Wednesday 9 April 2014

(Child Molestation And Parents'Responsibility) بچوں کا جنسی استحصال اور والدین کی ذمہ داریاں


                                                اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی

بچے والدین کی آنکھوں کے ٹھنڈک،دل کا سکون اور زندگی کا سرور ہوا کرتے ہیں۔قرآن کریم نے بھی اس کی تائید کی ہے:
المال والبنون زینة الحیوٰة الدنیا۔(الکھف:46)
یہ مال اور یہ اولاد دنیوی زندگی کی آرائش ہیں۔
ہر شخص اولاد کی تمنا کرتا ہے اور ان کی بہتر تعلیم وتربیت کرنے کی حتی الامکان کوشش بھی کرتا ہے۔اس لیے کہ بچے ہی مستقبل کے معمارہوتے ہیں اور وہی آگے چل کر ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں۔ اس حقیقت کے اعتراف میں دنیا کی مختلف قومیں ’یومِ اطفال‘ مناتی ہیں۔ پہلی بار عالمی یوم اطفال 1953ءمیں’ انٹر نیشنل یونین فار چلڈرن ویلفیئر ‘( international organisation of children's welfare in 1920 by Eglantyne Jebb and her sister Dorothy Buxton)کے تحت منایا گیا۔جسے بعد میں اقوام متحدہ (1945) کی جنرل اسمبلی نے بھی منتخب کر لیااور اس کی طرف سے پہلی باریہ دن20 /نومبر1954کو منایا گیا۔اس کے بعد سے ہر سال 20/نومبر کو یومِ اطفال منایا جاتا ہے۔
یوم اطفال کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بچوں کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جو ان کی بہتر نشوونما اور فلاح بہبود کے لیے ضروری ہیں اور انہیں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات بھی مہیا کی جائیں تاکہ وہ مستقبل میں قوم وملک اور انسانیت کی ترقی میں مو ثر کردار ادا کر سکیں۔ لیکن یوم اطفال بھی صرف ایک رسم بن کر رہ گیا ہے۔اس دن بچوں کی حمایت اور ان کی ترقی کے لیے صرف سیمیناراورپروگرام وغیرہ منعقد ہوتے ہیں ۔بلند و بالا دعوے کیے جاتے ہیں اور پھر اگلے نومبر تک کے لیے معاملہ ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ چائلڈ لیبر کے محاذ پر سیاسی ، سماجی تنظیموں اوراین جی اوز کاکام صرف اور صرف چندے بٹورنا اور بیرونی ممالک سے دی گئی امداد کو ہڑپ کرناہی رہ گیا ہے۔ ورنہ بچوں کے استحصال کے اعداد و شمار میں ضرور کمی آئی ہوتی۔
 اقوام متحدہ کی تنظیم آئی ایل او(International Labour Organization-1919) کے مطابق:
 پوری دنیا میں12سے 15سال کی عمر کے 27کروڑ سے زائد بچے کسی نہ کسی شکل میںمزدوری کررہے ہیں جن میں19کروڑ بچے اور 8کروڑ بچیاں ہیں۔ ایشیا میں مزدور بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ جبری مشقت کے شکار 63%بچے اسی براعظم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں بھی 28لاکھ بچے چائلڈ لیبر فورس کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی بچوں کی  اسمگلنگ کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک سے سالانہ15لاکھ سے زائد بچے مختلف مزدوریوں ، اونٹ ریس اور جنسی سرگرمیوں کے لیے ا سمگل کیے جاتے ہیں۔ان کے علاوہ دنیا میں ہر آٹھواں بچہ نامناسب انسانی ماحول اور خطرناک صورتِ حال میں کام کررہا ہے۔بچہ مزدوروں میں% 9 شدید بیماری کے باوجود مسلسل کام کرنے اوربعض دیگر حالات کی وجہ سے معذور ہو جاتے ہیں۔ کوئی ان کاعلاج تک نہیں کراتااوروہ ماں باپ پر بوجھ بن کر رہ جاتے ہیں ۔ جنسی تشدد کا شکار ہونے والوں کی تعداد بھی %8سے کم نہیں ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ان بچوں کو تعلیمی سہولیات مہیا نہیں ہوتی چناں چہ ان کی صحیح نشوونما رک جاتی ہے اور بچپن و مستقبل سب کچھ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔
خود ہندوستان میں1.5کروڑ سے زائد بچے مزدوری کر رہے ہیں،جب کہ اکتوبر 2006ءمیں بچوں سے مزدوری نہ لینے کے خلاف قانون پاس ہوچکا ہے اور 14سال سے کم عمر بچوں سے مزدوری کرانے پر 2سال قید اور 20ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔اس کے باوجود ان کا ہر طرح سے استحصال کیا جا رہا ہے۔
نیشنل کرائم برانچ 2012کی رپورٹ کے مطابق بچوں کے خلاف کل38172 کیسز سامنے آئے۔2011میں یہ33098 تھے۔یعنی ایک ہی سال میں٪15.3کا اضافہ ہوگیا ۔اس میں قتل کے کل1678 کیسز تھے ۔2011 میں اس کی کل1514 تعداد تھی۔یعنی اس میں٪10.8کا اضافہ ہوا۔اترپردیش463 (٪27.6)کے ساتھ سرِ فہرست رہا۔طفل کشی کے 81کل کیسز تھے ۔2011میں ان کیتعداد63تھی۔اس طرح ایک ہی سال میں ٪28.6کا اضافہ ہوا۔اس میں مدھیہ پردیش17کیسز اور اترپردیش 14کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔جنسی زیادتی کے کل 8541کیسز سامنے آئے۔2011میں اس کی7112 تعداد تھی۔اس میں بھی ٪20.1کا اضافہ ہوا۔مدھیہ پردیش1632،اترپردیش1040 اور مہاراشٹرا917کے ساتھ بالترتیب سرِ فہرست رہے۔اغوا کے کل 18266کیسز ہوئے۔جو2011 میں15284 تھے۔اس میں بھی ٪19.5 اضافہ ہی ہوا۔اترپردیش 4239،دہلی3686بالترتیب پہلےاوردوسرےنمبرپررہے۔جنین کشی کےکل210کیسزسامنےآئے۔2011میں ان کی تعداد 132تھی۔اس میں بھی٪59.1کا اضافہ ہوا۔مدھیہ پردیش64 ،راجستھان 37،ہریانہ 28کیسز کے ساتھ بالترتیب پہلے،دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔چھوٹی بچیوں کی دلالی کے کل 809کیسز سامنے آئے۔2011میں یہ 862تھے لیکن اس میں ٪6.1کی کمی آئی ۔ویسٹ بنگال369 ، آسام122، بہار48 اس میں سرفہرست رہے۔بچیوں کی خرید وفروخت کے کل123 کیسز سامنے آئے۔جھارکھنڈ ٪33.3اور ویسٹ بنگال٪51.9کے ساتھ اس میں سرفہرست رہے۔
مجموعی طور سے دیکھا جائے تو اترپردیش میں٪15.8،مدھیہ پردیش٪13.5،دہلی٪11.7، مہاراشٹرا٪9.1، بہار٪7.6، آندھرا پردیش٪6.0، چھتیس گڑھ٪4.9،راجستھان٪4.7،ویسٹ بنگال٪4.5،گجرات٪3.5، کیرالہ ٪3.5،تامل ناڈو٪2.7اور دیگر اسٹیٹ میں٪12.6بچوں کے خلاف جرائم کا تناسب رہا۔مگر یاد رہےکہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جن کی رپورٹ درج ہوئی ہے ورنہ ان کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے۔
موجودہ دور میں بچے بچیوں کا جنسی استحصال ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے ۔آئےدن ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اس سے متعلق خبریں آتی رہتی ہیں۔اس کے اعدادوشمار دل دہلا دینے والے ہیں۔
(Asian Centre For Human Rights)A.C.H.Rکی2013 کی رپورٹ کے مطابق:
2001سے 2011کے درمیان جنسی زیادتی کے کل48338 کیسز سامنے آئے۔اہم بات یہ ہے کہ2001 میں اس کی تعداد2113 تھی جو2011میں بڑھ کر7112 تک پہنچ گئی۔یعنی اس میں%336تک کااضافہ ہوگیا۔اس میں مدھیہ پردیش 9465،مہاراشٹرا6868،اترپردیش5949،آندھراپردیش3977،چھتیسگڑھ3688،دہلی2909،راجستھان2776، کیرالہ2101،تامل ناڈو1486،ہریانہ1081،پنجاب1068،گجرات999،ویسٹ بنگال744،اڑیسہ 736، کرناٹک 719 ،ہماچل پردیش571اوربہار519بالترتیب سرفہرست رہے۔یہ وہ ریکارڈ ہیں جن کی رپورٹ درج کرائی گئی ہے۔ورنہ حقیقت میں اس کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معاشرہ کہاں جا رہا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ والدین اس سلسلے میں خاصے پریشان رہتے ہیں کہ انہیں کیا کرناچاہیے؟
ایک تحقیق کے مطابق ٪90کیسزمیں بچوں کے ساتھ یہ زیادتی کرنے والے اجنبی لوگوں کی بہ نسبت جان کار، والدین یا خاندان کے دوست اور قریبی رشتے دار ہوتے ہیں اوروہ اپنے مقصد کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔
یہ لوگ عام طور پر بچوں یا بچیوں کو کسی بات سے خوفزدہ کردیتے ہیں اور انہیں یہ تاثر دیتے ہیں کہ اب اگر ان کے والدین کو یہ بات پتہ چلی تو وہ بہت ناراض ہوں گے۔ اس طرح سے وہ ان کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔
 محرومیوں کےشکاربعض بچوںکوٹافی یاکسی بھی قسم کالالچ دلاتے ہیں۔اسی طرح بعض بچوں کو یہ ایک کھیل بنا کر پیش کرتے ہیں جو دو بہت قریبی یا محبت کرنے والے دوست کھیلتے ہیں۔ بعض بچے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ کوئی بات سمجھ ہی نہیں پاتے۔
والدین کی ذمہ داری
 اگرہم چاہتےہیں کہ ہمارے بچے ایسےکسی سانحہ کاشکارنہ ہوں تواس سلسلےمیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں سے دوستانہ ماحول میںآزادی سے باتیں کرنے کی عادت ڈالیں۔ ان کی اسکول سے واپسی کے بعد کسی وقت ان سے گپ شپ کریں جس میں انہیں زیادہ سے زیادہ بولنے کا موقع دیں اور اپنی باتیں بے حد کم رکھیں۔ اس دوران وہ نوٹ کرتے رہیں کہ ان کے دوست کس قسم کی باتیں کرتے ہیں،اساتذہ کرام سے ان کے روابط کیسے جارہے ہیں، اسکول کی وین والاان سے کیسی اور کس طرح کی گفتگو کرتا ہے اور اس پر بھی توجہ دیں کہ کوئی بڑا شخص آپ کے بچے کو غیر معمولی توجہ اور تحفے تحائف کیوں دے رہا ہے یا وہ آپ کے بچے پر ضرورت سے زیادہ ہی کیوں مہربان ہے؟ دورانِ گفتگو ان کو نہ تو ٹوکیں اور نہ ہی ڈانٹیں ورنہ وہ آپ کو پھر آگے کبھی کوئی بات نہیں بتائیں گے اور جو بھی شخص ان سے نرمی اور محبت سے بات کرے گا ،وہ اس کی ہر بات ماننے لگیں گے۔
دوسری اہم بات یہ کہ خود پر سے ان کے اعتماد کو کبھی متزلزل نہ ہونے دیں،انہیں اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ آپ انہیں سب سے زیادہ چاہتے ہیں،بچوں کو کسی بڑے کے پاس اکیلا چھوڑنے سے گریز کریں۔ اگر ایسا کرنا بہت ضروری ہو تو ایسی جگہ چھوڑیں جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ انہیں دیکھ سکتے ہوں۔اگر بچہ کسی بڑے کے پاس نہ جانا چاہے اور گھبرائے ،خواہ وہ آپ کا قریبی دوست یا رشتے دار ہی کیوں نہ ہو، تو اس پر دبا نہ ڈالیں کہ وہ ضرور ان کے پاس جائے۔یاد رہے کہ اس قسم کے معاملات میں بچے جھوٹ نہیں بولتے یااگر وہ کسی شخص کے بارے میں اس طرح کی کوئی بات آپ کو بتاتے ہیں تو ان کی بات پر یقین کریں اور ان کی مدد کریں۔
اکثر والدین بازار جاتے ہوئے یا باہر نکلتے ہوئے اپنے بچوں کو رشتہ داروں کے ہاں یا محلے پڑوس میں چھوڑ جاتے ہیں۔یہ صحیح نہیں ہے۔ کوشش کریں کہ چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں۔اگر یہ ممکن نہ ہو تو واپس آکر اپنے بچے سے تفصیل پوچھیں کہ اس نے یہ وقت کیسے گذارا؟اس بات پر بھی نظر رکھیں کہ آپ کا بچہ کن لوگوں کے ساتھ وقت گذارنا زیادہ پسند کرتا ہے اور کیوں؟ گھر میں اگر کمپیوٹر ہے تو ایسی جگہ پر رکھیں کہ اسکرین آپ کو چلتے پھرتے نظر آتی رہے۔ انہیں کبھی بھی بچوں کے کمروں میں نہ رکھیں اور نہ ہی کسی الگ تھلگ جگہ پر۔ ساتھ ہی ان سافٹ وئیرز کے بارے میں معلوم کرتے رہیں جو کمپیوٹر پر مختلف غیر ضروری سائیٹس کو فلٹر کرتے ہیں۔ اس طرح سے بہت حد تک ممکن ہے کہ بچے انسانوں کی شکل میں بھیڑیوں سے محفوظ رہ سکیں۔

٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment