Saturday 3 May 2014

(A True Story) انسان نما بھیڑیے-ایک سچا واقعہ

Osama Shaoaib Alig
Research Scholar, Jamia Millia Islamia
New-Delhi
(ہمارےمعاشرےکاایک سچاواقعہ جس میں شرک اور بدعات سے اجتناب کا ایک پیغام ہے ۔اس میں صرف نام اور جگہ کی تبدیلی کی گئی ہے)
حسن پورایک بڑا گاوں تھا جس میں زمیندار شجاعت علی رہتے تھے ۔ان کے اندر زمینداروں کی ساری روایتی خصوصیات موجودتھیں۔لمبا قد،چوڑے شانے لمبی مونچھیں اور چہرے سے رعب ٹپکتا تھا۔پورے گاوں میں آپ کا حکم چلتا تھا۔جب یہ اپنے جلال میں ہوتے تھے تو حویلی میں نوکروں کی روح کانپتی تھی ۔ان کی بیگم قیصرجہاں بھی ایک بڑے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ان کے والدبھی زمیندار تھے ۔
شجاعت علی کی ایک بیٹی ماہ رخ خانم جو 18 سال کی تھی اور ایک بیٹا شمشیر خان جو 12 سال کا تھا ۔بیٹابالکل اپنے باپ پر گیا تھا اور بیٹی کو جہاں اپنے باپ کا مزاج ملا تھا وہیں حسن و خوبصورتی اور سیرت ماں سے ملی تھی ۔بالکل اپنے نام کا عکس تھی۔لمبا قد ،گلابی رنگ ،تیکھے نقوش یعنی مکمل طور سے قدرت کے حسن کا شاہکار تھی۔پھر دیہات کی صاف ستھری اور صحت بخش ہوا نے حسن کو سونے سے کندن بنا دیا تھا۔چہرے پر جوانی کا رنگ ایسا چڑھا کہ جو بھی دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا ۔حالاں کہ ابھی زیادہ عمر نہیں ہوئی تھی مگر شادی کے رشتے آنے لگے تھے ۔شجاعت علی خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔اللہ کا دیا ہو سب کچھ تھا اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا مگر کہتے ہیں نہ کہ زمانہ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ۔اور نہ ہی خوشیاں بہت دنوں تک باقی رہتی ہیں۔زمینداری میں لڑائیاں عام بات ہوا کرتی ہے۔زمین کا مسئلے کو لے کر لڑائی ہوئی ۔اور اسی لڑائی نے شجاعت علی کو نگل لیا ۔
بیگم قیصر جہاں ٹوٹ کے رہ گئیں ۔لیکن وقت رفتہ رفتہ سارے غم بھر دیتا ہے ۔اور مالی طور پر بھی کوئی تنگی نہ تھی ۔شوہر زمیندار تھے تو گھر بیٹھے ہزاروں کی آمدنی ہوا کرتی تھی۔اس لیے کوئی خاص دقت ہوئی نہیں ۔ بیٹا گھر میں موجود ہی تھا ۔اب اٹھتے بیٹھتے بیگم قیصر جہاں کے دماغ میں ایک ہی بات گونجتی رہتی تھی کہ جلد سے جلد ماہ رخ اپنے گھر کی ہو جائے۔مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ۔اچانک سے ایک دن ماہ رخ کو دورے پڑنا شروع ہو گئے ۔شروع شروع میں کسی نے خاص توجہ نہ دی۔مگر پھر یہ بڑھتے ہی گئے ۔ایک دم سے دورا پڑتا اور پورا بدن اینٹھ جاتا اور ماہ رخ مچھلی کی طرح تڑپنے لگتی اور اس دوران عجیب وغریب زبان میں اول فول بکنے لگتی۔دس بیس منٹ یہ حالت رہتی اور پھر اپنے آپ ٹھیک ہو جاتی۔بیگم قیصرجہاں پریشان ہو گئیں ۔ڈاکٹر پہ ڈاکٹربدلے گئے مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا ۔رفتہ رفتہ بات پھیلنے لگی ۔لڑکی کا معاملہ تھا ۔بیگم قیصرجہاںکو ڈر تھا اگریہی حالت رہی تو شادی ہونا مشکل ہو جائے گی۔اوپر سے عیادت کے لیے آنے والی عورتیں جن بھوت آسیب کا سایہ کی بات کہنے لگیں تھیں ۔(ویسے بھی گاں دیہات کی عورتوں کو جب کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ہے تو اس کوجن بھوت کی طرف منسوب کرکے مطمئن ہو جایا کرتی ہیں )۔ہندوستان ہی کیا پورے بر صغیر میں اوہام پرستی اور جن بھوت کے قصے عام ہیں ۔بیگم قیصرجہاں کو ان سب باتوں پر یقین نہیں تھا مگر جب بیماری کو ایک سال گزر گیا اور ڈاکٹر بھی کچھ نہیں بتا پائے اور عورتوں کے قصے جاری ہی تھے تو ان کو بھی رفتہ رفتہ آسیب ہونے کا یقین ہوتا چلا گیا اور اب عاملوں ،سیانوں اور جھاڑ پھونک کرنے والوں کے چکر لگنے شروع ہو گئے ۔اور جہاں بھی عامل کا پتہ چلتا فورا اس کے یہاں جا کر اس سے علاج شروع کرا دیتی تھیں مگر بات جہاں کی تہاں تھی۔
ہر عامل ڈھیر سارے دعووں سے علاج شروع کرتا تھا اور اس کی تگڑی فیس بھی وصول کرتا تھا۔اور” کالے بکرے،ناریل،لوبان،اگربتیاں اور ڈھیر سارا غلہ“ اور پتہ نہیں کیا کیا الم غلم منگا کر کام کا آغاز کرتا اور پھر دعوی کرتا کہ سخت مقابلے کے بعد جن کو بھگا دیا ہے مگر ماہ رخ کو کچھ دن بعد پھر دورے پڑنے شروع ہو جاتے۔اسی دوران حویلی کے ایک ملازم نے ایک بہت بڑے’ شاہ صاحب‘ کا پتہ بیگم قیصرجہاں کو بتایا اور ان کی تعریف میں زمین آسمان ایک کردیا۔اندھا کیا چاہیے دو آنکھیں ۔بیگم قیصرجہاں فورا تیار ہو گئیں اور بیٹی کو لے کر اس مشہور شاہ صاحب کے پاس چل دیں۔ شاہ صاحب کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی کہ بہت تہجد گزار ہیں اور پنج وقتہ نمازی بھی ہیں (جو اپنے حجرے ہی میں ادا کرتے تھے)مسجد سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔اور کہا جاتا تھا کہ ایک خاص نماز وہ کنویں میں لٹک کر پڑھتے تھے اور اگر اس دوران کسی کی نظر ان پر پڑ جاتی تھی تو وہ ان کے جاہ و جلال کا دیوانہ ہو جاتا تھا اور یہ دیوانے سب کچھ تیاگ کر ان کے’ در‘ کے ہو کر رہ جاتے تھے (یہ الگ بات ہے کہ یہی لوگ شاہ صاحب کا کاروبار چلاتے تھے اور انہیں کے تیار کردہ تھے)۔
بہرحال بیگم قیصرجہاں اپنی بیٹی کو لے کر ان کے دربار میں پہنچ گئیں اور اپنی باری پر جب اندر گئیں تو شاہ صاحب کو مراقبہ میں پایا ۔بیگم صاحبہ نے سلام کیا اور اپنی مشکل بتانے کے لیے اسٹارٹ لینا چاہا تھا کہ شاہ صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور آنکھ کھول کر خود ہی بیگم قیصرجہاں کے بارے میں اور ان کے شوہر کے بارے میں اور حویلی کی باتوں کو بیان کرنا شروع کر دیا۔(وہ ساری باتیں جو ان کو بیگم قیصرجہاں کے ملازم نے ہی بتائیں تھیں)اور بیگم صاحبہ کا یہ حال تھا کہ حیرت کے مارے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی کہ اف!کس قدر پہنچے ہوئے ہیں یہ حضرت!!اور مارے عقیدت کے فورا اپنا سر شاہ صاحب کے قدموں پر رکھ دیا اور پھوٹ پھوٹ کے رونا شروع کر دیا۔اپنے آنسوں سے شاہ صاحب کے پیر دھونے لگیں ۔بڑی مشکل سے شاہ صاحب نے ان کو اٹھایا ۔بیگم قیصرجہاں نے سارے حالات بیان کیا تو شاہ صاحب پھر مراقبے میں غرق ہو گئے اور 10 منٹ بعد آنکھیں کھولی اور ناامیدی اور مایوسی سے فرمایا کہ آپ نے بڑی دیر کر دی ہے ۔آپ کی بچی پر” شاہ جنات کا سایہ “ہو گیا ہے اور وہ بہت دنوں سے اس پر قابض ہے اس کو چھڑانا بڑی جان جوکھم کا کام ہے ۔بیگم صاحبہ گڑگڑا اٹھیں کہ حضرت آپ کے بس میں سب کچھ ہے آپ سب کچھ جانتے ہیں آپ کچھ بھی کریے اور میری بیٹی کو بچا لیجئے میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی اور روپیہ پیسہ کی فکر مت کریے جتنا بھی ہو گا سب میں دوں گی۔
شاہ صاحب کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ دوڑ گئی اور بولے آپ کو پتا ہے کہ میں روپیہ کی طرف دیکھتا بھی نہیں اور یہ بات درست بھی تھی شاہ صاحب ایک روپیہ خود نہیں لیتے تھے البتہ ان کے ’چیلے چپاڑے ‘بڑی باریک چالوں سے اور نفسیاتی حربوں سے لوگوں کی جیب سے ایسے پیسہ نکلواتے تھے کہ لوگوں کو احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ شاہ صاحب نے روپیہ لیا ہے۔بیگم صاحبہ نے گڑگڑاکے کہا کہ غلطی ہو گئی معاف کر دیں اور اللہ کے نیک بندے تو ایسے ہی ہوتے ہیں جو انسانوں کی ’بے لوث خدمت‘ کرتے ہیں ۔آپ ہم بے سہارا کی مدد کریے ۔بیگم صاحبہ شدت جذبات سے بلک بلک کے رو پڑیں۔شاہ صاحب نے کہا اچھا بی بی ذرا اپنا ہاتھ تو دکھانا ۔اور بڑی بے نیازی کے ساتھ اپنا ہاتھ ماہ رخ کی طرف بڑھا دیا ۔ماہ رخ نے شرماتے ہوئے اپنا ہاتھ شاہ صاحب کی مضبوط گرفت میں دے دیا۔ہاتھ تھا یا آگ کا انگارہ اور اس کے ساتھ ہی شاہ صاحب کا دماغ آگ سے جل اٹھا اور ان کے سفلی جذبات میں آگ لگ گئی ۔ماہ رخ کے ہاتھ نے انہیں ایک سیکنڈ میں ہی بتا دیا تھا کہ اصلی بیماری کیا ہے مگر انھوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔اس دوران ایک بار بھی انھوں نے ماہ رخ کا چہرا نہیں دیکھا۔خوبصورت ہاتھ ہی نے بتا دیا تھا کہ برقع کے اندر کیا ہو گا؟وہ اس میدان کے پرانے کھلاڑی تھے ،جانتے تھے کی ذرا سی جلد بازی بنا بنایا کھیل بگاڑ دے گی۔معصوم اور بھولی بھالی عورتوں کا شکار کرنے میں تو انھیں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ چنانچہ ایک گہری سانس لی اور فرمایا اچھا بی بی ذرا اپنی آنکھ تو دکھانا انھوں نے سپاٹ اور غیر جذباتی لہجے میں کہا۔اس کے لیے ان کو بہت محنت کرنی پڑ رہی تھی۔ماہ رخ گھبرا گئی وہ ایک سیدھی سادھی لڑکی تھی ۔غیر مردوں کے سامنے اس نے آج تک چہرا نہیں کھولا تھا وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ بیگم قیصرجہاں نے کہا بیٹی!سن نہیں رہی ہو حضرت کیا’ حکم‘ دے رہے ہیں؟بیگم قیصرجہاں نے بے چینی سے پہلو بدلتے     ہوئے بیٹی کو ڈانٹ پلائی۔ماہ رخ نے گھبرا کر جلدی سے نقاب الٹ دیا اور نگاہیں جھکا لیں۔شاہ صاحب کی آنکھ کھلی کی کھلی رہ گئی اور وہ مارے حیرت کے گنگ ہو کر رہ گئے ۔سب کچھ ناک نقشہ، رنگ روپ سب ان کی بہن مہ جبیں جیسا تھا جو کہ ان سے آج سے پندرہ سال پہلے بچھڑ گئی تھی ۔جس کے ساتھ اسی کے کلاس میٹ نے پہلے تو پیار کا ناٹک کھیلا اور پھر اس کی عصمت لوٹ لی تھی۔جس کو ان کی بہن برداشت نہ کر سکی تھی اور اس نے خود کشی کر لی تھی۔آج وہی ماہ رخ کی شکل میں ان کے سامنے موجود تھی اور ان کو لگا کہ وہ بھی اسی لڑکے کا کردار ادا کرنے جا رہے ہیں جس نے ان کی بہن کو ان سے محروم کر دیا تھا ۔کیا پھر ایک بار وہی کہانی دہرائی جائے گی؟اور کیا پھر آج ایک مہ جبیں ہوس کی بھینٹ چڑھ جائے گی؟ ان کے دل میں خیالات کی آندھیاں چلنے لگیں اورآخر کار باطل کو شکست ہوئی، شیطان ہارگیا۔اور شاہ صاحب زور سے چیخ پڑے ہر گز نہیں بیگم قیصرجہاں اور ماہ رخ ڈر کے اچھل پڑیں اور بیگم قیصرجہاں کانپتے ہوئے پوچھنے لگیں کہ کیا ہوا حضرت ؟؟
ہاں کیا؟؟ شاہ صاحب جیسے ہوش میں آ گئے اور کہا کچھ نہیں بی بی سب ٹھیک ہے اور انھوں نے ایک لمبی ٹھنڈی سانس لی اورماہ رخ سے کہا کہ تم ذرا باہر جا اور پھر انھوں نے بیگم قیصرجہاں سے کہا کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا کہ بچی پر’ شاہ جنات کا سایہ‘ ہے ۔آپ کی بچی کی صحت غیر معمولی طور پر اچھی ہے اور اس کی اب تک شادی ہو جانی چاہیے تھی ۔آپ جلد سے جلد شادی کرا دیجیے سارے دورے خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے اور کہا کہ میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے گا کہ کبھی کسی شاہ یا عامل کے پاس نہ تو خود جائیے گا اور نہ ہی اپنی بچی کو لے جائیے گا ورنہ پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔یہ دنیا بہت ہوس پرست شکاریوں سے بھری پڑی ہے اور جن کا کام آپ کی طرح معصوم عورتوں اور لڑکیوں کو اپنے جال میں پھسانا ہوتا ہے اور پھر وہ عورتیں اور لڑکیاں مال و عزت دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔دنیا اور آخرت دونوں سے جاتی ہیں۔میری بہن آپ کی بیٹی سی مشابہ ہے تو مجھے احساس ہو گیا کیوں کہ اس کو بھی ایک انسان نما بھیڑیے نے برباد کر دیا تھا۔کسی بھی مرد کے ’پرنور چہرے‘ اور’ پر تقدس حلیہ‘ سے دھوکا نہ کھانا۔مرد بہرحال مرد ہوتا ہے چاہے جوان ہو یا بوڑھا۔جو عامل یا شاہ نامحرم عورتوں لڑکیوں کو بے پردہ اور تنہائی میں دیکھنے کا خواہش مند ہو وہ کیسے نیک اور پاکباز ہو سکتا ہے؟اور نہ ہی اس کی نیت درست ہو سکتی ہے۔آپ نے غلطی کی جو میرے پاس چلی آئیں اب آپ جایئے اور میری باتوں کو یاد رکھیے گا ۔یہ کہتے ہوئے عامل بابا باہر نکل گئے اور بیگم قیصرجہاں جو خوف اور شکوک وشبہات سے کانپ رہی تھیں اپنی بیٹی ماہ رخ کو ساتھ لیے واپس گھر آگئیں ۔اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ بیٹی کی عزت بچ گئی اور اللہ تعالی نے میری لاج رکھ لی۔
مگر ضروری نہیں ہے کہ ہر بار عزت محفوظ رہ جائے اور شیطان کا حملہ ناکام ہو جائے اس لیے اس سے سبق لے کر ان تمام جگہوں پر جانے سے اجتناب کرنا ہوگا۔اور یہ جائز بھی نہیں ہے ۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ:
سئل النبی عن النشرة فقال!ھو من عمل الشیطان ﴿ ابوداﺅد:3868 )
 آپ ﷺ سے نشرة(یعنی جادو کا علاج جادو کے ذریعہ کرنا)کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا!یہ شیطانی کام ہے۔
البتہ مسنون دعاں،اذکارو وظائف اور شرعی دم کے ذریعہ ضرورت پڑنے پر علاج کیا جا سکتا ہے۔
جہاں تک ان دوروں کی بات ہے تو یہ دورے (یہ ایک بیماری ہے جسے اختناق الرحم کہا جاتا ہے)عموما نازک مزاج اور مقوی، مرغ مسلم،روغن والی غذائیں کھانے اور ورزش ،بھاگ دوڑ نہ کرنے والیں غیر شادی شدہ لڑکیوں پر پڑتے ہیں جس میں مریضہ بے قابو ہو جاتی ہے اور اول فول بکنے لگتی ہے جس سے جاہل عوام یہ سمجھ بیٹھتی ہے کہ جن کا سایہ ہے اور پھر عامل،پیر، شاہ صاحب اور مزاروں کے چکر لگنے شروع ہو جاتے ہیں جس میں مال کی بربادی تو ہوتی ہی ہے اور عصمت و عفت کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں۔جب کہ عموما اس کا آسان علاج شادی ہے۔ہم سب کو اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ usama9911@gmail.com


No comments:

Post a Comment