Thursday 10 April 2014

(Sanf-e-Nazuk Ki Tijarat- Ek Nai Shakal Me) صنفِ نازک کی تجارت - ایک نئی شکل میں

                                                                             اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی

آزادی اور ترقی کے باوجود صنفِ نازک پر تشدد کا خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔ تشدد کے معنی ’کسی کو زبردستی ظلم وستم کا نشانہ بنانا‘ کے ہیں لیکن اگراس کی صنفِ نازک کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ جارحانہ برتاکرنا بھی ہے ، جو نہ صرف ان کو ہراساں کرتا ہے بلکہ نفسیاتی مریض بھی بنا دیتا ہے۔ موجودہ دورمیں دنیا بہت تیزی سے ترقی کررہی ہے لیکن لوگوں کی سوچ صنف نازک کے سلسلے میں آج بھی پرانی ہے، اسی وجہ سے ان کا ذہنی وجسمانی استحصال نت نئے طریقوں سے کیا جارہاہے ۔ ان میں سے ایک طریقہ ’ گھریلوکام‘ کے نام پرخادمہ کااستحصال کرناہے ۔
اس طرح کے استحصال میں’ دلال‘ مختلف ریاستوں سے ، خاص کر جہاں غربت زیادہ ہوتی ہے،والدین کو اچھی زندگی کی لالچ اور سنہرے مستقبل کے خواب دکھاکر، ان کی معصوم لڑکیوں کو معمولی قیمت پر دہلی اور دوسرے میٹرو شہرمیں لاتے ہیں اور پلیسمنٹ ایجنسیوں کو بیچ دیتے ہیں ۔پھر ان کو مختلف بڑے شہروں جیسے دہلی (ساتھ ایکسٹیشن، کوٹلہ مبارکپور ، لکشمی نگر اور جنک پوری وغیرہ میں)،ممبئی ،جے پور ، گوا اور احمدآباد وغیرہ میں سپلائی کیاجاتاہے ۔ ان میں کام کرنے والی%75 لڑکیاں نابالغ ہوتی ہیں ۔ 
تقریباً 3000سے زائد پلیسمنٹ ایجنسیاں دہلی میں موجود ہیں اور ان میں سے655 ایجنسیاں ہی ’کمرشیل اسٹیبلشمنٹ ایکٹ‘ کے تحت رجسٹرڈ ہیں ۔ ان میں سے کئی ایسی ہیں جن کی تحقیق کئے بغیر ہی منظوری دے دی گئی ہے ۔ اسی لیے اس کا نیٹ ورک ہمارے ملک میں تیزی سے پھیلتاجارہاہے ۔
اس بڑھتے کاروبار کا اندازہ ایسے لگایاجاسکتاہے کہ13-2012 کی رپورٹ کے مطابق بہارسے (427) ، جھارکھنڈ(189)،مغربی بنگال) (331،اترپردیش(223)اور آسام سے(60) لڑکیوں کواس کام سے آزاد کرایا گیا۔اس کام میں جھارکھنڈ (کے تین گاں دمکا، سمڈیگا اور گملا)سرِ فہرست ہے اوریہیں سے لڑکیوں کو رانچی لایا جاتا ہے ،پھر بذریعہ ٹرین دہلی بھیج دیا جاتا ہے۔ اس میں منافع زیادہ ہے اور خطرہ بھی کم ہے۔ ایک دلال کوقحبہ خانہ پر ایک لڑکی کو لانے کے صرف5000 سے1000 ہزارہی ملتے ہیں ،اسی لیے اس کاروبارمیں تیزی سے گراوٹ آرہی ہے جیساکہ یہ اعدادوشمار بتا رہے ہیں:
2010 میں کل 667یعنی (%65.4)لڑکیوں کو قحبہ خانہ میں ڈھکیلا گیا جب کہ 2011میں یہ%13.1 رہا ۔
لیکن بطور گھریلو کاموں کے لیے دلال ایک بچی کا 2000روپئے ماں باپ کو دیتے ہیں اور4000 سے 7000ہزار روپے ایجنسیوں سے وصولتے ہیں۔ ایجنسیاں 2,0000 سے3,0000 ہزارروپے گراہک سے لیتی ہیں اور زیادہ تر لڑکیوںکی تنخواہ کوبھی گھر بھیجنے کے نام پر ہڑپ کرجاتی ہیں، کبھی کبھار ہی پیسہ ان کے گھروں تک پہنچ پاتاہے ۔ ہر تین مہینے پر لڑکیوں کو نوکری بدلنے پر دبا ڈالاجاتاہے اور نئی نوکری کے بہانے ان سے موٹی رقم اینٹھی جاتی ہے ،اس میں ایک ایجنٹ نئی نوکری دلانے کے بہانے سال بھر میں تقریباً 6,0000 ہزار تک کما لیتاہے ۔
بعض لڑکیوں کو کچھ” معاملوں “کے لیے دہلی میں ہفتے بھر رکھ کر ٹریننگ بھی دی جاتی ہے اور اسی کے لحاظ سے ان کی تنخواہ متعین ہوتی ہے ۔تربیت یافتہ لڑکیوں کی5,500 ، نیم تربیت یافتہ کی3,500 اور غیر تربیت یافتہ کی 1,500ہزارروپے تنخواہ ہوتی ہے ۔
جب گراہک پلیسمنٹ ایجنسیوں سے ان معصوم،بے گناہ لڑکیوں کوبطور خادمہ اپنے گھر لے جاتے ہیں تو نہ صرف بے دردی سے مارا پیٹا جاتا ہے بلکہ ان کے جسم کو داغااور جلایابھی جاتاہے اور ذہنی وجسمانی جنسی زیادتی کی جاتی ہے ۔
 حال ہی میں دہلی میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جس میں وسنت کنج میں ایک گھر کی خادمہ کو نہ صرف مارا پیٹا جاتا تھا بلکہ اس کو پیشاب پینے پر مجبور کیا جاتا تھااور گرم توے سے جلایا بھی جاتا تھا۔اسی طرح ’دوارکا‘ میں پچھلے سال مارچ میں ایک ڈاکٹر جوڑے نے اپنے فلیٹ میں کام کرنے والی بچی کو جو صرف 13سال کی تھی،ایک کمرے میں 6دن کے لیے بند کر کے چھٹی منانے ’بینک کاک‘ چلے گئے تھے۔یہ تو چاول کے چند نمونے ہیں لیکن اس سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ صنفِ نازک کی موجودہ صورتحال کیا ہے اور ان کے ساتھ کس طرح غیرانسانی سلوک کیاجاتاہے۔
اس مسئلے میں حکومت کی جانب سے بھی اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔دہلی ہائی کورٹ نے گھریلو نوکرانیوں کو تحفظ دینے کے سلسلے میں ریاستی حکومت کو 2010 میں ہدایت دی تھی لیکن اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔گورمنٹ نے قانون دانوں سے اس مسئلے پر اگست 2012 میں مشورہ مانگا تھا لیکن اسے بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ہر کیس کے بعد معاملہ کچھ دنوں کے لیے اچھلتا ہے اور حکومت کچھ بیانات دیتی ہے ،عوام احتجاج کرتے ہیں اور پھر اگلے کیس تک کے لیے سو جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر اس پر کوئی قانون کیوں نہیں بن رہا اور سیاسی ٹھیکیدار وں نے اس کے خلاف اب تک کوئی بل کیوں نہیں پاس کیا کہ اس پر روک لگ سکے؟؟
عموماً غریب گھروں کی لڑکیاں ہی ان کا شکار ہوتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین غربت کی وجہ سے ان کو بیچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ہمارے یہاں کا موجودہ معاشی سسٹم ایسا ہے کہ جو امیر ہے وہ امیر سے امیر تر ہوتاچلا جارہاہے ،جو غریب ہے اس کی غربت میں روزبروز اضافہ ہورہاہے ۔
حکومت کم عمر بچے بچیوں سے کام لینے کے خلاف قانون توبناتی ہے لیکن غریبی کے اسباب پرتوجہ نہیں دیتی ہے ۔ ان کو تعلیم دلانے کی بات کرتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس کے گھر میں کھانے کو نہ ہو تووہ اپنے بچوںکو تعلیم کیسے دلائے گا ؟ وہ تو یہی چاہے گا کہ اس کی اولاد بھی کام کرے تاکہ گھر کا کام چل سکے۔ لمبی قید یا بھاری جرمانے کم عمر بچیوں سے کام لینے کو نہیں روک سکتے یہ تو اسی وقت ممکن ہوگا جب والدین کے پاس پیسہ ہو کہ وہ اپنے بچوں سے کام کرانے کے بجائے تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج سکیں ۔
اسلام نے اس کا حل زکوة اور وظیفہ کی شکل میں پیش کیا ہے کہ جو لوگ مال دار ہیں ، وہ اپنے مال میں سے غریبوں کا حق نکالیں تا کہ وہ بھی اس دنیا میں آرام و سکون سے رہ سکیںاور ان کے بچے بچیاں بھی بچپن ہی سے کام کرنے کے بجائے تعلیم حاصل کر سکیں۔واقعہ یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ میں نماز کے بعد جس تاکید و تکرار کے ساتھ قرآن مجید نے زکوة، صدقات ، انفاق ، یتیموں اور حاجت مندوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا ذکر کیا ہے ، کسی اور عمل پر اس اہمیت کے ساتھ زور نہیں دیا ہے ۔اس کے علاوہ اسلامی حکومت اس بات کی ذمہ دار ہوتی ہے کہ وہ ان کو وظیفہ دے۔حضرت عمر ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بچے کی پیدائش ہی سے وظیفہ مقرر کر دیتے تھے۔
دوسری بات یہ کہ اصحاب ثروت کی سوچ کوبھی بدلنا ہوگا ۔جتنے بھی اس طرح کے کیسز ہوئے ہیں، سب میں مجرم اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے عہدے پر فائز لوگ تھے ۔ روپے پیسے کی کمی نہ تھی لیکن تب بھی انہوں نے غریب بچیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا۔دہلی کے ایک بزنس مین نے ملک سے باہر جاتے وقت گھر کی دیکھ بھال کے لیے خادم کو صرف روپئے دیئے تھے۔
جب کہ اسلام نے ہمیشہ غریبوں سے حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دی ہے۔خود نبیِ کریم ﷺ نے اس کی بارہا تاکید کی ہے اورفرمایا: 
تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالی ان ضعفاءو غرباءکی وجہ سے تمہیں روزی دے رہے ہیں(بخاری)۔





No comments:

Post a Comment