Tuesday 22 April 2014

(Juma Ke Taqaze Aor Hamara Tarz-e-Amal) جمعہ کے تقاضے اور ہمارا طرز عمل

Osama Shoaib Alig
Research Scholar,Jamia Millia Islamia
New-Delhi

اسلامی تقویم میں ہفتے کا ساتواں اور آخری دن جمعہ ہے جسے زمانہ قبل اسلام میں” یوم العروبہ“ کہا جاتا تھا ۔مگر جب اسلام آیا تو اس کا نام” یوم الجمعہ“ رکھا گیا کیوں کہ اس دن مسلمان مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں۔جمعہ ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کا شعارِملت ہے جس طرح سنیچر اور اتواریہودیوں اور عیسائیوں کےلیے شعارِملت ہے۔اس لیے جہاں یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یوم تعطیل سنیچر اور اتوار ہے وہیں مسلمانوں میں یوم تعطیل جمعہ کا دن ہے۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ مغرب سے مرعوبیت اور اسلامی جس کے خاتمہ سے رفتہ رفتہ مسلمانوں نے بھی اندھی تقلیدمیں اتوار کو یوم تعطیل بنا لیا ہے۔خود ”اسلامی ممالک“میں بھی یوم تعطیل اتوار قرار پایا ہے۔ چاہے وہ بر صغیر کا اسلامی ملک پاکستان ہو یا مصطفی کمال پاشا کا ملک ترکی۔
خود ہمارے ملک میں بھی 'امت مسلمہ' پر فخر کرنے والوں نے نام نہاد مدرسوں کالجوں یونیورسٹیوں میں بھی'مصلحت 'کا لبادہ اوڑھ کے اس میں اندھی تقلید کی ہے۔ الا ما شاءاللہ۔جب کہ تقسیم ہند سے پہلے برطانوی ِہند اور مسلم ر یاستوں کا ایک نمایاں فرق یہ تھا کہ ملک کے ایک حصے میں اتوا ر تودوسرے حصے میں جمعہ یوم تعطیل ہوا کرتا تھا۔
 جمعہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں ایک پوری سورة 'سورة الجمعہ'کے نام سے موجود ہےاور اس بات سے بھی اس دن کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ اسی دن اللہ تعالی نے حضرت آدم کی تخلیق فرمائی اور اسی دن ان کا حوا سے ملاپ اور اجتماع ہواجیساکہ آپﷺ نے فرمایا:
 بہترین دن جس میں سورج نکلتا ہے وہ جمعہ کادن ہے۔اسی دن حضرت آدمؑ پیدا کیے گئے اور اسی دن جنت میں داخل کیے گئے، اسی دن جنت سے نکالے گئے، اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی،اسی دن ان کی وفات ہوئی۔ اسی دن قیامت برپا ہوگی اورکوئی جاندار ایسا نہیں جو اس دن قیامت کے ڈرسے صبح سے لےکر آفتاب نکلنے تک کان نہ لگائے رکھتا ہو بجز جنوں اور انسانوں کے اور اسی دن ایک گھڑی وہ بھی آتی ہے کہ نماز کی حالت میں اگر کوئی مسلمان بندہ اللہ سے کچھ طلب کرے تو وہ اس کو ضرور دیتا ہے۔( ابوداد)۔
جمعہ کا فرض ہونا اس لیے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
یا ایھا الذین آمنوا اِذا نودی للصلوة من یوم الجمعتہ فاسعوا اِلی ذکراللہ ﴿الجمعہ:08)
ائے وہ لوگوجو ایمان لائے ہو!جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو۔
 یہاں پر 'فاسعوا' کا مطلب یہ نہیں کہ دوڑ کر آبلکہ یہ کہ اذان کے فورابعد آجا اور کاروبار بند کر دو۔کیوں کہ نماز کے لیے دوڑ کر آنا ممنوع ہے۔وقار اور سکینت کے ساتھ آنے کی تاکید کی گئی ہے۔
جمعہ آپﷺ کی ہجرت سے پہلے ہی فرض ہو چکا تھا مگر چونکہ مکہ میں حالات اس کے لیے مناسب نہیں تھے تو  وہاں  جمعہ کی نماز نہیں ہوئی۔پھر آپﷺ نے ہجرت کے دوران ہی سب سے پہلے بنو سالم بن عوف کی بستی میں جمعہ کی نمازادا کی اور مدینہ پہنچتے ہی پانچویں دن جمعہ قائم کر دیا تھا۔
جمعہ کی فرضیت کےلیے کچھ شرطیں بھی ہیں جو  درج ذیل ہیں ۔
1:مسلمان 2:عاقل 3:بالغ 4:ذکوریت 5:حریت 6:قدرت 7:اقامت 8:قریہ
آپﷺ کے عہد مبارک اور ابوبکرؓ و عمرؓ کے عہد میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت کہی جاتی تھی جب امام منبر پربیٹھ جاتا تھا مگر جب حضرت عثمانؓ کے دور میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو آپ نے ایک اذان کا اضافہ کیا۔ قرآن کریم میں سورة جمعہ کی آٹھویں آیت میں جس اذان کا ذکر ہے اس سے مراد امام کا منمبر پر بیٹھ جانے کے بعد دی جانے والی اذان ہے۔ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت خریدو فروخت حرام ہے اور حضرت عطاؓ کا قول ہے کہ اس وقت تمام کام حرام ہیں۔مگر افسوس ہم لوگ کا حال یہ ہے کہ اذان ہوتی رہتی ہے اور سارا'کاروبار' اورسارے'ضروری کام'ہوتے رہتے ہیں۔جلدی جلدی سارے کام نپٹاتے رہتے ہیں اور نماز کھڑی ہونے سے 10 منٹ پہلے مسجد پہنچ جاتے ہیں بلکہ بعض دفعہ فرماتے ہیں 'ارے ابھی تو خطبہ ہو رہا ہو گاکیا جلدی ہے'؟۔افسوس بھی نہیں ہوتا کہ حرام کام اس دوران انجام دیا ہے۔جب کہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپﷺ فرماتے ہیں:
جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور رجسٹر میں آنے والوں کا نام ترتیب وار لکھتے جاتے ہیں۔پہلاآنے والا شخص اس شخص کی طرح ہے جو اونٹ کی قربانی کرے،دوسرا آنے والا اس شخص کی طرح جو گائے کی،تیسرا آنے والا اس شخص کی طرح جو دنبہ کی،چوتھا اس شخص کی طرح جو مرغی کی اور پانچواں اس شخص کی طرح جو انڈے کی قربانی کرے اور جب امام خطبے کے لیے جاتا ہے تووہ اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں اور خطبہ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔(بخاری و مسلم)
اس حدیث کی رو سے دیکھا جائے تو بعد میں آنے والے لوگ رجسٹر میں اپنا نام درج کرانے سے محروم رہ جاتے ہیں جس کی ہمیں کل قیامت کے دن سخت ضرورت ہوگی مگر ہم لوگوں کو آج نہ تو اس کا احساس ہے اور نہ ہی افسوس سوائے چندے معدودے کے۔ہم لوگ دنیاوی چیزوں کے لیے نہ صرف پہلے پہنچتے ہیں بلکہ اس کے لیے لائن لگاتے ہیں اور اس میں بھی دھکا مکی کرکے سامنے والے کو پیچھے ڈھکیل کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کی مثالیں ہم سینما ہال،ریلوے اسٹیشن اور یونیورسٹی وغیرہ میں ٹکٹ اور فارم وغیرہ لیتے وقت بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ شیطان ہمارا ازلی دشمن ہے اور وہ کبھی نہیں چاہتا کہ لوگ جمعہ کے لیے  وقت پر مسجد پہنچ پائیں چنانچہ وہ مسلسل لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا رہتا ہے اور یہ بات حدیث سے بھی ثابت ہے ۔
حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کو فرماتے سنا کہ جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو شیاطین اپنے لشکر لے کر بازاروں میں نکل جاتے ہیں اور لوگوں کو کاموں میں لگا کر جمعہ میں شرکت کرنے سے روک دیتے ہیں۔ فرشتے صبح سے ہی آکر مسجد کے دروازوں پربیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کے متعلق لکھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ امام خطبہ کےلیے نکلتا ہے پھر جو آدمی ایسی جگہ بیٹھتا ہے جہاں سے امام کو دیکھ اور سن سکے اور دورانِ خطبہ خاموشی اختیار کرے اور کوئی بیہودہ بات نہ کرے تو اس کو اجر کےدوحصے ملتے ہیں۔اور اگر ایسی جگہ بیٹھا جہاں سے وہ خطبہ سن اور دیکھ سکتا ہے مگر وہ لغو کام کرتا ہے،خاموشی اختیار نہیں کرتا ہے تو اس پر گناہ کا ایک بوجھ لاد دیا جاتا ہے اور جس نے خطبے کے دوران اپنے ساتھی سے کہا کہ چپ رہ تو اس نے بھی لغو کام کیا اور جس نے لغو کام کیا تو اسے جمعہ کا کچھ بھی ثواب نہ ملے گا۔   ( ابوداد)
جمعہ کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ اگر ہم صحیح معنوں میں اس کو جان لیں تو انشاءاللہ شیطان کا کوئی حربہ ہم پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔بس ہمیں اس کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ایک خاص بات ہم مسلمانوں میں خصوصا نوجوان طبقہ میں رواج پا رہی ہے کہ خطبوں میں لیٹ آتے ہیں اور پھرخطبہ کے دوران حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور باتیں شروع ہو جاتی ہیں اورغیبتیں،چغلیاں اور برائیاں ہوتی رہتی ہیں بلکہ اب تو موبائل میں 'گیم'اور 'چَیٹنگ'کی جاتی ہے۔جیسے خطبہ سننے نہیں بلکہ 'ٹائم'پاس کرنے آئے ہیں اور کچھ لوگ نیند کے مزے لیتے ہیں  جب کہ خطبہ کے دوران اس طرح کی تمام حرکتیں ممنوع ہیں۔جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ فرماتے ہیں کہ جمعہ میں تین طرح کے لوگ آتے ہیں ۔ایک تو وہ جو وہاں آکر بیہودہ بات کرے تو اس کا حصہ یہی ہے یعنی اس کو کچھ نہ ثواب ملے گا۔دوسرا وہ ہے جو وہاں آکر اللہ تعالی سے دعا کرتا ہے اگر اللہ چاہے گا تو دعا قبول کرے گا اور نہیں چاہے گاتو نہیں۔اورتیسرا وہ ہے جو وہاں آکر خاموش سے بیٹھ جائے ،نہ لوگوں کی گردن پھاند کر آگے بڑھے اور نہ ہی کسی کو تکلیف پہنچائے تو اس کا یہ عمل اس جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک بلکہ مزید تین دن تک گناہ کے لیے کفارہ بن جائے گا۔    ( ابوداد)
اس حدیث کی روشنی میں ہمیں اپنے اپنے عمل کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارا شمار کس طرح کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس میں جہاں عوام کی غلطی ہے وہیں ہمارے 'علمائے کرام' یا 'مولوی حضرات'کی بھی کمی ہے کہ عموما خطبے کی 'رسم' پوری کرتے ہیں اور خطبہ عربی زبان میں دیتے ہیں۔چونکہ اکثریت عربی زبان سے ناواقف ہوتی ہے تو عام طور سے نوجوان طبقہ یا تو ’باتوں‘میں یا’موبائل‘میں مشغول ہو جاتا ہے اور بوڑھے لوگوں کو نیند آنے لگتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اردومیں بھی خطبہ دیا جائے اور علمائے کرام ،مولوی حضرات اپنے اس'اسٹیٹس ' یا'خول' سے باہرنکلیں جس میں عموما'مصلحت،دوراندیشی اوررواداری'کا غلاف چڑھا ہوا کرتا ہے (الاما شاءاللہ)اور معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں اور نئے نئے درپیش مسائل کو خطبوں کا موضوع بنائیں۔
اگر ہم نے حتی الامکان جمعہ کی نماز کے لیے ا حادیث پر پورا پورا عمل کرنے کی کوشش کی تو ہمیں اس کا کتنا زیادہ اجر ملے گا اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے:
 آپﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے اور جس قدر ممکن ہو پاکیزگی حاصل کرتا ہے ،بقدر استطاعت تیل خوشبو لگاتا ہے اور پھر نماز کےلیے اس طرح سے نکلے کہ دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے اور جتنا اس کے مقدر میں ہو نماز پڑھے اور جب امام خطبہ پڑھے تو خاموش رہے تو اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔مزید روایت میں ہے کہ ساتھ ساتھ تین دن کے اور گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور جو آدمی کنکریوں کو چھوئے تو اس نے لغو کام کیا۔(مسلم و ابوداد)
سبحان اللہ !اتنے سے عمل سے اتنی زیادہ معافی کیا ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے؟؟ تصور کیجیے آخرت میں حساب کتاب کے دن جب ہمیں نیکیوں کی کمی پڑ رہی ہوگی تب ہمارا کیا حال ہوگا؟؟آج ہمیں موقع ملا ہوا ہے مگر ہم میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ مسجدمیں خطبہ شروع ہونے کے بعد آتے ہیں اور فرشتوں کے رجسٹر میں نام لکھانے سے محروم رہ جاتے ہیں اور مزید یہ کہ بعد میں آنے کے باوجود گردنوں کو پھلانگتے ہوئے آگے بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے منع کیا گیا ہے۔جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے:
حضرت معاذ بن انسؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا!جس نے جمعہ کے روزلوگوں کی گردنیں پھاندیں اس نے جہنم تک ایک پل بنا لیا۔
ہماری امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ جمعہ کی نماز سے ہی غافل ہے۔ان میں سے ایک قسم ایسی ہے جو عیدَین ہی کو کُل نماز سمجھتی ہے اوردوسری قسم وہ ہے جو اس کے لیے خود کو'مجبور'پاتی ہےاو ربقول ان لوگوں کے ”مجبوری“یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ ایسی 'کمپنیوں'میں کام کرتے ہیں جہاں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے چھٹی نہیں دی جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس میں ہماری ہی کمی ہے۔اس کو ہم اپنے لیے'رخصت'مان کر مطمئن ہو جاتے ہیں اور اس کے لیے نہ تو ہم کمپنی کے سامنے احتجاج کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی مطالبہ کرتے ہیں البتہ اگر ہماری'تنخواہ' یا کسی سہولت میں کوئی کمی آجائے تو سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔سردار قوم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔فوج کا قانون انہوں نے اپنے تبدیل کرا لیا کیوں کہ ان کے مذہب میں بال کاٹنا صحیح نہیں ہےاور ہم لوگ ہر جگہ'حیلے ،مصلحت ،دوراندیشی اور رواداری' کی چادر اوڑھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ جب کہ ترکِ جمعہ پر سخت وعید ہے ۔حدیث ِنبوی ہے:
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہےکہ آپﷺ نے فرمایا کہ لوگ جمعہ کی نماز چھوڑنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ تعالی ان کے دلوں پر مہر لگا دیں گے پھر وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے۔( مسلم)۔
ایک اورجگہ آپﷺ نے فرمایا !تارکِ جمعہ کی نہ نماز ہے نہ زکوة نہ روزہ اور نہ ہی حج اور نہ ہی اس کے لیے کوئی برکت ہے یہاں تک کہ وہ توبہ کرلے۔
ان دونوں حدیثوں سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ترکِ جمعہ کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کا کیا انجام ہوگا۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو جمعہ کی اہمیت کو سمجھنے اور قرآن و حدیث کے مطابق جمعہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
usama9911@gmail.com


No comments:

Post a Comment