Tuesday 17 December 2013

(Muslim Mua`shara Aor Safai Suthraai) مسلم معاشرہ اور صفائی ستھرائی


اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی

موجودہ دور میں تیز رفتار زندگی ، نت نئی ایجادات اور قدرتی وسائل کے حد سے بڑھے ہوئے استعمال نے ماحول اور فضا دونوں کو آلودہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں صفائی اور صحت کے نہ صرف بے شمار مسائل سامنے آرہے ہیں بلکہ مختلف بیماریاںبھی پیدا ہو رہی ہیں ۔اسی وجہ سے لوگوں میں صفائی ستھرائی کی اہمیت کا احساس بڑھ گیا ہے ،مگر مسلمان اس پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔
ہم لوگ اس سے غافل ہیں جب کہ اسلامی نظامِ زندگی میں صفائی ستھرائی کو اہم مقام حاصل ہے۔اسلام نے انسانوں سے یہی مطالبہ کیا ہے کہ ان کی پوری زندگی پاک و صاف ہونی چاہیے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین(البقرة:222)
"اللہ تعالی ان لوگوں کو پسند کرتا ہے ، جو توبہ کا رویہ اختیار کریں اور خوب پاکیزہ رہیں"۔
ایک حدیث میں طہارت و نظافت پر نبیِ کریمﷺ نے فرمایا:
الطھور شطر الایمان (مسلم:223)
"پاکی نصف ایمان ہے"
قرآن و حدیث نے طہارت ونظافت پر کتنا زور دیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بغیر عبادت کرنے سے روک دیا گیا اور کہا کہ عبادت پاکی کی حالت میں اور پاک جگہ ہی کی جاسکتی ہے۔ارشادِ ربانی ہے:
و ربک فکبر ۔ و ثیابک فطھرو الرجز فاھجر(المدثر:(3,5
"اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو، اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے دور رکھو"
ایک دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
و عھدنا الی ابراہیم و اسمٰعیل ان طھرا بیتی للطائفین و العٰکفین و الرکع السجود(البقرة:125)
"اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف ، اعتکاف اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو"۔
باوجود اتنی تاکید کے ہمار ایہ حال ہے کہ جب سابق اسرائیلی وزیر اعظم "ایریل شیرون" اپنے ایک وفد کے ساتھ ہندوستان کے دورے پر آیا تو اس نے بال ٹھاکرے سے پوچھا کہ یہاں پر مسلمانوں کی آبادی کہاں ہے؟بال ٹھاکرے نے تفصیلی جواب دینے کے بجائے صرف ایک جملے"جہاں جہاں گندگی دکھائی دے سمجھ لیں کہ یہ مسلم علاقے ہیں" پر اکتفا کیاتھا۔اسی طرح ابھی کچھ دن پہلے رمضان کی آمد سے قبل ایک غیر مسلم لیڈر نے یہ کہہ کر ہنگامہ مچا دیا تھا کہ "رمضان گندگی اور کوڑا کرکٹ پھیلانے کا مہینہ" ہے۔کسی زمانے میں مسلم آبادیوں کی پہچان مساجد کے "مینار" ہوا کرتے تھے، لیکن آج گندگیوں کے انبارہماری شناخت بن گئے ہیں۔
ہم ان مثالوں کو تسلیم کریں یا نہ کریں مگر سچائی یہی ہے۔اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہونے ہی کی وجہ سے اسلام بدنام ہو رہا ہے اور جیسے جیسے معاشرے میں برائیاں پھیلتی جارہی ہیں ویسے ویسے ہم لوگو ں پر طنز کرنے کے اسباب پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ 
جارج برنارڈ شاہ اسلام سے بہت نفرت کرتا تھا لیکن جب عبدالعلیم میرٹھی صدیقی سے اس کا بحث و مباحثہ ہوا تو وہ اسلام کی حقانیت اور اس کی تعلیمات کا قائل ہوگیا لیکن اس نے آخر میں ایک جملہ کہا جو ہم سب کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے:
"I Love Islam But I Hate (Current) Muslims Becouse They Do Not Follow Islam Properly"                       
 "میں اسلام سے محبت کرتا ہوں لیکن مجھے (موجودہ)مسلمانوں سے نفرت ہے ، اس لیے کہ وہ اسلام پرکما حقہ عمل پیرا نہیں"
حقیقت یہ ہے کہ ایسے طنزیہ جملے سننے کے اسباب ہم نے ہی تو انہیں یا ان جیسے دوسرے لوگوں کو مہیا کرایا ہے ۔جو مذہب انسان کے ظاہر و باطن کو سنوارنے آیا ہو ، اسی کے پیروکاروں کی شناخت اس کے متضاد چیزوں سے ہو رہی ہو تو یہ نہایت ہی شرم کی بات ہوگی۔
مسلمانوں کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ ان کی شناخت صفائی کے علمبردار ہونے کے بجائے نجاست اور گندگی کے ڈھیروں میں رہنے والوں سے ہو رہی ہے۔اس کی مثال مکانات، محلوں،راستوں ،گلیوں، سڑکوں اور مسلم علاقوں کے ماحول میں دیکھی جاسکتی ہے۔
کیا یہ سچائی نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے عمومی طور پر مسلمانوں کو بھی مال و دولت سے نوازا ہے؟ جس کا نظارہ محلوں میں تعمیر شاندار مکانات سے کیا جا سکتا ہے لیکن جب ان محلوں کی دیکھا جاتا ہے تو یہ اس کہاوت پر پورا اترتے ہیں کہ:
 ”انسان کی شخصی زندگی کے اثرات اس کے آس پاس کے ماحول میں نمایاں ہوتے ہیں“
ہر طرف کوڑوںکا ڈھیر، بدبو، برسات ہو یا نہ ہو سڑکوں پر گندے پانی کا جمااور گٹر سے 'نہریں' ابلتی رہتی ہیں۔اگر کسی کو گذرنا ہو تو اسی میں ڈبکی لگا کے جائے یا پھر راستہ تبدیل کرے۔اس کے برعکس غیر مسلموں کی آبادیاں صاف ستھری ہوا کرتی ہیں۔
 اعتراض کیاجا سکتا ہے کہ اس میں حکومت اور میونسپل والوں کی غلطی ہے ،کیوں کہ وہ مسلم محلوں اور علاقوں سے تعصب برتی ہے اور ان جگہوں کی صفائی ستھرائی کو جانے بوجھے نظر انداز کرتی ہے لیکن کیا ہماری ذمہ داری پانچ فیصد بھی نہیں ہے؟ کیا ہم دوسروں کو ذمہ دار ٹھیرا کر خود بری الذمہ ہو سکتے ہیں ؟؟کیا ہم لوگ اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ ہر ایک اپنے گھر کے سامنے کی ہی صفائی کر لیا کرے؟ظاہر ہے کہ گندگی اور کوڑا کرکٹ پھیلانے والے ہم ہی لوگ تو ہیں؟
معلوم ہوا کہ پورے گھر کی صفائی کی اور کوڑا کرکٹ گھر کے باہر پھینک دیا یا رات کے اندھیرے میں پلاسٹک میں بھر کے پڑوسی کے گھر کے سامنے اچھال دیا ۔اسی طرح اپنے گھر کے سامنے کی صفائی کی اور کوڑا پڑوس والے گھر کے سامنے 'کھسکا' دیا۔گھروں کو چھوڑیے ، مسجدوں کا کیا حال ہے؟ٹوائلٹ اور باتھ روم اتنے گندے رہتے ہیں کہ جانے کی طبیعت گوارا نہیں کرتی۔یہی حال 'مسلم ہاسٹل' میں رہتا ہے ۔اب کیا اس میں بھی حکومت کا عمل دخل اور میونسپل والوں کی 'سازش و تعصب' ہے؟؟
ایسے ہی مسلم علاقوں کی گلیوں اور سڑکوں پر بھی' نہریں' بہتی رہتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دوکان دار حضرات اور لوگ پلاسٹک یااسی طرح کی چیزیںبجائے کوڑے دان میں ڈالنے کے باہر اچھالتے رہتے ہیں جو نالیاں جام کر دیتے ہیں ،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نالیاں اور سیور ابلتے رہتے ہیں۔اب اس کا الزام کس کو دیا جائے؟ خود کو یا میونسپل والوں کو؟؟اس کو بھی چھوڑیے۔ ہم لوگ مختلف موضوعات پر پروگرام ، کانفرنس اور سیمینار وغیرہ منعقد کراتے ہیں ، اس کے لیے فائیو اسٹار یا مہنگے ہال بک کراتے ہیں۔پروگرام تک تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہتا ہے لیکن جیسے ہی کھانے پینے کا پروگرام شروع ہوتا ہے ، ہمارا شرافت کا لبادہ اتر جاتاہے ۔ایک دوسرے کو ڈھکیلنا،اس میںغصہ کا اظہار،کھانے کی بربادی اور ڈسپوزل وغیرہ کو بجائے ڈسٹ بن میں ڈالنے کے ادھر ادھر زمین پر اچھال دینا اب کیا اس میں بھی حکومت کی 'سازش' رہتی ہے؟اس سے لوگوں میں کیا پیغام جاتا ہے؟؟ یہی نہ کہ مسلمان تقریریں تو بڑی اچھی کر لیتے ہیں لیکن ان باتوں کا عملی نمونہ پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
ایسے ہی بسوں اور ٹرینوں میں جب سفر کرتے ہیں توشروع میں تو صفائی کا خیال رکھتے ہیں لیکن جیسے جیسے منزل قریب آتی ہے ،کوڑا کرکٹ آس پاس پھیلانا شروع کر دیتے ہیں کہ اب تو ہمیں یہاں بیٹھنا نہیں ہے ،بقیہ کسی کو تکلیف ہو تو ہوا کرے اپنا کام تو نکل گیا نہ یہی  ذہنی سوچ ہمارے زوال کا ایک اہم سبب ہے۔
 صفائی ستھرائی میں بجائے اس کے کہ حکومت یا میونسپلٹی والوں کو کوسا اور سنایاجائے ،اگرچہ ان کی بھی غلطیاں رہتی ہیں ،اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن بہتر ہے کہ اپنی بھی ذمہ داریوں کو سمجھاجائے اور اس کو مختلف ذرائع کی مدد سے ادا کیا جائے۔
علامہ شبلی نعمانی ؒ جب ترکی کے مشہور شہر استنبول گئے تو انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے محلے گندے اور غیر مسلموں کے محلے صاف ستھرے ہیں۔ان کو اس پر بڑا تعجب ہوا ، اس لیے کہ وہاں تو مسلمانوں ہی کی حکومت تھی، یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت اور میونسپلٹی والے مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔راز یہ کھلا کہ سرکاری ملازم تو مسلم، غیر مسلم دونوں محلوں میں یکساں صفائی ستھرائی کا کام انجام دیتے ہیں لیکن غیر مسلم حضرات ان ملازموں کو اپنی طرف سے زیادہ پیسے دے کر صفائی کرا لیتے ہیں ، اس لیے ان کے محلے زیادہ صاف ستھرے نظر آرہے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے یہاں بھی حکومت اور میونسپلٹی والوں کو کوسنے یا الزام دینے کے بجائے محلے والے چند روپئے مزید دے کر صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں۔میرے خیال سے یہ کام زکوة، سود اور چندے کی رقم سے بھی ہو سکتا ہے۔
مسلم علاقوں سے منتخب مسلم نمائندے بھی اس کے ذمہ دار ہیں ۔ وہ اپنے علاقے کی صفائی ستھرائی پر توجہ ہی نہیں دیتے ہیں اور غیروں کی آبادیوں میں ہاتھ جوڑے پھرتے ہیں ،اسی لیے وہ لوگ ان پر دبا ڈال کر اپنے علاقے کو صاف ستھرا رکھتے ہیں اور اپنوں کا حال یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کے پاس اپنے مسائل لے کر جاتے ہی نہیں اور گئے بھی تو کوئی سنوائی نہیں ہوتی کہ ان کا ووٹ آخر ہمارے سواکہاں جائے گا؟؟
آخری بات 
اسلام نے صفائی پر اتنا زور کیوں دیا ہے؟ درحقیقت اسلام میں طہارت و نظافت کا بہت وسیع پہلو ہے۔اس میں ہماری طرزِ زندگی، تہذیب وتمدن اور حسن ِ معاشرت سب آجاتے ہیں۔ یہی چیز دعوت الی اللہ میں کارگر ثابت ہوتی ہے اور لوگوں میں اسلام کی جاذبیت کا سبب بنتی ہے، کیونکہ جب تک ہم اور ہمار اماحول حسنِ اخلاق کا نمونہ اور صفائی ستھرائی کا مرجع نہ بن جائے،ہم سے کوئی بھی قریب نہیں ہو سکتا۔
 *****


No comments:

Post a Comment