Tuesday 31 December 2013

(Kya Hm Muslmano Ko Saal-e- Nao Ka Jashn Manana Chahye?) کیا ہم مسلمانوں کو سالِ نو کا جشن منانا چاہیے؟


اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی

تمام مذاہب اور قوموں میں مختلف طرح کے تیوہار اور خوشیاں منانے کے طریقے ہوا کرتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی پس منظر اور پیغام ہوتا ہے, جن سے نیکیوں کو ترغیب دی جاتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات و خرافات شامل کر دی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ چناں چہ دنیا جیسے جیسے ’مہذب‘ ہوتی گئی انسانوں نے ’کلچر اور آرٹ‘ کے نام پر نت نئے جشن اور تیوہار وضع کیے ۔ان میں سے ایک’ نئے سال کا جشن‘ بھی ہے۔
سالِ نو کے شروع ہونے میں چند دن رہ گئے ہیں ۔ لوگوں کو31 /دسمبر بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔بدقسمتی سے ہم مسلمانوں نے بھی غیروں کی نقالی میں اپنی اقدار وروایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے,جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظامِ تاریخ ہے ۔
مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظامِ تاریخ خود موجود ہے جو نبی کریمﷺ کی ہجرت سے مربوط ہے۔اس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے, جس کا ہم میں سے اکثریت کو علم ہی نہیں ہوپاتا۔ اگر کسی کو اس کی مبارک باد دی جائے تو وہ پہلے متغیّرپھر متحیّر پھر متفکّر ہو کر کہتا ہے کہ لیکن ابھی جنوری تو بہت دور ہے؟؟
سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان کیوں نئے سال کا جشن منائیں؟کیوں کہ اس رسم کو نہ تو آپﷺ نے اور نہ ہی صحابہ کرام ,خلفائے راشدین ,اموی, عباسی حکمرانوں نے انجام دیا۔ جب کہ اس وقت تک اسلام ایران عراق ,مصر, شام اور مشرقِ وسطیٰ کے اہم ممالک تک پھیل چکا تھا۔ اس لیے ہمیں غیروں کی اتباع اور ان کی مشابہت اختیار کرنے سے بچنا چاہیے ۔ حدیثِ نبوی ہے کہ :
جس نے بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے(ابوداود:4031)
عیسائیوں میں قدیم زمانے سے ہی نئے سال پر جشن منانے کی روایت چلی آرہی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں 25/دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی میں ’کرسمس ڈے‘ منایا جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہ کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔
نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائیٹوں اور قمقوں سے سجاکر 31/ دسمبر کی رات میں 12 بجنے کا انتظار کیا جاتا ہے ۔بارہ بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے ,کیک کاٹا جاتا ہے , آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹس کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتا ہے۔جس میں شراب وشباب اور ڈانس کا بھرپور انتظام رہتا ہے۔ کیوں کہ ان کے یہاں تفریح صرف دو چیزوں سے ہی ممکن ہے۔ اوّل عورت اور دوم شراب۔ان پر جتنی دولت صرف کی جاتی ہے , ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سے ایک پورے ملک کی غریبی دور کی جا سکتی ہے اور اسی طرح دوسرے بہت سارے مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔لیکن ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہی امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ کبھی ہوگا۔
یہود نصاریٰ اور دوسری قومیں مختلف طرح کے ’ڈے اور جشن‘ منایا کرتی ہیں جیسے مدر ڈے, فادر ڈے,ویلینٹائن ڈے, چلڈرن ڈے وغیرہ وغیرہ۔کیوں کہ ان کے یہاں رشتوں میں دکھاوا ہوتا ہے ۔ ماں باپ کو الگ رکھا جاتا ہے, اولاد کو بالغ ہوتے ہی گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور کوئی خاندانی نظام نہیں ہوتا ۔ اس لیے انہوں نے ان سب کے لیے الگ الگ دن متعین کر رکھا ہے مگر ہمارے یہاں تو ایسا نہیں ہے۔ اسلام نے سب کے حقوق مقرر کر دیئے ہیں اور پورا ایک خاندانی نظام موجود ہے اس لیے ہمیں ان دکھاوں کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مختلف طرح کے ڈے اور جشن منانے کی ضرورت ہے۔
البتہ نیا سال ہم مسلمانوں کو دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے:
1:ماضی کا احتساب
 نیاسال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کا موقع دیتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہو گیا اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ہمیں عبادات ,معاملات ,اعمال,حلال و حرام, حقوق اللہ اورحقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کی ویڈیو کو ریوائس کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں,کیوں کہ انسان دوسروں کی نظر سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تو چھپا سکتا ہے, لیکن خود کی نظر سے نہیں بچ سکتا۔اسی لیے آپﷺ نے فرمایا:
تم خود اپنا محاسبہ کرو،قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے(کنزل العمال:4403)
ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن لوگوں کے قدم اس وقت تک آگے نہ بڑھ سکیں گے جب تک کہ وہ ان پانچ سوالوں کے جواب نہ دے دیں۔اپنی عمر کس کام میں بسر کی؟اپنی جوانی کس کام میں صرف کی؟مال کس ذریعہ سے کمایا؟مال کو کس راہ میں خرچ کیا؟اور جو کچھ سیکھا اس پر کتنا عمل کیا؟(الترمذی:2416)
اس لیے ہم سب کو ایمانداری سے اپنا اپنا مواخذہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔قبل اس کے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے ۔اسی کو قرآن نے اپنے مخصوص انداز میں کہا:
"اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے(ہماری راہ میں ) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار! مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا؟کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہو جاوں؟ اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھراسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بخوبی باخبر ہے" (المنٰفقون:10,11)
2:آگے کا لا ئحہ عمل
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کی روشنی میں ہمیں منصوبہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح سے دور کیا جا ئے ؟دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟
انسان خطا کا پتلا ہے , اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی لیکن کسی غلطی کا مرتکب ہونا زیادہ بری بات نہیں ہے۔بری بات یہ ہے کہ اس سے سبق نہ حاصل کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے اوریہ منصوبہ بندی دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں ہوں۔جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:
پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کا فائدہ اٹھا لو : تمہارے بڑھاپے سے پہلے تمہاری جوانی (کا فائدہ اٹھا لو) ,اورتمہاری بیماری سے پہلے تمہاری صحت(کا فائدہ اٹھا لو),اورتمہاری غربت سے پہلے تمہاری مالداری(کا فائدہ اٹھا لو),اورتمہاری مشغولیت سے پہلے تمہاری فراغت(کا فائدہ اٹھا لو) ,اورتمہاری موت سے پہلے تمہاری زندگی(کا فائدہ اٹھا لو)(المستدرک الحاکم7846:)۔
اور یہ بھی طے ہے کہ اس دنیا کے اعمال ہی پر ہماری کام یابی اور ناکامی مشروط ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔اور یہ کہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی ۔پھر اسے پوراپورا بدلہ دیا جائے گا(النجم:39،40،41)
آخری بات
 ہم مسلمانوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم آنکھیں بند کر کے مغرب کے ہر عمل کے صرف ظاہری چیزوں کی نقّالی کرنے لگتے ہیں۔وہ لوگ نئے سال کے موقع پر جہاں ایک طرف جشن مناتے اور مستی کرتے ہیں ,وہیں دوسری طرف ماضی کی غلطیوں کا محاسبہ بھی کرتے ہیں اور ان کی اصلاح کے لیے منصوبے بنا کر اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ان کے منصوبے کیسے ہوتے ہیں اور اسلام کے مطابق ہوتے ہیں یا نہیں؟
جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔امریکہ نے اس پر ایٹم بم گرا کر اور اقتصادی پابندیاں لگا کر اس کی کمر توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن اس زندہ دل قوم نے انتھک محنت کر کے خود کو دوبارہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لا کھڑاکیا۔اسی طرح دوسری جنگِ عظیم کے بعد جرمن قوم نے کیا۔ان لوگوں نے ہماری طرح صرف جشن منا منا کر نہ تو ماضی کو رخصت کیا اور نہ ہی صرف جشن منا کر سالِ نو کو خوش آمدید کہا۔ 
ہمارا زوال کو سقوط بغداد(1258)سے شروع ہوتا ہے اس میں لگاتار گراوٹ ہی آتی جاتی ہے ,یہاں تک کہ 1924ءمیں( خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے سے) مکمل طور سے خاتمہ ہو جاتا ہے اور ایسا کہ آج تک دوبارہ اٹھ نہیں سکے ۔
ہم لوگوںکی کمی یہ ہے کہ ہم ان کے صرف غلط کاموں کو ےا تو اختیار کرتے ہیں یا صرف تنقید کرتے ہیں اور ان کی اچھائی, ایمانداری اور محنت کو آنکھ بند کر کے نظر انداز کر دیتے ہیں۔جب کہ کرنا یہ چاہیے کہ ان کی ترقی کے رازوں کو قرآن و حدیث اور شریعت کے پیمانے پر درست کر کے اختیار کر لیں۔جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔پھر جو بہترین بات ہواس کی اتباع کرتے ہیں۔یہی ہیں جنہیںاللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں۔(الزمر:18)
اسی سے ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں کام یابی ملے گی۔(انشاءاللہ)
٭٭٭٭
  


Sunday 22 December 2013

(Khutba-e-Juma: Zuban Aor Maqsad) خطبہ جمعہ : زبان اور مقصد



اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی

اسلامی تقویم میں ہفتے کا ساتواں اور آخری دن جمعہ ہے۔جمعہ کی نماز سے پہلے خطبہ دیا جاتا ہے جس کی بہت اہمیت ہے ۔عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ خطبہ نماز کا حصہ ہے۔اس لیے بعض جگہوں پر عربی زبان میں خطبہ دینا ہی لازمی سمجھا جاتا ہے۔دلیل کے طور پر حضرت عائشہؓ سے مروی یہ حدیث لیتے ہیں انما قصرت الجمعة لاجل الخطبة۔
            خطبہ کی وجہ سے ہی جمعہ کی دو رکعت نماز ہے،اور یہ دو رکعت کا قائم مقام ہے۔ اس لیے اس کی حیثیت بھی نماز جیسی ہوئی تو جس طرح سے نماز غیر عربی زبان میں نہیں پڑھ سکتے ویسے ہی خطبہ بھی عربی زبان کے علاوہ دوسری زبان میں نہیں دے سکتے۔لیکن یہ دلیل بے بنیاد ہے کیوں کہ خطبہ نماز کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے نماز جیسی شرائط ہیں۔اس لیے خطبہ عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی دیا جا سکتا ہے ۔
نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں خطبہِ جمعہ کے ذریعہ خوفِ خدا کی تلقین، شریعت کے احکام، اخلاق ، اعمال ، قومی ، ملی اور انفرادی معاملات یعنی زندگی کے تمام شعبوں میں لوگوں کی رہنمائی کی جاتی تھی۔ اس وقت کے جمعہ اور خطبہ کایہ مقصد تھا کہ کم از کم ایک دن مسلمان ایک جگہ جمع ہو ں اور اجتماعیت کا احساس ہو،ایک دوسرے سے تعارف ہو،ایک دوسرے کے مسائل کو جانیں اور دکھ درد میں شریک ہوں،نوجوانوں اور بچوں کے مسائل پر گفتگو ہو،بندوں کے آپسی حقوق ،اخلاق اور ایک دوسرے سے معاملات کرنے میں اسلام نے کیا احکام دیئے ہیں ؟ان کو واضح کیا جائے۔
آج کی طرح کوئی رسم نہیں تھی کہ آئے ،بیٹھے،سنے اور چل دیئے۔اس لیے خطبوں سے وہ مقصد اب حاصل نہیں ہوپارہا ہے جیسا کہ اس کا حق ہے ۔جب کہ جمعہ کا خطبہ عوام تک اپنی بات پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
آج کے دو رمیں ایک معمولی سا جلسہ کرنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے ،اس کا اندازہ ہم سب کو ہے۔لوگوں میں اعلان کرانا، جگہ کا انتظام ،لاڈ اسپیکر،اسٹیج ،کرسیوں اور شامیانوں کا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن جمعہ کے خطبہ کے ذریعہ یہ کام بغیر کسی پریشانی اور خرچ کے کیا جاتا ہے۔اس کی اہمیت اور افادیت کو ہی دیکھتے ہوئے امریکہ کے ریسنٹ کارپوریشن تھنک ٹینک نے جو مسلمانوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے  ۔
اس میں دوسرے نمبر پر ان ”روایتی علماءکرام“ کو رکھا ہے جو اپنی مسجدوں میں قال اللہ و قال الرسول کرتے رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اپنے آپ میں تو خطرہ نہیں ہیں لیکن اگر یہ (پہلے نمبرپر) ”فنڈامنٹلسٹ“ سے مل گئے تو بہت خطرناک ثابت ہوں گے۔ کیوں کہ ان کے پاس مسجد کی شکل میں ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاںسے وہ خطبے کے ذریعہ ہر ہفتے عوام تک اپنی بات بغیر کسی خرچ اور پریشانی کے پہنچا سکتے ہیں۔اس لیے ان لوگوں نے یہ پالیسی بنائی کہ مساجد اور مدرسوں کو ٹارگٹ بنایا جائے اور علماءکرام کے درمیان مذہبی و مسلکی اختلافات کو خوب بڑھاوا دیا جائے اور ایک دوسرے سے دور رکھا جائے تاکہ یہ لوگ عوام الناس میں اسلام کی صحیح اسپرٹ اور روح کو نہ بیدار کر سکیں۔دیکھا جائے تو یہ لوگ اپنے مقصد میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔
آج مسجدیں مذہبی اور مسلکی اعتبار سے بٹ چکی ہیں ،ہر فرقہ ایک دوسرے کی پوری شدت سے مخالفت کرتا ہے اور اسی پر دھواں دار خطبہ دیا جاتا ہے۔یہ ان لوگوں کا عمل ہے جو قرآن وحدیث پر گہرا علم رکھتے ہیں۔اس سے جمعہ کے خطبے کا اصل مقصد تو فوت ہوگیا اور صرف مسلکی لحاظ سے لوگوں کی ذہن سازی ہونے لگی،جس سے عام لوگوں میں بھی بحث و مباحثہ، الزام تراشیوں کاسلسلہ شروع ہوگیا۔
المیہ یہ ہے کہ ہماری قوم میں افراط و تفریط ہی پائی جاتی ہے اوراعتدال کس چڑیا کا نام ہے ،اس سے ہمیں واقفیت نہیں۔بعض جگہوں پر خاص کر گاں دیہات میں خطبہ صرف عربی زبان میں کتاب سے دیکھ کر پڑھ دیا جاتا ہے لیکن اس سے خطبے کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا۔اس لیے کہ لوگوں کی اکثریت عربی زبان سے ناواقف ہے۔
 جہاں اردو زبان میں خطبہ ہوتا ہے وہاں علماءکرام یا خطیب کا موضوع گھوم پھر کر نماز، زکوة، روزہ اور حج وغیرہ ہوا کرتا ہے۔ کیا اسلام صرف یہیں تک محدود ہے؟بلاشبہ ان کی بہت اہمیت ہے لیکن صرف انہیں کو موضوع بنائے رکھنا آخر کہاں کی عقلمندی ہے؟کیا ”حقوق العباد، اخلاق، صفائی و پاکیزگی اور لوگوں سے معاملات“ ہمارے اتنے درست ہیں کہ ان کو خطبے کا موضوع بنانے کی ضرورت نہیں ہے؟؟
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ نوجوان لڑکے لڑکیوں اور بچوں کے اخلاق کا ہے ۔کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل نے ان کی اخلاقی، ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور یہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔اس کا ہمیں آج اندازہ اس لیے نہیں ہو پا رہا ہے کہ ہمارے درمیان بزرگ ابھی موجود ہیں لیکن آنے والے وقت میں جب ان کا خاتمہ ہو جائے گا اور نئی نسل آئے گی تو وہ کیا کرے گی،اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام اور خطیب حضرات کو جدید دور کی ٹکنالوجی اور اس کے اثرات کا علم ہی نہیں ہے (الا ما شاءاللہ)
دوسری خاص بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں کے خطبوں کا معیاراتنا بلند اور علمی ہوتا ہے کہ وہ عام لوگوں کے سر پر سے گذر جاتا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کلاس میں علمی و تحقیقی بحثہو رہی ہو ۔اردو اور عربی کے بھاری بھرکم الفاظوں کا استعمال،اختلافی مسائل کی بحث،خشک اور بے موقع گھسے پٹے موضوعات ۔یہ تو چاول کے چند نمونے ہیں ورنہ عموماً سب کا زور اپنی علمی و تحقیقی صلاحیت کا اظہار کرنے میں ہوتا ہے۔یہ ایسا ہی ہے کہ ایک عالمِ دین اپنے جیسے دوسرے عالم کو دین اور اسلام کی باتیں سمجھائے۔
سوال یہ ہے کہ اگر مقصود اپنی علمی قابلیت کا اظہار کرنا ہے یا اپنے ہی جیسے لوگوں کو سمجھانا ہے تو عام لوگ کہاں جائیں گے؟کیوں کہ جمعہ میں علمائے کرام اور فارغینِ مدارس کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوا کرتی ہے، جنہوں نے مدرسوں سے تعلیم حاصل نہیں کی ہے تو ان کے لیے ان بلند اور علمی معیار کے خطبوں کا سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ یا تو سوتے ہیں یا باتوں اور موبائل سے چیٹنگ میں مصروف ہوتے ہیں اور پھر وہ دین کے احکام و شریعت اورمسئلے مسائل کو جان نہیں پاتے۔
تیسری اہم بات یہ کہ خطبوں میں شاذونادر ہی کوئی سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں اور خرابیوں کی طرف باقاعدہ اشارہ کرتے ہوئے قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی کرتا ہو،جیسا کہ اسوہ نبوی تھا۔آپ ﷺ فرماتے تھے کہ لوگوں کی کیا ہوگیا ہے کہ ایسا ایسا کرنے لگے ہیں؟ اس کے بعد اس میں قرآن و حدیث کی روشنی سے رہنمائی کرتے تھے۔اس طریقے سے عوام کو زیادہ آسانی سے سمجھ میں آتا ہے۔لیکن یہ تب ہوگا جب امامت کے منصب پر حقیقی اور با اثر لوگ فائز ہوں،جس کااب فقدان ہے ۔
بقول مولانا مودودیؒ اب لوگوں میں امامت کا تصور یہ ہے کہ جو شخص دنیا کے کسی اور کام کا نہ ہو،اس کو مسجد کا امام بن جانا چاہیے۔اس کا نتیجہ ہے کہ ایسے لوگ امام بن گئے ہیں جو ”مصلحت، دور اندیشی ، احتیاط“ کے تحت یا متولیانِ مسجد،کمیٹی اور محلے کے لوگوں کی” ناراضگی کے خوف“کی وجہ سے صرف رٹے رٹائے انداز میں قرآن وحدیث کو بیان کرکے تھوڑی بہت تشریح کر دیتے ہیں ۔بقیہ ان کا موجودہ دور میں پھیلی ہوئی برائیوں سے کیا تعلق ہے ،اس کی وضاحت نہیں کرتے۔کیا عام لوگ بھی قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط اپنے سے کر لیں گے؟
مسئلہ یہ بھی ہے کہ متولیانِ مسجد یا کمیٹی کے حضرات ایسے ہی لوگوں کو مسجدوں میں ا مام رکھتے ہیں جن کو معمولی تنخواہ دینا پڑے، لیکن وہ بہترین قاری ہو، مسئلے مسائل پرمکمل عبور رکھتا ہو، محنتی ہو،ایماندار ہو،ساتھ ہی سادگی پسند ہو، بہت ہی معمولی اس کی ضروریات اورخواہشات ہوںاور سب سے بڑھ کر ان کی ہاں میں ہاں ملانے والا ہو۔
ظاہر ہے اس پیمانے پر کس طرح کے لوگ پورا اتر سکتے ہیں ،اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اسی طرح کے اماموں کو دیکھ کر علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا!
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت  کیا ہے
اس کو کیا جانیں بے چارے دو رکعت کے امام
ضرورت اس بات کی ہے کہ امامت کے منصب پر ایسے لوگ آئیں جو خطبوں میں مختلف موضوعات کا احاطہ کریں اور ساتھ ہی ساتھ جدید دور میں پیش آنے والے مسائل اور برائیوں کی وضاحت کرتے ہوئے ، اس میں قرآن و حدیث کے مطابق رہنمائی کریں اور یہ کہ اندازِ بیاں اسلوب عام و خواص کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اختیار کریں تاکہ ہر طرح کے لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔
آخری بات یہ کہ خطبہ دیتے وقت آواز مناسب رکھنی چاہیے۔اکثر دیکھا جاتا ہے کہ خطیب حضرات جوش میں آستین چڑھائے ،منہ سے کف اڑاتے ہوئے اور چیختے دھاڑتے خطبہ دیتے ہیں،خصوصاً جب بات دوسرے مسلک یا فرقے کی ہو۔سمجھ میں نہیں آتا مسجد میں بیٹھے لوگوں کا سنانا مقصود ہے یا ایک دو کلومیٹر میں موجود ہر ذی روح کو؟قرآن نے اسی طرح کی آوازوں کو گدھے کی آواز کے مشابہ قرار دیا ہے۔ارشاد ہے :
واقصد مشیک و اغضض من صوتک ان انکر الاصوات لصوت الحمیر(لقمان:19)
اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر، اور اپنی آواز پست کر یقینا آوازوں میں سب سے بد ترآواز گدھوں کی آواز ہے
  اس لیے خطیب کو چاہیے کہ مناسب آواز کا استعمال کرے اور چیخنے چنگھاڑنے کے بجائے مواد پر توجہ دے۔اس سے سامعین زیادہ مستفید ہو سکیں گے۔



(Jahez Muashre Me Tezi Se Panapta Ek Naasur) جہیز - معاشرے میں تیزی سے پنپتا ایک ناسور


اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی
  

جہیز ہندو تہذیب کی ایک تباہ کن رسم ہے جسے وردشنہ کہا جاتا ہے ، جس میں لڑکی والے لڑکے والے کو رقم دیتے ہیں ۔اس کا آغاز ویدک دور سے ہی ہوگیا تھا۔ پاروتی کے والد نے شیو جی کو جہیز میں غلام، لونڈیوں، گھوڑیوں،ہاتھیوں، رتھ، کپڑوں اور ہیرے جواہرات کے علاوہ دوسری بہت سی چیزیں بیل گاڑیوں میں بھر کے دیا تھااوریہ وراثت کے متبادل کے طور پر تھا، کیونکہ ان کے یہاں لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا تو اس کے ذریعہ اس کمی کو پورا کر دیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے مسلمانوں نے بھی اس رسم کو اپنا لیاہے۔ جب کہ اسلام میں لڑکیوں کے لیے وراثت میں حصہ طے ہے، لہٰذا جہیز کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی کی گئی۔اب یہ تو ذہنی خرابی ہی کہلائے گی کہ باپ بڑھ چڑھ کر بیٹی کو جہیز دیتا ہے اور بھائی اپنا فرض ادا کرنے کے لیے حیثیت سے بڑھ کر اس کاانتظام کرتا ہے لیکن وہی باپ اس کی فکر نہیں کرتا کہ میرے بعد ترکہ میں سے بیٹی کو بھی حصہ دیا جائے اور نہ ہی بھائی وراثت میں سے بہن کو حصہ دینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
شریعت نے جس چیز کو فرض کیا ہے ،اس کو ترک کر دیاگیا اور جس کا کوئی حکم نہیں دیا ہے ، اس کو تمام فرائض میں سے سب سے بڑا فرض سمجھاجاتا ہے۔صرف اس وجہ سے کہ ترکے میں حصہ نہ دینا پڑے اور شادی ہی میں کچھ دے دلا کر رخصت کردیاجائے ۔لیکن یاد رہے کہ لڑکی جس طرح اپنی شادی سے پہلے گھر والوں کے لیے بیٹی اور بہن تھی ،اسی طرح شادی کے بعد بھی رہے گی بلکہ یہ تو زندگی بھر کا معاملہ ہے ۔اس لیے جس طرح شادی سے پہلے اس کا خیال رکھا جاتا تھا ویسے ہی حسب ِ استطاعت شادی بعد بھی رکھنا ہوگا۔
موجودہ دور میں جو چیزیں لڑکیوں کی شادی کے معاملے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ،ان میں سرِ فہرست جہیز کی رسم ہے۔اس نے نہ جانے کتنی لڑکیوں اور ان کے والدین کو نگل لیا ، کتنی ہی گھر بیٹھی زندگی گذار رہی ہیں،کتنی ہی غلط راہوں پر چل نکلیں،کتنوں نے صرف اس وجہ سے پیار و محبت کی پیش کش کو قبول کر لیا کہ اسی بہانے بغیر جہیز دیئے شاد ی ہو جائے گی اور نہ جانے کتنی لڑکیاں اس کی وجہ سے ہسٹریاکی مریض بن گئیں۔
یہ صحیح ہے کہ لڑکے کے گھر والے ہی جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں مگر لڑکی کے گھر والے بھی انا و عزت  کا مسئلہ بنا کر بارات کا تقاضا کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔اگر کبھی کسی لڑکے نے دینی جذبے سے جہیز لینے سے انکار کر دیا تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ضرور اس میں کوئی کمی ہے ،اسی وجہ سے اتنی دینداری دکھا رہا ہے۔
نیشنل کرائم برانچ کی رپورٹ کے مطابق 2012میں جہیز کی وجہ سے کل8233 عورتوں کو مار ڈالا گیا۔ اس میں اترپردیش 2244کےساتھ سرِ فہرست رہااور جنوری 2001سے دسمبر2012 تک ہندوستان میں 3,12000 عورتیں اس کی وجہ سے جان سے مار دی گئیں۔ جن میں سے صرف84013 کیس درج کئے گئے ،بقیہ تفتیش سے پہلے یا بعد میں واپس لے لیے گئے اوراس وقت جہیز کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان تنازع کے84000 مقدمات زیرِ سماعت ہیں ۔یوپی میں ہر سال2000 ، بہار میں1000 اور دہلی میں1582 عورتیں جہیز کی وجہ سے مار ڈالی جاتی ہیں۔تازہ سروے بتاتا ہے کہ ہندوستان میں ہر ایک گھنٹے میں ایک عورت جہیز کا شکار ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جن پر ایف آئی آر لکھوائی گئی ہے۔ورنہ نہ جانے کتنے گاں ،دیہات اور شہر میں ایسے کیسز ہوئے ہوں گے، جو پولس تک نہیں آنے دیئے گئے ہوں گے ۔ بہت سے کیسوں میں توعورتیں خود ہی والدین کی بدنامی یا کورٹ کچہری اور سسرال والو ں کے دبا میں پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔
 ان اعداد و شمار سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال کیا ہے۔ آج کسی کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اس کا منہ بن جاتا ہے اور اس کی ساری خوشی کافور ہو جاتی ہے۔یہ اس لیے نہیں ہوتی کہ اس کو اپنی بیٹی سے محبت نہیں یا جاہلی دور کے عربوں کی طرح اسے انا اور خودداری کی وجہ سے کسی کا داماد کہلانا پسند نہیں یا اس نے یہ حدیث نہیں سنی کہ جس نے دو بیٹیوں کی اچھی پرورش کی تو وہ اس کے لیے جہنم سے ڈھال بن جائیں گی یا یہ کہ وہ ان کی پرورش ہی نہیں کر سکتا بلکہ وہ صرف اس بات سے دکھی ہوجاتا ہے کہ اس کی شادی کے لیے لڑکے کی جو بولی لگے گی تو میں اتنی دولت کہاں سے لاں گا ؟؟اسی لیے اگر لڑکا پیدا ہوتا ہے تو والدین سوچتے ہیں کہ چلو اب تو 20 یا 30 لاکھ محفوظ ہوگئے ۔
موجودہ دور میں انسانی تجارت کی ایک شکل ایسی بھی ہے جو سماج کے مہذب لوگوں میں رائج ہے ۔ جس میں انسان اپنے بیٹوں کو فروخت کرتا ہے اور اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسوں کے بجائے خوشی ہوتی ہے۔یہ ایک ایسی عجیب وغریب منڈی ہے جہاں اہلِ دانش،اصحابِ ثروت اور اعلیٰ ترین عہدوں پرفائز لوگ اپنے اپنے لڑکوں کا سودا لے کر آتے ہیں اور ان کی تعلیم، شکل و صورت، مستقبل کے سنہرے امکانات وغیرہ کے ذریعہ بولی لگاتے ہیں پھر قیمت مختلف شکلوں میں جیسے کیش، قیمتی سامانوں، گاڑیوں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کھانا کھانے کی شکل میں وصول کرتے ہیں۔
اگر کوئی اپنی قیمت لڑکی کے گھر والوں سے وصول کرتا ہے تو اس سے زیادہ ذلیل حرکت ہو سکتی ہے؟قیمت تو جانوروں کی لگائی جاتی ہے، مردوں کی نہیں۔ قرآن کریم نے مردوں کا درجہ اس وجہ سے بلند رکھا ہے کہ وہ خرچ کرتے ہیں:
بما فضل اللہ بعضھم علی بعض و بما انفقوا من اموالھم(النساء:187)
کیوں کہ اللہ تعالی نے خود ہی ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے علاوہ ازیں مردوں نے عورتوں پر اپنے مال خرچ کیے ہیں
اورایک حدیث میں نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:
 الید العلیا خیر من الید السفلیٰ(بخاری:1427)
اونچا ہاتھ(دینے والا ہاتھ) نچلے (لینے والے ہاتھ)سے بہتر ہے
 لیکن اگر شوہر بیوی کے گھر والوں سے الٹا لے تو وہ کیسے بیوی سے بلند رتبہ اور عزت والا ہو سکتا ہے؟اسی کا نتیجہ ہے کہ آج تقریباً سبھی اپنی بیوی یا بہو سے نالاں ہیں کہ وہ ان کی عزت نہیں کرتی ، محبت نہیں کرتی یا نافرمانی کرتی ہے۔پھر اس کو راہِ راست پر لانے کے لیے تعویذاور دعا کا سہارا لیا جاتا ہے۔مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ جب آپ بولی میں بک چکے اور آپ کے والدین نے آپ کو بیچ دیا ، بیوی اور اس کے گھر والوں نے آپ کو خرید لیا تو اب وہ آپ کی بات بھلا کیوں اور کس لیے مانے گی؟اور آپ کی مرضی و خواہش کے مطابق کیوں رہے گی؟
دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ نے بیوی کے والدین کی پرواہ نہ کی ، ان کی حیثیت سے بڑھ کر جہیز مانگا، جس کی وجہ سے وہ قرض دار ہو گئے اور تکلیفیں اٹھا رہے ہیں تو اب آپ اس سے یہ کیوں امید رکھ رہے ہیں کہ وہ آپ اور آپ کے والدین کا احترام کرے گی اور خوش رکھے گی؟یہ تو ناممکن ہے۔ایسا تو تب ہوگاجب آپ اس کو اور اس کے والدین کو جہیز یا دوسرے مطالبات کے ذریعہ تکلیف نہ دیتے تو وہ بھی آپ کے والدین کواپنا سمجھتی ،بیٹی بن کر رہتی اور خدمت کرتی ۔
سب سے زیادہ افسوس لڑکے کے والدین اوران کے دوسرے قریبی اعزہ و اقارب پر ہوتا ہے کہ یہی لوگ سارے مطالبات پیش کرتے ہیں جب کہ بہو جو سامان لاتی ہے ،اس سے ان لوگوں کی کم ہی نفع پہنچتا ہے (اعزہ و اقارب کو تو وہ بھی نہیں )لیکن لالچ میں ماں باپ بڑھاپے میں بھی،جو توبہ استغفار کا وقت ہوتا ہے ، دوزخ کی آگ اور اللہ تعالی کی لعنت کو بصدِ شوق خرید لیتے ہیں۔
بعض دین دار لوگ جہیز لینے میں بھی حیلے بہانے نکال لیتے ہیں ۔ یہ وہ طبقہ ہے جو دین پر گہرا علم رکھتاہے۔ایسے لوگ نکاح کی تقریب مسجدوںاور دینی مجلسوں میں رکھتے ہیں اور بڑے بڑے علمائے کرام سے نکاح پڑھواتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ جہیز کے سخت مخالف ہیں اور سادگی کا مکمل نمونہ پیش کر رہے ہیں مگر اندر ہی اندر لین دین طے کر لیا جاتا ہے اور شادی سے کافی پہلے یا بعد میں جہیز گھر میں آجاتا ہے ۔یاد رہے کہ ایسا کر کے یہ لوگ دو گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ایک جہیز لینے سے اور دوسرے نفاق اور گناہ پر ظاہری نیکی کی چادر اڑھانے سے ، یقیناً جو کھلی ہوئی بے دینی سے بھی زیادہ مذموم اور ناپسندیدہ ہے بلکہ اس کاشمار توریاکاری میں ہوگاجو شرک کی ایک قسم ہے۔جہیز مانگنا چاہے صراحتاً ہو یا اشارةً، براہِ راست ہو یا بالواسطہ حرام ہے۔فقہاءنے ایک اصول مقرر کیا ہے کہ:
 “جو چیز بطورِ شرط نہ پیش کی جائے ، لیکن عرف ورواج کے تحت لی جائے تو وہ بھی شرط لگانے کے ہی درجہ میں ہوگا“ ۔
اگر مسنون طریقے سے آپ لڑکی کو بہو بنا کر لائیں گے تو وہ اور اس کے گھر والے بھی احسان مند ہوں گے۔لڑکی سسرال والوں کو اپنا محسن تصور کرے گی۔وہ یہ سمجھے گی کہ اپنے ہی دوسرے گھر میں آئی ہے لیکن اگر آپ جہیز کے لیے اسے اور اس کے گھر والوں کو تکلیف دے کر لاتے ہیں، تو اس میں نفرت اور خودغرضی کے جذبات رہیں گے۔یہ تو فطری بات ہے ۔جیسے اگر آپ کوکوئی دس روپئے کا معمولی قلم ہی تحفہ میں دے تو آپ کے اندر اس کے لیے محبت کا جذبہ پیدا ہوگا لیکن اگر آپ وہی قلم اپنے پیسے سے خریدیں گے تو آپ دوکاندار کے شکرگذار نہیں ہوں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں میں جہیز اور دوسری رسومات کے خلاف مہم چلائی جائے۔باقاعدہ ہر گاں میں اس کے لیے کمیٹیاں قائم ہوں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔جب مسلمانوں کی بے سر پیر سیاسی پارٹیاں ہر گلی کوچے میں بن سکتی ہیں تو کیا یہ کام نہیں ہو سکتا؟ ؟اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے سامنے قولی نہیں ، عملی نمونہ پیش کیا جائے۔عموماًلوگ بیٹیوں کے معاملے میں تو شریعت یاد رکھتے ہیں لیکن جب بیٹوں کی شادی کرتے ہیں تو اس کو پشِ پشت ڈال دیتے ہیں۔
جہیزکی مخالفت میں دو طبقے اہم کردار ادا کریں گے:
پہلا طبقہ علماءکرام کا ہے کہ وہ ایسی تقریبات میں نکاح نہ پڑھائیں اورنہ ہی ایسی تقریبات میں شرکت کریں جہاں غیر شرعی رسومات ہو رہی ہوں اور خود بھی اس کا عملی نمونہ پیش کریں ۔ دوسرا طبقہ ان صاحبِ مال کا ہے جو فضول خرچی اور اسراف پر قادر ہوں لیکن وہ سادگی کا نمونہ پیش کریں تاکہ عام لوگوں کو بھی اس کا حوصلہ ملے اور عمل کرنا آسان ہو۔
 ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ لڑکی کی شادی کرتے وقت یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ ڈولی میں گئی ہے تو اب اس کا جنازہ ہی وہاں سے نکلے گا ۔بڑے بوڑھے یہی سکھا کر بھیجتے ہیں ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ%70 عورتیں جلا دی جاتی ہیں تو بھی وہ اپنے شوہر کو بچانے میں لگی رہتی ہیں۔والدین کو چاہیے کہ اس سوچ کو بدلیں اور بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں کہ ضرورت پڑنے پر وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں۔یہ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ زندگی بھر جانتے بوجھتے سسرال میں ظلم و ستم سہتی رہیں۔ 
*****