتھ شوہر یا محرم ہو۔
 حج کے لیے حلال کمائی کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔ حرام کے پیسے سے حج قبول نہیں ہوگا ۔حدیثِ نبوی ہے:
 اللہ تعالی پاک ہے اور صرف پاکیزگی ہی کو قبول فرماتے ہیں۔ (ترمذی:2799)
حج کی مقبولیت کی علامت یہ ہے کہ اس کے بعد کثرت سے نیکیاں کی جائیں اور برائیوں سے بچا جائے اور عدمِ مقبولیت کی نشانی یہ ہے کہ انسان نیکیوں سے غافل اور برائیوں میں منہمک ہو۔
حج کی فرضیت
حج اس لیے فرض ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلاً ومن کفر فان اللہ غنی عن العالمین(اٰلِ عمران:97)
اللہ تعالی نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے۔ اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالی (اس سے بلکہ )تمام دنیا سے بے پرواہ ہے
اللہ تعالی نے قرآن میں ایک اور جگہ فرمایا:
 واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالاً و علی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق(الحج:27)
 ” اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے لوگ تیرے پاس پاپیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے۔
حج کی نیت
اگرہماری نیت حج کی یہ ہو کہ اس سے شہرت مل جائے،’حاجی ‘کا خطاب مل جائے ، مال ودولت حاصل ہوجائے ، کچھ سیاسی مقاصد حل ہو جائیں یا سیرو تفریح ہو جائے تو یہ کوئی ’اولمپک گیم‘ نہیں کہ لوگ سیاحت کی غرض سے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور میدانِ عرفات وغیرہ میں قیام کریںبلکہ اس کی نیت صرف اور صرف اپنے گناہوں کی بخشش اور اللہ تعالی کی رضا کا حصول ہونا چاہیے۔
حج کے لیے روانگی
حج کے لیے جانے سے پہلے پورے خلوص کے ساتھ اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے اوران کو آئندہ نہ کرنے کا عزم ہو،نمازیں چھوٹی ہوں تو ان کی قضا کی جانی چاہیے،اگر کسی کو دکھ دیا ہو تو اس سے معافی مانگنی چاہیے ، کسی کا حق دبایا ہو تو معافی کے ساتھ اس کو واپس کرنا چاہیے، حق دار نہ ملے تو صدقہ کرنا چاہیے ،ساتھ ہی نیت رہے کہ جب ملے گا تو واپس کر دیں گے اور جہاں تک ممکن ہو سکے نمود و نمائش سے اجتناب کرنا چاہیے۔
روایتوں میں آتا ہے کہ تیس صحابہ کرام ایسے تھے ، جن کو ہر وقت نفاق کا دھڑکا لگارہتا تھااور ہمارا حال یہ ہے کہ حج کے لیے جانے سے پہلے اور بعد میں دعوتیں دی اور کھائی جاتی ہیں،کپڑوں کا لین دین ہوتا ہے، جاتے وقت باقاعدہ سہرا باندھ کر ،گلاب یا روپئے کا ہار پہن کر نکلا جاتا ہے گویا حج کرنے نہیں،بارات میں دلہا بن کر جا رہے ہیں،مووی بنائی جاتی ہے اور آتے ہی حاجی کا دم چھلا اپنے نام کے آگے جوڑ لیا جاتا ہے(اگرچہ اعمال پہلے ہی جیسے رہیں)۔اس طرح کی تمام چیزیں نہ صرف غلط ہیں بلکہ اجر کو ضائع کرنے والی ہیں ، کیو ں کہ ان سے انسان ریاکاری ،فضول خرچی اور خودنمائی وغیرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
آدابِ سفر
دورانِ سفر اپنے ساتھیوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا چاہیے اورلڑائی، بغض وعداوت، بخل، مول تول ، جھوٹ،خیانت، غصہ اور لالچ وغیرہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ قانوناً جتنا سامان لے جانے کی اجازت ہو ،اتنا ہی لے جانا چاہیے ، اس میں دھوکہ دھڑی سے کام نہیں لینا چاہیے اور اگر تکلیف یا پریشانی ہو رہی ہے تو برداشت کرنا چاہیے، اس پر واویلا نہیں مچانا چاہیے کیوںکہ اللہ تعالی کی راہ میں نکلے ہیں۔
 وقت کا صحیحاستعمال:حج کے دوران ہمیں اس کے مقصد کو ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ عبادات اورسنن و نوافل کا اہتمام کرنا چاہیے۔بے سود وقت ضائع کرنا مناسب نہیں اور اگر اس کو حرام کاموں میں کیا جائے تو مزید گناہوں کا سبب بنتاہے جیسے فوٹو گرافی کرنا،ویڈیو بنانا،گانا سننا،نامحرم کو گھورتے رہنا،فحش باتیں کرنا،غیر ضروری خریداری کرنا،گانوں کی سی۔ڈی یا آلات خریدنا وغیرہ ۔ایسا کرنے والوں کے لیے اندیشہ ہے کہ ان کا حج ہی قبول نہ ہو۔
حج کے مطالبات
ہرعبادت انسان کی زندگی میں انقلاب لانا چاہتی ہے،جب بھی اس کو اصل روح کے ساتھ ادا کیا جائے گا تو وہ عابد سے اسی کا مطالبہ کرے گی۔حج بھی حاجی کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے اور اگر اس کے اعمال و ارکان کو پورے شعور کے ساتھ اد اکیا جائے تو یہ مشکل بھی نہیں ہے۔اس سے حاجی کی بعد کی زندگی میں انقلاب آنا لازمی ہے لیکن ہماری دوسری عبادتوں کی طرح یہ عبادت بھی شجرِ بے ثمر بنی ہوئی ہے۔اسی لیے حاجی حضرات کی زندگی میں کوئی خاص تغیر یا انقلاب رونما نہیں ہوتا ہے(الا ما شاءاللہ)
 ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ دور میں حج کرنا بھی ایک رسم بن کر رہ گیا ہے جو عمر کے آخری حصے میں کیا جاتا ہے۔ جب دنیا کے سارے کام کر چکے ہوتے ہیںیا دوسرے لفظوں میں جب دنیا کے کاموں کو کرنے کے لائق نہیں رہتے اور ’ہر جگہ‘ سے ریٹائر ہو جاتے ہیںتب حج کرنے کا خیال آتا ہے کہ چلو اب کچھ نہیں بچا ہے ،اب حج کر کے سارے گناہ معاف کرا لیا جائے۔یہ سوچ غلط ہے۔جوانی کی عبادت، بڑھاپے کی عبادت کے برابر نہیں ہو سکتی۔پھر یہ بھی کہ سارے گناہ اس امید پر جانے بوجھے کرتے جائیں کہ عمر کے آخری حصہ میں حج کر کے پاک ہو جائیں گے لیکن اگر بیچ ہی میں رخصت ہو گئے اور توبہ کا موقع نہ مل سکا تو کیا ہوگا؟؟اس لیے بہتر ہے کہ بڑھاپے کا انتظار نہ کیا جائے۔
اگر حج کے اعمال و ارکان پر نظرڈالی جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ اللہ تعالی سے عشق و محبت اور اس کے لیے مجنونانہ اداں کا مجموعہ ہیں کفن سے مشابہ لباس، بکھرے ہوئے بال، گرد و غبار سے اٹا ہو اجسم، لبیک لبیک کی پکار ، کعبہ کے اردگرد پروانوں کی طرح طواف حاجی کی اسی حالِ بے حالی کو دیکھ کر اللہ تعالی اپنے فرشتوں سے فرماتے ہیں:
میرے دیوانوں کی مستی کا عالم تو دیکھو، میرے در پہ کس شان سے آتے ہیں کہ ، نہ بالوں کے بکھرنے کی خبر ہے، نہ جسم کی گردوغبار کا ہوش“۔
اگر حج اور اس کے اعمال و ارکان پر غور کیا جائے تو واضح طور پرہمارے سامنے چندمقاصد سامنے آئیں گے۔
حج کا مقصد
حاجی کا اپنے وطن، گھر اور اہل وعیال کو چھوڑ کر اللہ کے لیے نکلنا او رپھرکفن کا سا لباس پہن کر اپنے ظاہر و باطن سے کٹ کر لبیک لبیک پکارتے ہوئے الٰہِ واحد کی مطلق عبادت کا اعلان کرنا ، یہ اس بات کااعلان ہے کہ اس نے بھی حضرت ابراہیمؑ کی طرح اپنے بارے میں قولی و عملی طور پر فیصلہ کرلیاہے کہ:
قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین(الانعام(162,163:
آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنایہ سب خالص اللہ تعالی ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے “
 ورنہ اگر وہ ساتھ ہی یا علی مدد او ریا حسین کے نعرے بھی بلند کرتا رہے اور واپسی پر قبر یا مزار پر جاکر سر بھی ٹیکتا رہے تو پھر اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اس نے حج کے مقصد کو پورا نہیں کیا۔
طواف کا مقصد
جب حاجی خانہ کعبہ کا طواف کرے گا تو اس کے سامنے یہ مقصد ہو گا کہ اس گھر والے کی محبت و اطاعت کو تمام دوسری چیزوں پر غالب آنا چاہیے اور اسی کے لیے اپنے اعمال و افکار کو ہمیشہ سرگرداں رکھنا چاہیے، کیونکہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بلا کسی دینوی مقصد ومنفعت کے اس کے دربا رمیںحاضر ہوا ہے اور ایک نہیں دو نہیں ، سات سات چکر لگا رہا ہے اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی و بخشش طلب کر رہا ہے۔
صفاومروہ کی سعی کا مقصد
اس کی حقیقت صرف اتنی سی ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت حاجرہؓ اوربیٹے حضرت اسماعیل ؑ کوبے آب و گیاہ چٹیل میدان میں اللہ تعالی کے حکم سے لا چھوڑا تھا، تو ہاجرہؓ پانی کی تلاش میںصفاومروہ کے درمیان چکر لگا رہی تھیں۔ بظاہر اس عمل کا تعلق نہ تو عشقِ خداوندی سے ہے اور نہ ہی اس سے کوئی روحانی فائدہ متوقع ہے، لیکن یہ محض اس لیے کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالی کا حکم ہے۔بندے کو اس سے مطلب نہیں کہ اس سے کیا فائدہ ہے؟ اس کو تو بس اس کے حکم کی اطاعت کرنی ہے ،خواہ اس کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
اس سعی نے ہم سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ اللہ کے دین کو رائج اور قائم کرنے کے لیے بڑا سے بڑا خطرہ مول لینے میں کبھی نہیں جھجکنا ہے، چاہے اس کے لیے بیوی بچوں سے جدائی یا بھوک پیاس براشت کرنا پڑے اور جان ومال کی قربانی دینی ہوتو بھی پس و پیش سے کام نہ لے جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے کیا تھا:
ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم۔ربنا لیقیمواالصلوٰة فاجعل افئدة من الناس تھوی الیھم وارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون(ابراہیم:(37
ائے ہمارے پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنااور انہیں کھانے کو پھل دے۔ شاید کہ یہ شکر گذار بنیں
اس کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات پر کامل یقین ہو کہ حاجات اور ضروریات کی ساری کنجیاں اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں، اس میں کوئی شریک نہیں اور نہ ہی وہ اسباب پر موقوف ہیں۔اس لیے ہم تیرے ہی سامنے ہاتھ پھیلائیں گے اور اسبابِ ظاہری میں یہ دم نہیں کہ تیری رحمت اور انعام کو روک سکے۔
 سنتِ ابراہیمی کامقصد
اس کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح سے ابراہیم ؑ ایک خواب کی بنیاد پر اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو اللہ تعالی کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے تھے، اسی طرح ہم بھی جب ضرورت ہو تو اللہ کی راہ میں اپنی جان ،مال اور اولاد کی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں۔
اس طرح غور کیا جائے تو حج کے یہ چند اعمال و ارکان اپنے اندر کچھ ایسے مقاصد لیے ہوئے ہیں کہ اگر ان کو سمجھنے اور پورا کرنے کی طرف توجہ دی جائے تو ہر سال ہماری آبادیوں میں اسلامی زندگی کے لاکھوں نمونے پیدا ہو جائیں، جن سے اسلامی انقلاب آنا ناممکن نہیں ہے۔

٭٭٭٭