Tuesday 25 March 2014

(Ego Ek Buri Aadat)انا (Ego)ایک بری عادت




                                                 اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی

اگر ہم معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو مشکل ہی سے کوئی ایسا انسان ملے گا جس کے اندر انا(Ego) نہ ہو۔مگر ہر ایک اپنے بارے میں حسنِ ظن رکھتا ہے کہ میں تو اس برائی سے قطعا پاک ہوں اور بقیہ تمام لوگوں میں یہ موجود ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کے اندر نیکی اور بدی دونوں کے رجحانات و میلانات رکھ دیئے ہیںاور دونوں راستوں کا انجام بھی اس پر واضح کر دیئے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم کہتا ہے:
الم نجعل لہ عینین۔و لسانہ و شفتین۔و ھدینٰہ النجدین(الشمس:8-10)
کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟اور (نیکی اور بدی کے)دونوں نمایاں راستے اسے (نہیں)دکھا دیے؟
جب کوئی انسان برا عمل کرتا ہے تو اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے لیکن وہ انسان ہی کیا جو اس کی آواز پر کان دھر لے، تو وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے مختلف طرح کے جواز کا پہلو تلاش کرتا ہے اور جب اس میں بھی ناکامی ملتی ہے تو وہ اس کی طرف سے غافل ہو جاتا ہے ۔ ایسے انسانوں کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
ان شر الدوآب عند اللہ الصم البکم الذی لا یعقلون(الانفال:22)
یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔
ایسے لوگ رہتے تو عام انسانوں ہی کی طرح ہیں مگر جذباتی، ذہنی اور روحانی طور پر کمزور ہوتے ہیںاور ان کے اندر عزتِ نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے ۔ لیکن چونکہ خود کو ہر حال میں صحیح ثابت کرنا انسانی عادت ہے اس لئے یہ لوگ برائی پر ضمیر کی تسلی کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا کرتے ہیں جس کو دوسرے لفظوں میں’ جھوٹی انا‘ (Ego)کہا جاسکتا ہے۔
انا کے ذریعہ انسان اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور مختلف بودے ، کمزور اور بے سر پیر مگر خوش نما دلائل کے ذریعہ اس پر قائم رہنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ انا کے نقصانات کا اثر انسانی زندگی کے ہر پہلو میں ہوتا ہے۔اس کی مختلف شکلیں ہیں ۔اگر ہمیں احساس ہو جائے کہ کن عادات کا شمار انا میں کیا جاتا ہے تو لازمی طور سے ہم اس سے اجتناب کریں گے۔
انا کی سب سے اہم شکل ’غصہ‘ ہے جو ہماری قوم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔گھر ،محلے،بازاراور حتی کہ شادیوں میں خوشی کے موقع پر بھی لوگ آپس میں لڑتے ہیں ۔اس میں خواص و عام سب شامل ہیں جو ذرا ذرا سی بات پر ناک بھوں چڑھائے ، غصہ میں فوں فوں کرتے ہوئے ،منہ سے کف اڑاتے ہوئے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ بسا اوقات اس طرح کا نظارہ دینی جلسہ و جلوس یا ملی اور مسلکی اجتماع میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ان تمام کے پیچھے صرف ’انا‘ ہوا کرتی ہے۔جس سے اسلام نے خصوصی طور سے منع کیا ہے۔ اس کام کو انجام دینے میں ایک بڑا طبقہ ان لوگوں کا ہے جنھوں نے دولت کی وجہ سے رہن سہن تعلیم یافتہ لوگوں جیسا تو بنا لیا مگر حرام کھانے نے ان کی خودداری اور عزتِ نفس کا خاتمہ کردیا۔اس کمی کو چھپانے کے لئے یہ لوگ دولت اور طاقت کا سہارا لیتے ہیں۔
انا کی ایک شکل ’معافی نہ مانگنا‘ ہے ۔ اس کو لوگ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔اگر کسی سے ٹکر ہو گئی تو معذرت کر کے معاملہ ختم کیا جا سکتا ہے مگر عموما جس کی غلطی ہوتی ہے وہی سامنے والے پر چڑھ دوڑتا ہے اور چیخنا چلانا شروع کر دیتا ہے ۔ اس کی مثالیں راستہ چلتے ، بسوں یا ٹرینوں وغیرہ میں آسانی سے مل جائیں گی۔لوگوں میں معاف نہ کرنے کی عادت عام ہے ۔ ہم اللہ تعالی سے تو پوری امید کرتے ہیں کہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے مگر ہم کسی کو معاف نہیں کرنا چاہتے۔حضرت محمدﷺ پر ایک یہودی عورت روز کوڑا کرکٹ اور غلاظت ڈال دیا کرتی تھی۔ ایک دن اس نے نہیں ڈالا تو آپﷺ اس کی خیریت پوچھنے گئے۔ یہ رہتی دنیا تک لوگوں کے لئے معافی اور بہترین اخلاق کی روشن مثال ہے۔
انا کی ایک شکل’جھوٹی شان‘ ہے جس کے نمایاں اثرات روزگار پر نظر آتے ہیں۔نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ خلیج ممالک میں برتن دھونے، جھاڑو لگانے ،ٹیکسی چلانے اور مزدوری کرنے کو تیار ہے مگر اسی طرح کے کاموں کو یہاں انجام دینے میں شرم محسوس کرتا ہے ۔ اس لئے کہ باہر جا کر جو بھی کریں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے ۔ جب کہ اسلام نے حلال روزی کمانے کی ہدایت دی ہے خواہ کسی بھی پیشے میں کام کیا جائے۔مگر ہماری قوم میں رواج ہے کہ مانگ کے کھا یالوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھرو مگر اپنی ’شان ‘سے کم تر پیشہ نہ اختیار کرو۔ اسی وجہ سے مسلمانوں میں بھکاریوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ سکھ قوم میں آپ کو شاید ہی کوئی بھکاری نظر آئے۔
مردوں میں انا کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہوتے ہیں کہ ہمارے رعب سے نکل جائیںگی اور برابری کا دعوی کرنے لگیں گی۔اسی وجہ سے مرد حضرات سوائے’ حسن وجمال ‘کے اپنی بیویوں کو کسی اور میدان میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتے۔ جب کہ عورت کو اللہ تعالی فطرتا ایسا بنایا ہے کہ مرد واقعی اچھا سلوک کرے تو وہ اسی کے تحفظ میں رہنا پسند کرے گی۔آفس میں بھی مردوں کے ساتھ یہی مشکل ہے کہ اگر خاتون باس کے تحت کام کرنا پڑا تو مرد سوچے گا نوکری رہے یا نہ رہے میری بلا سے مگر میں بھلا ایک عورت کے ماتحت کیوں رہوں؟
اس کے علاوہ مردوں کی انا پسندی میں عورتوں کو کم عقل اور کم درجہ سمجھنا،ان کو مارنا پیٹنا ، گھر کے کاموں میں حصہ نہ لینا، بچوں کو ڈرا دھمکا کے رکھنا،خود کو سب سے عقلمند سمجھنا ، دولت کا اظہار گاڑیوں ، لباس ،موبائل اور بعض صورتوں میں زیورات وغیرہ پہن کرکرنا ہے ۔ بعض تو کچھ معاملات میں عورتوں کو بھی’ نمود و نمائش ،چغلی ،مسلسل باتیں،اپنی کامیابی کا ذکر اور مشہور شخصیات کا نام اپنے ساتھ جوڑنے‘ میں پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
عورتوں میں بھی انا(Ego) کی بیماری پائی جاتی ہے۔ایسی عورتیں یا لڑکیاں اپنی جھوٹی انا کی تسکین کے لئے زیورات ،میک اپ اور کپڑوں وغیرہ کے ذریعہ خود کو لوگوں میں نمایا ں کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور خاص کر اپنی عمر کو چھپاتی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کی کثرت ہے جن کے بچے تیس، پینتیس سال کے ہو جاتے ہیں مگر وہ خود پچیس، تیس سال سے آگے نہیں نکلتی نظر آتیں اور خود کو ہمیشہ اپنے ہم عصروں میں چھوٹی ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں یا ان کو انکل ، آنٹی بنانا چاہتی ہیں۔ یہ نہایت ہی مضحکہ خیز اور غیر اخلاقی عمل ہے لیکن اپنی ذہنی حالت سے مجبور ہو کر انجام دیتی ہیں۔
انا ہی کی وجہ سے ساس بہو میں سب سے زیادہ اختلاف اس بات کو لے کر ہو تا ہے کہ گھر کا کل مختار کون ہے اور کس کا حق زیادہ ہے جس کے نتیجے میں بیٹا دونوں کے درمیان پس کر رہ جاتا ہے کہ کس کی سنے اور کیا کرے۔پھر خوشی اور سکون کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ اسی لئے کسی سے پوچھو کہ کیسے ہو؟ زندگی کیسی گذر رہی ہے؟ تو عموما یہی جواب ملتا ہے کہ ’بس کٹ رہی ہے‘۔
جب انسان انا پرستی کا شکار ہو جاتا ہے اس کا اثر زندگی کے ہر پہلو پر نمایا ں ہوتا ہے۔ اس لئے اس سے اجتناب کی ضرورت ہے ۔ مسلم ہونے کے ناطے ہم میں یہ بری عادت تو ہونی ہی نہیں چاہیے تھی کیوں کہ اسلام ایک ایسامکمل دین ہے جو ہماری تمام جسمانی ، ذہنی اور روحانی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔ مغربی ترقی یافتہ ممالک نے اسلامی تعلیمات مثلا سچ بولنا،ایماندار ہونا، محنت کرنا ، وقت کا صحیح استعمال کرنا ، تعلیم پر خصوصی توجہ دینا اور اپنا محاسبہ کرتے رہنا وغیرہ کو اپنالیا تو وہ ہم سے آگے نکل گئے اور ہم جھوٹی انا کا شکار ہو کر رہ گئے جس کے نتیجے میں آج ہم خود کو ان کے سامنے مجبور اور بے بس پاتے ہیں۔
usama9911@gmail.com  
٭٭٭٭



Monday 24 March 2014

(April Fool Aor Islami Taaleemat) اپریل فول اور اسلامی تعلیمات



                                                 اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی


مسلم معاشرے میں بعض ایسی اخلاقی بیماریاں اور غلط رسوم و رواج شامل ہو چکے ہیں جو مغربی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں۔انہیں میں سے ایک بے ہودہ رسم یکم اپریل کو ’اپریل فول‘ منانا بھی ہے۔جسے ہماری ’جدیدتہذیب یا فتہ نسل‘ نہایت اہتمام اور گرم جوشی کے ساتھ مناتی ہے۔اس دن ایک دوسرے کو مختلف طرح سے بیوقوف بنایا جاتاہے کہ آپ کے بیٹے کا ’ایکسیڈنٹ یاانتقال‘ ہوگیاہے یا اسی طرح کے آپس میں غیر اخلاقی مذاق،جھوٹ،دھوکہ دہی،فریب اور وعدہ خلافی کی جاتی ہے۔
اپریل فول کی حقیقت کیا ہے اور اس کا آغاز کب ہوا ۔اس سلسلے میں مختلف رائے ملتی ہیں۔
اپریل لاطینی زبان کے لفظ Aprilis یا Aprire سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب پھولوں کا کھلنا اورکونپلیں پھوٹنا وغیرہ کے آتے ہیں۔قدیم زمانے میںرومی موسمِ بہار کی آمد پر شراب کے دیوتا کی پرستش کرتے ، اسے خوش کرنے کے لیے شراب پی کر غیر اخلاقی حرکتیں کرتے اور لوگوں سے جھوٹ بولتے۔ یہ جھوٹ رفتہ رفتہ اپریل فول کا ایک اہم حصہ بن گیا“۔
انسائیکلو پیڈیا انٹرنیشنل‘ کے مطابق :
مغربی ممالک میں یکم اپریل کو عملی مذاق کا دن قرار دیا جاتا ہے ۔اس دن ہر طرح کی نازیبا حرکات کی چھوٹ ہوتی ہے اور جھوٹے مذاق کا سہارا لے کر لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے“۔
انسائیکلوپیڈیاآف برٹانیکااورانسائیکلوپیڈیالاروس‘کے مطابق:
جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوگرفتارکیاتو عدالت میں رومیوں اور یہودیو ں کی طرف سے آپؑ کے ساتھ مذاق اور تمسخرکیاگیا اوران کوتفریحاًیہودی علماءکی عدالت سے پیلاطس کی عدالت میں اوروہاں سے ہیروڈیلس کی عدالت میں اورپھر وہاں سے واپس پیلاطس کی عدالت میں فیصلے کے لیے بھیجاگیا“۔
لوقاکی انجیل کے مطابق :
جب لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوگرفتارکیے ہوئے تھے تویہودان کی آنکھیں بند کرکے منھ پرطمانچہ مارکرہنستے تھے اوران سے پوچھتے تھے کہ نبو ت یعنی الہام سے بتاکہ کس نے تجھے مارا؟ا س کے علاوہ اوربہت سی باتیں بطورطعنہ کہتے تھے“۔
ایک اور روایت کے مطابق:
1582ءمیں پوپ جورج ہشتم نے پرانے کلینڈر کی جگہ ایک نیا کلینڈر بنانے کا حکم دیا۔ جس میں نئے سال کا آغاز یکم اپریل کی بجائے یکم جنوری سے شروع کیا گیا۔اس تبدیلی کی اطلا ع بروقت دور دراز کے علاقے کے لوگوں تک نہیں پہنچ سکی۔ وہ بدستور یکم اپریل کو ہی نئے سال کی تقاریب مناتے رہے اور باہم تحائف کا تبادلہ بھی جاری رہا۔ اس تبدیلی کو جاننے والوں نے ان کا مذاق اڑایا اور انھیں’ اپریل فول‘ کے طنزیہ نام سے پکارنے لگے۔ آہستہ آہستہ یہ ایک روایت بن گئی“۔
ایک مستند ترین روایت کے مطابق:
مسلمانوں کے زوال کے بعد جب اسپین پر عیسائیوں نے دوبارہ قبضہ کیا تو مسلمانوں کا بے تحاشا خون بہایا گیا۔اسی دوران عیسائی بادشاہ ’فرڈینینڈ‘نے عام اعلان کرایا کہ مسلمانوں کی جان یہاں محفوظ نہیں ،ہم نے انہیں ایک اسلامی ملک میں بسانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو مسلمان وہاں جانا چاہیں ان کے لیے ایک بحری جہاز کا انتظام کیا گیا ہے ۔حکومت کے اس اعلان سے مسلمانوں کی کثیر تعداد اسلامی ملک کے شوق میں جہاز پر سوار ہوگئی۔جب جہاز سمندر کے عین درمیان میں پہنچا تو فرڈینینڈ کے فوجیوں نے بارود کے ذریعہ بحری جہاز میں سوراخ کردیا اوردیکھتے ہی دیکھتے پورا جہاز غرقاب ہوگیا۔عیسائی مسلمانوں کوالوداع کہنے کے بہانے ساحلِ سمندرتک آئے تھے کہ ان کے غرق ہونے کاتماشہ دیکھ سکیں اورپھران لوگوں نے اپنی اس کام یابی کا جشن منایا۔یہ حادثہ یکم/ اپریل 1501ءمیں پیش آیا۔ عیسائی دنیا اس پر بہت خوش ہوئی اور فرڈینینڈکو اس شرارت پر داد دی“۔(تاریخِ اندلس:312)۔
 بہرحال ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسم مسلمانوں کی نہیں ہے اس لیے ان کا اپریل فول منانا جائز نہیں۔ اس کی تقلید میں غیرمسلموں سے مشابہت ہوگی اور یہ ایک طرح سے دشمنوں کی خوشی میں شرکت کرنا ہوا جو صحیح نہیں ہے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من تشبہ بقوم فھو منھم (ابوداود:403)
 جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔
ویسے بھی اس دن جو اعمال انجام دیئے جاتے ہیں وہ قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ۔اس لیے کسی مسلمان کا اس میں شریک ہونا درست نہیں۔ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
جھوٹ بولنا: اپریل فول کے دن کثرت سے جھوٹ بولا جاتا ہے جس سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے کیوں کہ جھوٹ امانت و دیانت میں نقص پیدا کرتا ہے اور عزت و آبرو پر دھبہ لگاتا ہے۔یہ ایک مومن کی شان نہیں ہے کہ وہ جھوٹ بولے۔ارشادِ ربانی ہے :
واجتنبوا قول الزور(الحج:30)
جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو بڑے گناہوں میں شمار کیااور فرمایا:
الا انبئکم باکبر الکبائر ثلاثاً،الاشراک باللہ،وعقوق الوالدین،و شھادة الزور،او قول الزور،و کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متکئاً،فجلس فما زال یکررھا،حتیٰ قلنا :لیتہ سکت۔(مسلم:87)
آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا :’کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں نہ بتلاوں؟ صحابہ نے عرض کیا :کیوں نہیں ائے اللہ کے رسول !فرمایا:اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرانا،والدین کی نافرمانی کرنا۔(آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے اٹھ کر بیٹھ گئے )اور فرمایا:’سن لو اور جھوٹ بولنا‘ پھر آپ برابر اسی کو دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم تمنا کرنے لگے کہ کاش!آپ سکوت اختیار کر لیتے۔
ایک مسلمان ہمیشہ سچ بولتا ہے۔سچائی نیکی کی طرف رہ نمائی کرتی ہے اور اسے جنت کی طرف لے جاتی ہے،جب کی جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان الصدق یھدی الی البر وان البر یھدی الی الجنة وان الرجل لیصدق حتی یکتب عند اللہ صدیقاً وان الکذب یھدی الی الفجور و ان الفجور یھدی الی النار وان الرجل لیکذب حتی یکتب عنداللہ کذاباً(مسلم:2607)
سچائی نیکی کی طرف رہ نمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔آدمی سچ بولتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی ہاں سچے لوگوں میں لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے ۔آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے ہاں جھوٹے لوگوں میں لکھ لیا جاتا ہے۔
مذاق اڑانا:اپریل فول میں ایک دوسرے کا مذاق اڑایا جاتا ہے اورغیبت کی جاتی ہے۔ بے جا ہنسی مذاق نفرت اور کراہیت تک پہنچا دیتا ہے اور وقار بھی مجروح ہوتا ہے ۔ قرآن کہتا ہے:
یا ایھا الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیراً منھم و لا نسآءمن نسآءعسیٰ ان یکن خیراً منھن(الحجرات:(11
اے لوگو جو ایمان لائے ہو،نہ مرد دوسرے مرد کا مذاق اڑائیں،ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ،اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں،ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔
مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ خوش طبعی سے پیش آتے ہیں اور ہنسی مذاق بھی کرتے ہیں لیکن اس میں غلو نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے لوگوں کو اذیت پہنچتی ہے۔ان کا مذاق اسلامی اور جائز حدود میں ہوتا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام بھی آپس میں مذاق کرتے تھے :
ان رجلا واتی النبی فقال:یا رسول اللہ !احملنی،فقال النبی:انا حاملوک علی ولد ناقة۔قال:و ما اصنع بولد الناقة؟فقال النبی:و ھل تلد الابل الا النوق۔(ابوداود:4998)
ایک شخص نبی کے پاس آیا اور اس نے آپ سے سواری مانگی۔آپ نے بطور مزاح فرمایا!ہم تمہیں اونٹنی کا بچہ دیں گے۔اس نے عرض کیا:ائے اللہ کے رسول !میں اونٹنی کابچہ لے کر کیا کروں گا ؟آپ نے فرمایا:کیا اونٹ(اونٹنی کے علاوہ) کسی اور کا بچہ ہوتا ہے؟
امام بخاری نے الادب المفرد میں بکر بن عبداللہ سے روایت کیا ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ایک دوسرے پر خربوزہ پھینکا کرتے تھے(یعنی ہنسی مذاق کی محفلوں میں خربوزوں کے ٹکڑے ایک دوسرے پر پھینکتے تھے)لیکن جب وہ حقائق سے دوچار ہوتے تو پوری مردانگی کا مظاہرہ کرتے تھے۔(الادب المفرد:266)
وعدہ خلافی کرنا:اپریل فول کے دن وعدہ خلافی بھی بطورفیشن کی جاتی ہے۔جب کہ اللہ رب العزت فرماتا ہے:
یا ایھا الذین آمنو ااوفوا بالعقود(المائدة:01)
اے لوگو!جو ایمان لاتے ہو وعدوں کی پوری پابندی کرو۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
و اوفوا بالعھد ان العھد کان مسولا(بنی اسرائیل:34)
عہد کی پابندی کرو،بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہو گی۔
وعدہ خلافی سے دلوں میں کدروت پیدا ہوتی ہے اور محبت نکل جاتی ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اپنے بھائی سے لڑائی جھگڑا نہ کرو ،نہ اس سے حد سے زیادہ ہنسی مذاق کرو اور نہ ہی اس سے کوئی وعدہ کر کے خلاف ورزی کرو۔(الادب المفرد:394)
فضول اور لایعنی گفتگو :اپریل فول میں فضول گفتگو کی جاتی ہیں جوایک مومن کے لیے مناسب نہیں کیوں کہ وہ لا یعنی چیزوں میں نہیں پڑتا ہے اور اسلام اسے لچر اور بے ہودہ باتوں اور غیر سنجیدہ حرکتوں سے دور رکھتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حسن السم المرءترکہ مالا یعنیہ(موطا:949)
آدمی کے اسلام کی خوبی اس بات میں ہے کہ وہ لایعنی چیزوں میں نہ پڑے۔
اسی لیے مومن اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہے تاکہ وہ اسے جہنم میں لے جانے کا سبب نہ بنے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو تنبیہ فرمائی :
فاخذ بلسانہ قال :کیف علیک ھذا،فقلت :یا نبی اللہ و انا لماخذون بما نتکلم بہ؟فقال:ثکلتک امک یا معاذ و ھل یکب الناس فی النار علی وجوھم او علی مناخرھم الا حصائد اسنتھم۔(ترمذی:2616)
آپ نے اپنی زبانِ مبارک پکڑ کر (سیدنا معاذ)سے فرمایا:اس کو روکو!سیدنا معاذ نے عرض کیا :اے اللہ کے نبی:کیا ہماری گفتگو کا بھی ہم سے مواخذہ ہوگا؟آپ نے ارشاد فرمایا:
اے معاذ!تمہاری ماں تمہیں گم پائے،لوگ جہنم کی آگ میں چہرے کے بل یا اپنے نتھنوں کے بل اسی زبان کے بدولت گرائے جائیں گے۔
تہمت لگانا اور نقصان پہنچانا:اپریل فول کے دن دوسروں کی عزت پربطور مذاق تہمتیں لگائی جاتی ہیں اور نقصان پہنچایا جاتا ہے ۔جو جائز نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کوئی کسی کو فسق یا کفر کی تہمت نہ لگائے اس لیے کہ جس شخص کو وہ تہمت لگائی ہے اگر وہ ویسا نہیں ہے تو یہ بات تہمت لگانے والے ہی پر پلٹ آئے گی۔(بخاری:6045)
ایسے ہی لوگوں کو نقصان پہنچاناصحیح نہیں ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ(بخاری:6484)
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کے شر سے مسلمان محفوظ رہیں۔
ایک مرتبہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔آپ نے فرمایا:کیا میں تمہیں بتاوں کہ تم میں اچھے کون اور برے کون ہیں؟لوگ خاموش رہے۔آپ نے تین مرتبہ یہی فرمایاتو ایک شخص نے عرض کیا :کیوں نہیں ائے اللہ کے رسول بتلایئے! آپ نے فرمایا:
خیرکم من یرجیٰ خیرہ و یومن شرہ و شرکم من یرجیٰ خیرہ و لا یومن شرہ۔(ترمذی:2663)
تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جن سے لوگ خیر کی امید رکھیں اور شر سے محفوظ رہیںاور تم میں برے لوگ وہ ہیں جن سے خیر کی امید تو رکھیں مگر شر سے محفوظ نہ ہوں۔
اللہ تعالی ہم سب کو اس بری رسم سے محفوظ رکھے۔آمین۔
٭٭٭٭



Friday 21 March 2014

(Jb Umra Na Krna Umra Krne Se Afzal Ho Jae) جب عمرہ نہ کرنا عمرہ کرنے سے افضل ہوجائے



اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر ،جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی


 ترکی کے لوگوں سعودی عرب کے خلاف سخت جذبات ہیں کیوں کہ اس نے مصر میں الاخوان المسلمون کا تختہ الٹنے کی سازش میں شرکت کی تھی اور عبد الفتاح سیسی کا ساتھ دیا تھا جس نے غداری کی تھی اور مصر کے جمہوری طریقہ سے منتخب صدر کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تھا ۔وہاں بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم سعودی عرب اب عمرہ کرنے کیلئے بھی اس وقت تک نہیں جائیں جب تک کہ وہاں کا فاسد نظام بدل نہیں جائے گا۔
زاد المعاد اور سیرت کی دوسری کتابوں میں ایک اہم واقعہ مذکور ہے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے ارادہ سے حدیبیہ کے مقام تک پہونچے تو قریش بہت بے چین ہوئے آپ نے حضرت عثمانؓ کو بلواکر قریش کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ جاکر کہہ دو کہ ہم جنگ کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں ۔ حضرت عثمان روانہ ہوئے ،وہ ابو سفیان اور قریش کے سربرآوردہ اشخاص کے پاس گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام ان تک پہنچایا۔ جب وہ اپنی بات کہہ چکے تو انہوں نے حضرت عثمان سے کہا تم اگر طواف یا عمرہ کرنا چاہتے ہو تو کرلو ، حضرت عثمان نے اس موقعہ اور اجازت سے بالکل فائدہ نہیں اٹھایا اور صاف کہہ دیا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طواف نہ کرلیں گے میں اس وقت تک طواف نہیں کرسکتا۔
 جب حضرت عثمان حدیبیہ واپس ہوئے تو مسلمانوں نے کہا تم تو بڑے مزے میں رہے تم نے طواف اورعمرہ کرکے اپنے دل کا ارمان نکال لیا ہوگا؟آپ نے فرمایا تم لوگوں نے بڑی بدگمانی سے کام لیا، قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر مجھے ایک سال بھی وہاں ٹھہرنا پڑتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف فرما ہوتے تب بھی میں اس وقت تک طواف نہ کرتا جب تک کہ حضور طواف نہ کرلیتے ۔ مجھے تو قریش نے طواف کی دعوت بھی دی تھی لیکن میں نے صاف انکار کردیا۔
عمرہ کرنا اور طواف کرنا ہر حال میں اجر وثواب کی بات ہے لیکن یہ حضرت عثمان کی اللہ کے رسول سے محبت اور دین سے عشق و وفا کی علامت ہے کہ انہوں نے عمرہ اور طواف سے انکار کردیا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اس وقت خلاف اسلام ملوکیت اور موروثی نظام کے تحت آل سعود حجاز کی سرزمیں پر حکمراں ہیں۔ ملوکیت کا موروثی نظام کسری اور قیصر کی سنت ہے پیغمبر اور صحابہ کی سنت نہیں ہے۔
 علماءکرام نے تصریح کی ہے کہ اسلام کے سیاسی نظام میں ملوکیت اور موروثی نظام کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔حکومت توکسی خطہ ارض کے باہمی اجتماعی انتظام کا نام ہے وہ کسی شخص کی ذاتی ملکیت کیسے ہوسکتا ہے اور کسی خاندان کے مالکانہ حقوق اس پر کیسے قائم ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب میں ملوکیت کا نظام ہے اور وہاں حسن بنا شہید کی قائم کردہ تنظیم الاخوان المسلمون پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور اس سے وابستگی اختیار کرنے اور حمایت کرنے پر تیس سال کی سزا مقرر کی گئی ہے ، حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ دین وشریعت کے رمز شناس آل سعود نہیں بلکہ الاخوان المسلمون کے لوگ ہیں جن کے بارے میں ہندوستان اور عالم اسلام کی ممتاز ترین شخصیت مولانا ابو الحسن علی ندوی نے کہا تھا کہ:
 لا یبغضہم الا منافق ولا یحبہم الا مومن
 ان سے نفرت کرنے والا منافق اور ان سے محبت کرنے والا مومن ہے
 خود سعودی عرب کے فرواں روا ملک فیصل جو دینی غیرت اور حمیت رکھتے تھے اور جنہوں نے امریکہ کے خلاف تیل کا ہتھیار استعمال کیا تھا اخوان کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتے تھے اور ان کی بہت تعریفیں کرتے تھے آج اسی تنظیم الاخوان المسلمون کو موجودہ سعودی حکمراں امریکہ کے دباوکے تحت دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور شام میں جہاد کرنے والے سعودیوں کو واپس بلا رہے ہیں اور انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں ،مصر کی بے دین طاقتوں کا اور وہان کے غاصب ڈکٹیٹر عبد الفتاح سیسی کی ہزاروں بلین ڈالر سے مددکر کرہے ہیں۔
 سعودی عرب کے موجودہ ظلم وزیغ کے ماحول میں باہر کے مسلمان الاخوان المسلمون پر سے پابندی ہٹانے تک اگر نفل عمرہ نہ کرنے کاارادہ کرلیں اور سعودی سفارت خانہ کی دعوت بھی نہ قبول کریں تووہ پورے طور پر حق بجانب ہوں گے اور وہ خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی کی پیروی کریں گے جنہوں نے قریش کی دعوت قبول نہیں کی اور طواف و عمرہ سے بھی انکار کردیا کیونکہ اہل مکہ نے اہل حق اور اہل اسلام کو طواف وعمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔دنیا کے مسلمانوں کی طرف سے سعودی حکومت کو یہ پیغام جانا چاہئے کہ وہ سعودی حکومت کی خدمات کا اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں سعودی حکومت کے اس مجرمانہ کردار کو پسند نہیں کرتے ہیں۔
ملوکیت کے غلط نظام کے تحت خیر کے اور رفاہ عام کے کام ہو تے رہیں اور انصاف قائم رہے اور دین کی اشاعت ہوتی رہے تو لوگ اس کو برداشت کرلیں گے لیکن اگر غلط نظام کے تحت غلط کام بھی ہونے لگیں ہزاروں کو بے قصور جیل میں ڈالا جانے لگے اورعوام پر ظلم بھی ہونے لگے اور ظلم کی طرفداری کی جانے لگے دین وشریعت کو نافذ کرنے والوں کے مقابلہ میں بے دینوں کا اور باطل طاقتوں کا ساتھ دیا جانے لگے تو دنیا کے مسلمان اس پر خاموش نہیں رہ سکتے یہ سکوت جرم ہوگا اور اس سکوت پر اللہ کے یہاں بازپرس ہوگی۔ہماری وفاداری صرف اسلام کے ساتھ ہے نہ کہ کسی حکومت کے ساتھ۔
سعودی عرب میں ایسا مہیب اور خوف زدہ کرنے والا ما حول ہے کہ وہاں سرکار ی علماءکرام حکومت کے چشم وابرو کو دیکھ کر فتوے جاری کرتے ہیں وہ اپنے اظہار خیال کے لئے آزاد نہیں ، مصر میں جب حسنی مبارک کے ظلم واستبداد کے خلاف عوامی بغاوت کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے تھے اس وقت وہاں کے علماءکرام حسنی مبارک کا ساتھ دے رہے تھے اور حسنی مبارک اور اس طرح کے تمام بدمعاش ڈکٹیٹروں کو“ اولی الامر منکم “ میں شمار کررہے تھے حالانکہ اولی الامر سے مراد وہ خلیفہ وقت اور امیر المومنین ہے جس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن سعودی حکومت ظالم اور ہر ڈکٹیٹر کی حمایت کرتی رہی ہے اور اس کے خلاف بغاوت سے روکتی رہی ہے اور وہ اس طرح مستقبل میں اپنے نظام کوہر خطرہ سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔اس نے تیونس کے ڈکٹیٹر علی زین العابدین اور یمن کے ڈکٹیٹر علی عبد اللہ صالح کو بھی اپنے یہاں پناہ دی تھی۔ اس طرح سعودی عرب کا کردار ظلم کی حمایت اور ظالم کو پناہ دینے کا کردار ہے۔ عبد الفتاح سیسی کی طرفداری کر کے سعودی عرب نے اپنے منافقانہ کردار کو بے نقاب کردیا ہے ، ایران مجرم ہے کہ اس نے بشار الاسد جیسے ڈکٹیٹر کی حمایت کی ہے اور سعودی عرب مجرم ہے کہ اس نے دین کو سربلند کرنے والی جماعت کو چھوڑ کر عبد الفتاح سیسی کا ساتھ دیا ہے ، سعودی عرب نے اپنی تاریخ کی سب سے بھیانک اور بد نما غلطی کی ہے مستقبل کا مورخ جب سعودی عرب کے زوال کی تاریخ لکھے گا تو وہ یہ لکھے گا کہ کسی قوم کے سیاسی زوال سے پہلے اس کی عقل پر زوال اور دماغ پر اختلال آتا ہے خدمت حرمین کا دعوی کرنے والوں کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ اپنی یک جہتی اور وابستگی کا اظہار کریں جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا جو یورپ کے پروردہ اور مغربی تہذیب کے دلدادہ اور شراب وکباب کے رسیا رہے تھے جن کے نظریات کا قبلہ لندن اور واشنگٹن تھا اور جو سازش کے ذریعہ بر سر اقتدار آئے تھے جنہوں نے رمضان کے مہینہ میں مصر کے صدر مرسی کی حمایت میں پر امن مظاہرہ کرنے والوں کو بندوق کی گولیوں سے چھلنی کردیا تھا ان مسجدوں کو آگ لگادی تھی جس میں لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی قرآن میں تو حکم ہے ولا ترکنوا الی الذین ظلموا یعنی تمہارے اندر ظالموں کی طرف ادنی جھکاو بھی نہیں ہونا چاہئے لیکن سعودی حکومت نے دین اور بے دینی کی کشمکش کے نازک زمانہ میں اور خون کے دھبوں کے مٹنے سے پہلے ہی ظالموں کی حمایت میں فورا بیان جاری کیا اور ہزاروں بلین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ، یہ سعودی عرب کے چہرے کا وہ سیاہ داغ ہے جسے آسانی سے دھویا نہیں جاسکتا ہے ،اگر سعودی عرب کا ضمیر اس پر بے چین نہیں ہے تو اسے تیار رہنا چاہئے کہ اس کے حکمرانوں کا حشر ان بدبختوں کے ساتھ ہو جنہوں نے رمضان کے زمانہ میں مومنوں کو بندوقوں کا نشانہ بنایا ہے
کاش کہ ایسا ہوتا کہ خدمت حرمین کا دعوی کرنے والوں نے اس لقب کی لاج رکھی ہوتی وہ مصر میں اخوان کی تقویت کا باعث بنتے ، ان کی حکومت کو مضبوط کرتے شریعت کے احکام کی تنفیذ میں ان کی مدد کرتے ان کے ساتھ مل کر دنیا کی عالم گیر صداقت کو اور دنیا میں اسلام کے پیغام کو عام کرنے کا پروگرام بناتے وہ ترکوں کے ساتھ مل کر اسلام کی ایک آہنی دیوار بناتے وہ اسلام کی سیاسی طاقت کا ذریعہ بنتے، اقتصادی سائنسی اور عسکری اعتبار سے مسلمان ملکوں کا ایک طاقتور بلاک بناتے جس کی سطوت اور طاقت کی وجہ سے اس کی طرف کسی کو بری نظر سے دیکھنے ہمت نہیں ہوتی۔ مستقبل کا مورخ یہ لکھے گا کہ خادم الحرمین نے یہ سب کچھ نہیں کیا ، انہوں نے حالات کا صحیح فائدہ اٹھانے کے بجائے اسلام کے کاز کو نقصان پہونچایا اور خود امریکہ کی گود میں جاکر بیٹھ گئے۔

سعودی عرب نے الاخوان المسلمون کو اور شام میں جہاد کرنے والوں کو امریکہ کے اشارہ پر دہشت گرد قرار دیا ہے الاخوان المسلمون کی بانی امام حسن البنا شہید کی روح خادم الحرمین سے کہہ رہی ہوگی۔
لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ ونام ہے .... یہ جانتا اگر تو لٹا تا نہ گھر کو میں
( بشکریہ پروفیسر محسن عثمانی ندو ی(
٭٭٭٭

Thursday 20 March 2014

(Life After Retirement) زندگی- ریٹائرمنٹ کے بعد؟



                                                 اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی


مسلم معاشرے میں زوال اور کسی حد تک دوسری قوموں کی نقالی میں بعض ایسی عادتیں و روایتیں رواج پا چکی ہیں جن کا اسلام اور اس کے نظریہ حیات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ان کی وجہ سے معاشرے میں مجموعی طور پر حالات اور معیارِ زندگی دونوں میں مسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے۔جس میں تبدیلی کے بظاہر کوئی آثار بھی نہیں دکھائی دے رہے ہیں کیوں کہ ہم بذاتِ خود عملی طور پر اپنے حالات بدلنا نہیں چاہتے ہیں ۔اللہ تعالی بھی اسی وقت کسی قوم کی حالت کو بدلتا ہے جب کہ وہ خود اس کے لیے کمر بستہ ہوجائے۔ارشادِ ربانی ہے:

ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیروا ما بانفسھم(الرعد:۱۱)
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف نہیں بدل دیتی“۔

مسلم معاشرے میں پائی جانے والی مختلف غیر ضروری روایات میں سے ایک روایت ’ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ نہ کرنا‘ بھی ہے۔اس کے معنی چھوڑدینے،پناہ مانگنے اور الگ تھلگ ہوجانے وغیرہ کے آتے ہیں۔ اصطلاح میں اس کے معنی نوکری کی مدت ختم ہو جانے کے ہوتے ہیں۔

ہمارے یہاں سرکاری نوکری کی مدت ساٹھ(60) سال ہے،جسے اب سے پینسٹھ (65)سال کرنے کی بات کی جا رہی ہے اورملٹی نیشنل کمپنیوں یا بعض دوسرے اداروں میں ڈائریکٹر وغیرہ کی ستّر( 70) سال ہے۔ اس کے بعد آدمی کو ریٹائر کر دیا جاتا ہے۔ان کی نقّالی میں مدارس اسلامیہ اور دیگر مذہبی جماعتوں نے بھی اس ’سنہرے اصول‘ کو اپنے یہاں نافذ کر رکھا ہے۔خواہ آدمی اس وقت بھی کتنا ہی صحت مند اور چاق و چوبند ہی کیوں نہ ہو ۔
ریٹائرمنٹ میں نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی نوکری سے ریٹائر ہونے کے بعدعملی طور پر کچھ کرتا نہیں ہے جس کا اثر گھر ، محلہ، معاشرہ اور پھر پورے ملک کی ترقی پر ہوتا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریٹائر شدہ آدمی زندگی کے بقیہ سال صرف اللہ، اللہ کر کے گزارنا چاہتا ہے اور سالہا سال تک زیادہ سے زیادہ مسجد تک جانااس کامعمول بنارہتا ہے۔

یہ بھی ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ جب تک دنیا سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالی کی یاد سے غافل رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ داڑھی رکھنا اور عبادت کرنا بڑھاپے کا عمل ہے۔ جب ساٹھ سال گزارنے کے بعد سب کچھ کر لیتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ اب کچھ کرنے کی طاقت نہیں رہتی تو مسجد پکڑ لی جاتی ہے۔چناں چہ ریٹائر افراد کی زندگی میں اچانک سے تبدیلی آجاتی ہے اور مسجد کا خصوصی اہتمام ،داڑھی کا بڑھا لینا ،خیرات و زکوٰة میں دلچسپی اور لوگو ں یا بچوں کو پکڑ پکڑ کر سمجھانا اور روک ٹوک مچانا ان کا معمول بن جاتا ہے۔
اکثر بزرگ اس رویہ کو اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ ماضی کے گناہوں کی تلافی کی جاسکے۔یہ بھی مگر بڑا عجیب لگتا ہے کہ جانتے بوجھتے ایسا عمل آخر کیا ہی کیوں جائے کہ بعد ازاں اس کی تلافی کرنی پڑے اور اگر اس دوران بیچ ہی میں رخصت ہو گئے تو اس کا موقع بھی نہیں ملے گا۔جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اغتنم خمساً قبل خمس:شبابک قبل ھرمک،و صحتک قبل سقمک،غناءک قبل فقرک،فراغک قبل شغلک و حیاتک قبل موتک۔(المستدرک علی الصحیحین:4 /302)

پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔بیماری سے پہلے صحت کو،مشغولیت سے پہلے فرصت کو،تنگ دستی سے پہلے فراخی کو ،بڑھاپے سے پہلے جوانی کو اور موت سے پہلے زندگی کو۔

حقیقت یہ ہے کہ جس عمر میں لوگ ریٹائر ہو کر گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں ،وہی وقت معاشرے اور ملک کو کچھ واپس دینے کا ہوتا ہے کیوں کہ ریٹائر ہونے کے بعد انسان بہت ساری پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنی دلچسپی کے میدان میں باآسانی خدمات انجام دے سکتا ہے۔

ویسے بھی جب آدمی خود کو ریٹائر سمجھ کر گھر میں بیٹھ جاتا ہے تو وہ بے شمار ذہنی و جسمانی بیماریوں کا شکار ہونے لگتا ہے کیوں کہ وہ خود کو بے کار اور دوسروں کے لیے ایک بوجھ سمجھتا ہے اورقدرت کا اصول ہے کہ جب کوئی انسان اپنے کو بے کار اور دوسروں پر بوجھ سمجھ بیٹھے تو وہ ذہنی ،جسمانی اور جذباتی طور پر ختم ہونے لگے گا ۔

ایک ایسا آدمی جو روزانہ باقاعدہ تیار ہو کر گھر سے آفس کے لیے نکلتا ہو لیکن ایک دن اسے اچانک منع کر دیا جائے تو وہ خود کو بے کار ،بوڑھا اور مرنے کے قریب سمجھنے لگتا ہے۔اسی لیے ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ ڈپریشن ،مایوسی،مختلف طرح کی کش مکش،نفسیاتی الجھن،چڑچڑے پن اورتنہائی وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔خصوصاً اس وقت جب بیٹے اور بیٹیاں ان کوپوچھتے نہیں اور ایک کونے میں ’فالتو سامان ‘کی طرح ڈال دیتے ہیں۔ایسے میں وہ گھر کی محبت اور توجہ سے محروم ہو جاتے ہیں تو مزید دباوکا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے بیشتر بزرگ نہایت ہی غصہ ور اور تلخ طبیعت کے مالک ہو تے ہیں۔بعض کم زور دل حضرات خودکشی تک کر لیتے ہیں۔

قرآن و حدیث میں اس سلسلے میں جگہ جگہ رہ نمائی کی گئی ہے کہ انسان اس دنیا میں بیٹھ کر صرف اللہ ،اللہ کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے ،بلکہ اسے اس دنیا میں مختلف طرح کے کام بھی انجام دینے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:

و من اٰیٰتہ منامکم بالیل و النھار و ابتغآوکم من فضلہ(الروم:23)
اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔

ایک اور جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

و جعلنا النھار معاشا(النبا:۱۱)
اور دن کو معاش کا وقت بنایا۔

 ان آیات میں عمر کی کوئی قید نہیں لگائی گئی ۔اس لیے کہ نہ تو دین اور دنیا کوئی الگ الگ چیز ہے اور نہ ہی دنیا حاصل کرنے میں کوئی عمر متعین کی گئی ہے۔دنیا کو دین کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حاصل کرنا بھی عبادت ہے۔اگر ہم پیغمبرانہ زندگی کا جائزہ لیں تو تمام پیغمبر کسی نہ کسی طرح کا پیشہ اپنائے ہوئے تھے۔حضرت داوود ؑ ذرہ بنانے کاکام کرتے تھے اورحضرت یوسفؑ وزیر خزانہ بنے تھے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو پوری دنیا کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔آپ نبی تھے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا عظیم فریضہ آپ کو انجام دینا تھا، لیکن اس کے باوجودآپ نے دنیاوی کاموں میں بھی حصہ لیا ۔گھر کے سارے کام آپ خود انجام دیتے تھے۔مسجد نبوی کی تعمیر میں آپ نے بذاتِ خود ۳۵ سال کی عمر حصہ لیا ،خندق کی کھدائی میں آپ نے بھی صحابہ کرامؓ کے ساتھ حصہ لیا۔اسی طرح تمام صحابہ کرامؓ محنت و مشقت کر کے روزی کماتے تھے۔وہ جہاں ایک طرف نمازیں پڑھتے اور ذکر و اذکار کرتے تھے وہیں دوسری طرف تجارت، کھیل، سیر و تفریح وغیرہ کرتے تھے اور یہ ان کے نزدیک کوئی معیوب بات بھی نہیں تھی۔ان کے یہاں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہ تھااور نہ ہی عمر کبھی ان کی ترقی کی راہ اور کام کو انجام دینے میں رکاوٹ بنی ۔حضرت ابوایوب انصاریؓ نے اسّی(80) سال کی عمر میں جہاد کیا تھا۔

ہمارے قائدین اور رہ نما جتنے زیادہ ’بڑے‘ ہوتے ہیں اتنا ہی وہ کام کرنے سے اجتناب کرتے ہیںاور کام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ہمارے یہاں بڑے لوگ اس لیے کام کرنا نہیں چھوڑتے کہ وہ دین کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا چاہتے ہیں بلکہ یہ صرف ایک روایت سی بن گئی ہے کہ عمر دراز لوگوں کو کام نہیں کرنا چاہیے۔ہمارے بعض طبقوں میں بزرگوں اور بڑوں کا کام کرنا ان کے بیٹوں کے لیے باعثِ شرم ہوتا ہے ،حالاں کہ ان کی زندگی کا تجربہ دوسروں کے کام آسکتا ہے اور پھر اس سے ان کی صحت بھی برقرار رہتی ہے۔

ان آیات و حدیث سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہبی نظام ہے جو دنیا و آخرت اور جسمانی و روحانی دونوں نظام کو ایک ساتھ لے کر چلتا ہے اور جس میں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہیں ہے کیوں کہ اس کے بعد زندگی ختم نہیں ہو جاتی اور نہ ہی کام ختم ہوتے ہیں۔اس لیے جب تک انسان کی صحت ،طاقت اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت باقی ہو اس وقت تک اسے حسبِ استطاعت سرگرم رہنا چاہیے۔

 ریٹائر منٹ کے بعد کے کام: یہ بات اہمیت نہیں رکھتی ہے کہ آپ نے کتنی لمبی عمر پائی بلکہ اہم بات یہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کو کہاں اور کس طرح کھپایا؟ اور اسی کوقیامت کے دن پوچھا جائے گا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

لا تزول قدما ابن آدم یوم القیامة من عند ربہ حتیٰ یسال عن خمس عن عمرہ فیما افناہ و عن شبابہ فیما ابلاہ و عن ماہ من این اکتسبہ و فیما انفقہ و ما ذا عمل فیما علم(ترمذی:6/302)
قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اللہ رب العزت کے پاس سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزو ں کے متعلق نہ پوچھ لیا جائے کہ اس نے عمر کس چیز میں صرف کی،جوانی کہاں خرچ کی،مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور جوکچھ سیکھا اس پر کتنا عمل کیا۔

اس لیے ہم سب کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے اور اگر ان سب کا شروع میں نہیں حق ادا کر سکے تو ریٹائرمنٹ کے بعد اب جو فرصت ملی ہے اس کو غنیمت جانا جائے اور سب کاحق ادا کیا جائے۔چند اہم کام درج ذیل ہیں۔

صحت کا خصوصی خیال رکھنا :اسلام مسلمانوں کو دوسری قوم کے مقابلے میں نمایاں اور ممتاز دیکھنا چاہتا ہے۔اس لیے وہ لباس اور صحت پر بھی خصوصی توجہ دیتا ہے کہ ایک مومن کا جسم پر کشش اور طاقت ور ہو۔ویسے بھی صحت اچھی رہے گی تب ہی انسان کچھ کر سکے گا۔ظاہر ہے ایسا اس وقت ہی ممکن ہوگا جب انسان کھانے پینے میں اعتدال سے کام لے اور یہی اسلام کو مطلوب بھی ہے۔ارشادِ ربانی ہے:

وکلوا واشربواولا تسرفوا ان اللہ لا یحب المسرفین(الاعراف:31)
کھاو،پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو ،اللہ تعالی حد سے بڑھنے والے کو پسند نہیں کرتا۔

حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں :

کھانے پینے میں زیادتی سے بچو،کیوں کہ بسیار خوری سے جسم میں خرابی آتی ہے ،بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور نماز میں تساہلی اور سستی پیدا ہو جاتی ہے۔کھانے پینے میں میانہ روی سے کام لو کیوں کہ اس سے جسم درست رہتا ہے ،بیماری نہیں آتی ۔اللہ تعالی پیٹو اور موٹے شخص کو پسند نہیں کرتا،آدمی اس وقت تک ہر گز ہلاک نہیں ہوتا جب تک اپنی شہوت کو اپنے دین پر ترجیح نہ دے“۔ (کنزالعمال:8/47)

بدقسمتی سےمسلمان خواہ مرد ہوں یا عورتیں، صحت اور اس کے اصولوں کی طرف سے بڑے لاپرواہ نظر آتے ہیں ۔دین دار طبقہ ورزش کرنے اور چہل قدمی کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتا ہے اگرچہ پیٹ نکلا ہو اہو اور ذرا سا چلنے میں سانس پھولنے لگتی ہو ،بلڈ پریشر ،شوگر اور اسی طرح کی دوسری بیماریاں لاحق ہوںلیکن اس پر توجہ نہیں دی جاتی ہے ۔جس کے نتیجے میں بڑھاپے میں اور تکلیف جھیلنی پڑتی ہے اوراس کاایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ فسادات میں لڑنا تو دور اپنا اور اپنے گھر والوں کا دفاع کرنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔اس میدان میں ریٹائر افراد کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

دینی علوم میں اضافہ: اگر نوکری کے درمیان مصروفیت نے دینی تعلیم سے روکے رکھا تھا تو اس عمر میں اس کو جاننے اور سیکھنے کی کوشش کی جائے اور عمر اس میں رکاوٹ نہ بنے ۔امام ابوعمرو بن علائؒ سے کسی شخص نے سوال کیا :

آدمی کو کب تک علم حاصل کرتے رہنا چاہیے؟فرمایا:

ما دام تحسن بہ الحیاة(جامع بیان العلم لابن عبد البر:1/96)
جب تک اس کی زندگی وفا کرے۔

اسی طرح امام عبداللہ بن المبارکؒ سے کسی نے پوچھا :
آپ کب تک علم حاصل کرتے رہیں گے؟فرمایا:

حتیٰ الممات و لعل الکلمة التی انتفع بھا لم اکتبھا بعد (جامع بیان العلم لابن عبد البر:1/96)
مو ت تک،اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ جو بات میرے حق میں مفید ہو اسے اب تک نہ حاصل کر سکا ہوں۔

 ایک مسلمان کو سب سے پہلے قرآن پھر سنت ِنبوی پھر سیرتِ نبوی اور ضرورت کے مطابق دین کے شرعی احکام سے واقفیت ہونی ضروری ہے تاکہ وہ مستشرقین اور غیروں کے ذریعہ پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں سے نہ صرف یہ کہ خود بچا رہے بلکہ گھروالوں اور معاشرے کو بھی محفوظ رکھ سکے اور ہمیشہ ان میں اضافہ کی دعا مانگی جائے۔جیسا کہ قرآن کہتا ہے:

و قل رب زدنی علما۔ً(طہ:114)
اور دعا کروکہ اے پروردگار!مجھے مزید علم عطا فرما۔

اور مسلکی اختلافات اور فرقہ بندی سے اجتناب کیا جائے ۔موجودہ دور میں کتابیں اور جدید ٹکنالوجی اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی مدد سے صحیح اور باطل میں تمیز باآسانی کی جا سکتی ہے۔اس سے دو فائدے ہوں گے ایک تو یہ کہ آدمی مسلکی اختلافات سے محفوظ رہے گا، دوسرا یہ کہ وہ گھر والوں کی صحیح اور اسلامی نہج پر تربیت کر سکے گا اور اس کا کوئی محدود دائرہ نہ ہوگا۔ ساتھ ہی علم پر عمل کرنا اور اس کو دوسروں تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

بلغواعنی و لو آیة و حدثوا عن بنی اسرائیل و لا حرج ومن کذب علی متعمداً فلیتبوا مقعدہ من النار(بخاری:3461)

میرا پیغام لوگوں کو پہنچاو اگرچہ ایک ہی اٰیت ہو اور بنی اسرائیل کے واقعات تم بیان کر سکتے ہو ،اس میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کے ٹھکانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

گھر کا ماحول خوش گوار رکھنا:ریٹائر افراد کا زیادہ تر وقت گھر میں ہی گزرتا ہے ۔عمر کے تقاضے کی وجہ سے ان میں برداشت کا مادہ کم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ گھر کی عورتوں، بچوں اوردیگر افراد پر وقت بے وقت ناراض ہوتے رہتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے ہیں ۔اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔بہتر ہوگا کہ ان کی نفسیات کو سمجھیں اور بجائے سختی،ڈانٹ ڈپٹ اور جبر و تشدد کے شفقت،محبت ،ہمدردی اور خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ورنہ حقیقتاًیہ ہوگا کہ آپ کی موجودگی میں تو مودب بن کر رہیں گے، لیکن غیر موجودگی میں ہر وہ کام ہوگا جسے آپ ناپسند کرتے ہیں۔

ساتھ ہی بچوں ،بچیوں کو اپنی بات کہنے کی پوری آزادی دی جائے، ان کے تمام معاملات کو دوست سمجھ کر حل کیا جائے اور انعام و اکرام کے ذریعہ ان کے اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔اس سے وہ خوش بھی رہیں گے اور دل سے خدمت و احترام کریں گے۔

موجودہ دور میں عموماً والدین جاب پر ہوتے ہیں اور وہ صبح کے نکلے شام کو لوٹتے ہیں تو گھر کے بچوں اور بچیوں کی صحیح تربیت نہیں ہو پاتی ہے ۔اس کمی کو گھر کے ریٹائر افراد پوراکر سکتے ہیں۔وہ ان کے کتب و رسائل،دوست احباب،خواہشات ،محفلوں، موبائل اورانٹرنیٹ کی سرگرمیوں سے خصوصی توجہ دیںتاکہ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کام یاب ہو سکیں ۔اسی کو قرآن نے کہا:

یا ایھا الذین آمنوا قوا انفسکم و اھلیکم نارا(التحریم:6)

ائے ایمان والو! بچا اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے

بعض بزرگوں کا خیال ہوتا ہے کہ بچوں اور بچیوں سے ہنسی مذاق یا کھیل کود نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ اس سے وہ ان کی نظر میں کم حیثیت ہو جائیں گے یاان کی صحیح تربیت نہیں ہو پائے گی۔ یہ غلط سوچ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں اور بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا:

جس کا کوئی بچہ ہو اسے اس کے ساتھ کھیل کود کرنا چاہیے۔(کنز العمال:45413)

اس سے بچوں میں خود اعتمادی آتی ہے اور ان کے اندر بھی رحم اور ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
ایک اور جگہ آپ نے فرمایا:

ہر وہ امر جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے خالی ہو غفلت ہے یا بھول، سوائے چار باتوں کے۔تیر اندازی کے ہدف کے 
درمیان دوڑنا،گھوڑے کی تربیت کرنا، تیراکی سیکھنا اور گھر والوں کے ساتھ خوش وقتی کرنا“(الطبری:6)

عورتوں کے ساتھ بھی محبت اور شفقت سے پیش آنے کی اسلام نے تعلیم دی ہے اور اس پر ثواب بھی بتایا ہے۔ حدیثِ نبوی ہے:

و لست تنفق نفقة تبتغی بھا وجہ اللہ الا اجرت بھا حتیٰ اللقمة تجعلھا فی فی امرتک۔ (بخاری:4409)
تم اللہ کی خوش نودی چاہتے ہوئے جو کچھ بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں اجر ملے گا،یہاں تک کہ اس لقمہ پر اجر پاوگے جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔
ہمارے یہاں تو یہ انا کے خلاف بات ہو جائے گی۔

رشتے داروں کے حقوق ادا کرنا:اگر نوکری اور مصروفیت نے رشتہ داروں سے دور کر دیا تھا تو اب جو فرصت ملی ہے تو ضروری ہے کہ ان کے حقوق ادا کیے جائیں اور ان کے کام آیا جائے۔قرآن کریم میں رشتہ داری نبھانے اور اس کا خیال رکھنے کی مختلف مقامات پر تعلیم دی گئی ہے۔ارشادِ ربانی ہے:

و اتقوا اللہ الذی تسآءلون بہ والارحام(النسا:1)
اور اس اللہ سے ڈرو،جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے(اپنے حق)مانگتے ہو اوررشتہ داری اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔

ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
و اٰ ت ذاالقربیٰ حقہ والمسکین و ابن السبیل ولا تبذر تبذیرا(بنی اسرائیل:26)
رشتہ داروں کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق اور فضول خرچی نہ کرو۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا یدخل الجنة قاطع رحم(مسلم:2556)
قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔

ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا:

ما من ذنب اجدر ان یعجل اللہ لصاحبہ العقوبة فی الدنیا،مع ما یدخر لہ فی الآخرة،من البغی و قطیعة الرحم(ترمذی:2511)
بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں جو اس لائق ہو کہ اس کا ارتکاب کرنے والے کو اللہ تعالی آخرت میں سزا دینے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سزا دے۔

صلہ رحمی کے مختلف طریقے ہیں جیسے مال سے مدد کرنا،خیر خواہی،ہمدردی اور محبت سے پیش آنا،ملاقات کرنا،مسکرا کر خوش دلی سے ملنا،سلام کرنا،تحفہ دینا،تعاون و ایثار کرنا اورعیادت کرنا وغیرہ۔اس میں پہلے ماں پھر والد پھر قریب ترین رشتے داروں کا خیال رکھا جائے گا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالی تمہیں ماوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،پھرماوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،پھرماوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،پھر باپوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے،پھر قریب ترین رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے ۔(ابن ماجہ:3661)

قطع رحمی کتنا بڑا گناہ ہے۔اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے:

الرحم معلقة بالعرش تقول:من وصلنی وصلہ اللہ و من قطعنی قطعہ اللہ ۔(مسلم:2555)
رشتہ داری عرش سے لٹکی ہوئی ہے ۔وہ کہتی ہے جو مجھے جوڑے گااللہ تعالی اسے جوڑے گا اور جو مجھے کاٹے گا اللہ تعالی اسے کاٹے گا۔

رفاہِ عامہ کے کام: صحیح معنوں میں ایک مسلمان شخص لوگوں کا خیر خواہ ہوتا ہے اور وہ دوسروں کے ہر ممکن کام آتا ہے۔جیسا کہ حدیثِ نبوی ہے:

الدین النصیحة قلنا:لمن؟قال:لللہ و لکتابہ و لرسولہ ولائمة المسلمین و عامتھم(مسلم:55)
دین خیر خواہی کانام ہے۔‘ (صحابہ کہتے ہیں)ہم نے عرض کیا :کس کے لیے؟فرمایا:اللہ کے لیے ،اس کی کتاب،اس کے رسول،مسلمانوں کے ائمہ اور عام مسلمانوں کے لیے۔

ایک اور جگہ آپ نے فرمایا:

و لینصرالرجل اخاہ ظالماً او مظلوماً،ان کان ظالماً فلینھہ فانہ لہ نصر و ان کان مظلوماً فلینصرہ(مسلم:2584)
آدمی کو چاہیے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم،اگر ظالم ہو تو اس کو ظلم سے باز رکھے ،یہی اس کی مدد ہے اور اگر مظلوم ہو تو اس کی مددکرے۔

ریٹائر افراداپنے پیشے ،وقت ،سہولت اور جمع خرچ کے لحاظ سے محلے اور آس پاس کے علاقوں میں رفاہ عامہ کے کام انجام دے سکتے ہیں۔جسیے غریب کے بیٹی کی شادی میں مدداور کم زوروں کی تعلیمی (پروفیشنل اور غیر پروفیشنل )،قانونی،مالی امداد ،حکومت کے ذریعہ ملنے والی اسکیموں کی جان کاری اور معلومات ان کے مستحقین تک پہنچانا ،صحت سے متعلق بے داری اور مسابقاتی امتحانات کی تیاری وغیرہ میں مد د کرنا وغیرہ وغیرہ۔
خواتین جو بطور ٹیچر ریٹائر ہوئی ہوں وہ اپنے گھر،محلے اورآس پڑوس کی طالبات یا بڑی عمر کی ناخواندہ خواتین کو بھی تعلیم دیں تاکہ کم از کم وہ دین کی بنیادی باتیں پڑھ اور سیکھ سکیں۔ایسے ہی کمپیوٹر،سلائی کڑھائی اور کوکنگ وغیرہ کی بھی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ان رفاہِ عامہ کے کاموں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ مرنے کے بعد بھی فاعل کو اس کا ثواب ملتا رہے گا۔جیسا کہ حدیث نبوی ہے:

اذا مات الانسان انقطع عملہ الا من ثلاث :من صدقة جاریة او علم ینتفع بہ او ولد صالح یدعولہ(مسلم:4223)
جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کاثواب جاری رہتا ہے ۔ایک صدقہ جاریہ کا،دوسرے اس کے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ،تیسرے نیک اولاد کا جو اس کے لیے دعا کرے۔
٭٭٭٭


usama9911@gmail.com