Tuesday 31 December 2013

(Kya Hm Muslmano Ko Saal-e- Nao Ka Jashn Manana Chahye?) کیا ہم مسلمانوں کو سالِ نو کا جشن منانا چاہیے؟


اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی

تمام مذاہب اور قوموں میں مختلف طرح کے تیوہار اور خوشیاں منانے کے طریقے ہوا کرتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی پس منظر اور پیغام ہوتا ہے, جن سے نیکیوں کو ترغیب دی جاتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات و خرافات شامل کر دی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ چناں چہ دنیا جیسے جیسے ’مہذب‘ ہوتی گئی انسانوں نے ’کلچر اور آرٹ‘ کے نام پر نت نئے جشن اور تیوہار وضع کیے ۔ان میں سے ایک’ نئے سال کا جشن‘ بھی ہے۔
سالِ نو کے شروع ہونے میں چند دن رہ گئے ہیں ۔ لوگوں کو31 /دسمبر بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔بدقسمتی سے ہم مسلمانوں نے بھی غیروں کی نقالی میں اپنی اقدار وروایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے,جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظامِ تاریخ ہے ۔
مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظامِ تاریخ خود موجود ہے جو نبی کریمﷺ کی ہجرت سے مربوط ہے۔اس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے, جس کا ہم میں سے اکثریت کو علم ہی نہیں ہوپاتا۔ اگر کسی کو اس کی مبارک باد دی جائے تو وہ پہلے متغیّرپھر متحیّر پھر متفکّر ہو کر کہتا ہے کہ لیکن ابھی جنوری تو بہت دور ہے؟؟
سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان کیوں نئے سال کا جشن منائیں؟کیوں کہ اس رسم کو نہ تو آپﷺ نے اور نہ ہی صحابہ کرام ,خلفائے راشدین ,اموی, عباسی حکمرانوں نے انجام دیا۔ جب کہ اس وقت تک اسلام ایران عراق ,مصر, شام اور مشرقِ وسطیٰ کے اہم ممالک تک پھیل چکا تھا۔ اس لیے ہمیں غیروں کی اتباع اور ان کی مشابہت اختیار کرنے سے بچنا چاہیے ۔ حدیثِ نبوی ہے کہ :
جس نے بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے(ابوداود:4031)
عیسائیوں میں قدیم زمانے سے ہی نئے سال پر جشن منانے کی روایت چلی آرہی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں 25/دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی میں ’کرسمس ڈے‘ منایا جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہ کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔
نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائیٹوں اور قمقوں سے سجاکر 31/ دسمبر کی رات میں 12 بجنے کا انتظار کیا جاتا ہے ۔بارہ بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے ,کیک کاٹا جاتا ہے , آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹس کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتا ہے۔جس میں شراب وشباب اور ڈانس کا بھرپور انتظام رہتا ہے۔ کیوں کہ ان کے یہاں تفریح صرف دو چیزوں سے ہی ممکن ہے۔ اوّل عورت اور دوم شراب۔ان پر جتنی دولت صرف کی جاتی ہے , ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سے ایک پورے ملک کی غریبی دور کی جا سکتی ہے اور اسی طرح دوسرے بہت سارے مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔لیکن ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہی امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ کبھی ہوگا۔
یہود نصاریٰ اور دوسری قومیں مختلف طرح کے ’ڈے اور جشن‘ منایا کرتی ہیں جیسے مدر ڈے, فادر ڈے,ویلینٹائن ڈے, چلڈرن ڈے وغیرہ وغیرہ۔کیوں کہ ان کے یہاں رشتوں میں دکھاوا ہوتا ہے ۔ ماں باپ کو الگ رکھا جاتا ہے, اولاد کو بالغ ہوتے ہی گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور کوئی خاندانی نظام نہیں ہوتا ۔ اس لیے انہوں نے ان سب کے لیے الگ الگ دن متعین کر رکھا ہے مگر ہمارے یہاں تو ایسا نہیں ہے۔ اسلام نے سب کے حقوق مقرر کر دیئے ہیں اور پورا ایک خاندانی نظام موجود ہے اس لیے ہمیں ان دکھاوں کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مختلف طرح کے ڈے اور جشن منانے کی ضرورت ہے۔
البتہ نیا سال ہم مسلمانوں کو دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے:
1:ماضی کا احتساب
 نیاسال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کا موقع دیتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہو گیا اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ہمیں عبادات ,معاملات ,اعمال,حلال و حرام, حقوق اللہ اورحقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کی ویڈیو کو ریوائس کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں,کیوں کہ انسان دوسروں کی نظر سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تو چھپا سکتا ہے, لیکن خود کی نظر سے نہیں بچ سکتا۔اسی لیے آپﷺ نے فرمایا:
تم خود اپنا محاسبہ کرو،قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے(کنزل العمال:4403)
ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن لوگوں کے قدم اس وقت تک آگے نہ بڑھ سکیں گے جب تک کہ وہ ان پانچ سوالوں کے جواب نہ دے دیں۔اپنی عمر کس کام میں بسر کی؟اپنی جوانی کس کام میں صرف کی؟مال کس ذریعہ سے کمایا؟مال کو کس راہ میں خرچ کیا؟اور جو کچھ سیکھا اس پر کتنا عمل کیا؟(الترمذی:2416)
اس لیے ہم سب کو ایمانداری سے اپنا اپنا مواخذہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔قبل اس کے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے ۔اسی کو قرآن نے اپنے مخصوص انداز میں کہا:
"اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے(ہماری راہ میں ) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار! مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا؟کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہو جاوں؟ اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھراسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بخوبی باخبر ہے" (المنٰفقون:10,11)
2:آگے کا لا ئحہ عمل
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کی روشنی میں ہمیں منصوبہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح سے دور کیا جا ئے ؟دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟
انسان خطا کا پتلا ہے , اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی لیکن کسی غلطی کا مرتکب ہونا زیادہ بری بات نہیں ہے۔بری بات یہ ہے کہ اس سے سبق نہ حاصل کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے اوریہ منصوبہ بندی دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں ہوں۔جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:
پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کا فائدہ اٹھا لو : تمہارے بڑھاپے سے پہلے تمہاری جوانی (کا فائدہ اٹھا لو) ,اورتمہاری بیماری سے پہلے تمہاری صحت(کا فائدہ اٹھا لو),اورتمہاری غربت سے پہلے تمہاری مالداری(کا فائدہ اٹھا لو),اورتمہاری مشغولیت سے پہلے تمہاری فراغت(کا فائدہ اٹھا لو) ,اورتمہاری موت سے پہلے تمہاری زندگی(کا فائدہ اٹھا لو)(المستدرک الحاکم7846:)۔
اور یہ بھی طے ہے کہ اس دنیا کے اعمال ہی پر ہماری کام یابی اور ناکامی مشروط ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔اور یہ کہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی ۔پھر اسے پوراپورا بدلہ دیا جائے گا(النجم:39،40،41)
آخری بات
 ہم مسلمانوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم آنکھیں بند کر کے مغرب کے ہر عمل کے صرف ظاہری چیزوں کی نقّالی کرنے لگتے ہیں۔وہ لوگ نئے سال کے موقع پر جہاں ایک طرف جشن مناتے اور مستی کرتے ہیں ,وہیں دوسری طرف ماضی کی غلطیوں کا محاسبہ بھی کرتے ہیں اور ان کی اصلاح کے لیے منصوبے بنا کر اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ان کے منصوبے کیسے ہوتے ہیں اور اسلام کے مطابق ہوتے ہیں یا نہیں؟
جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔امریکہ نے اس پر ایٹم بم گرا کر اور اقتصادی پابندیاں لگا کر اس کی کمر توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن اس زندہ دل قوم نے انتھک محنت کر کے خود کو دوبارہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لا کھڑاکیا۔اسی طرح دوسری جنگِ عظیم کے بعد جرمن قوم نے کیا۔ان لوگوں نے ہماری طرح صرف جشن منا منا کر نہ تو ماضی کو رخصت کیا اور نہ ہی صرف جشن منا کر سالِ نو کو خوش آمدید کہا۔ 
ہمارا زوال کو سقوط بغداد(1258)سے شروع ہوتا ہے اس میں لگاتار گراوٹ ہی آتی جاتی ہے ,یہاں تک کہ 1924ءمیں( خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے سے) مکمل طور سے خاتمہ ہو جاتا ہے اور ایسا کہ آج تک دوبارہ اٹھ نہیں سکے ۔
ہم لوگوںکی کمی یہ ہے کہ ہم ان کے صرف غلط کاموں کو ےا تو اختیار کرتے ہیں یا صرف تنقید کرتے ہیں اور ان کی اچھائی, ایمانداری اور محنت کو آنکھ بند کر کے نظر انداز کر دیتے ہیں۔جب کہ کرنا یہ چاہیے کہ ان کی ترقی کے رازوں کو قرآن و حدیث اور شریعت کے پیمانے پر درست کر کے اختیار کر لیں۔جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔پھر جو بہترین بات ہواس کی اتباع کرتے ہیں۔یہی ہیں جنہیںاللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں۔(الزمر:18)
اسی سے ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں کام یابی ملے گی۔(انشاءاللہ)
٭٭٭٭
  


No comments:

Post a Comment