Monday, 27 January 2014

(Islam Me Valentine Day Ka Tasaoor) اسلام میں ویلینٹائن ڈے کا تصور




 اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی


ویلینٹائن ڈے اصلاً رومیوں کا تہوار ہے جس کی ابتدا تقریباً 1700سو سال قبل ہوئی تھی۔اہلِ روم میں 14 فروری کو ’یونودیوی‘ کی وجہ سے مقدس مانا جاتا تھا اور اس دیوی کو ’عورت اور شادی بیاہ کی دیوی‘ سمجھا جاتا تھا، اس لیے ان لوگوں نے اس کو محبت اور شادی کا دن ٹھہرا لیا۔بعد میں اسی دن ایک خاص واقعہ پیش آیا۔
 ایک روایت کے مطابق جب سلطنت روم میں جنگوں کا آغاز ہوا تو شادی شدہ مرد اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر جنگوں میں شریک نہیں ہونا چاہتے تھے۔ نوجوان بھی اپنی محبوباؤں کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ جنگوں کے لیے کم افراد کی دستیابی کی وجہ سے شہنشاہ کلاڈئیس (Claudius) نے حکم دیا کہ مزید کوئی شادی یا منگنی نہیں ہونی چاہیے ،لیکن’ ویلنٹائن نامی‘ ایک پادری نے اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ طریقہ سے شادیوں کا اہتمام کیا۔ جب شہنشاہ کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو قید کردیا۔ جو کچھ اس نے نوجوان عاشقوں کے لیے کیا تھا، اسے یاد رکھا گیا اور آج اسی نسبت سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔
ایک دوسری روایت کے مطابق اس کا آغاز’رومن سینٹ ویلنٹائن‘ کی مناسبت سے ہوا جسے 'محبت کا دیوتا' بھی کہتے ہیں۔اسے مذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں پہلے قید میں رکھا گیا، پھر سولی پر چڑھا دیا گیا۔ قید کے دوران ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی۔ سولی پر چڑھائے جانے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کے نام ایک الوداعی محبت نامہ چھوڑا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا ’تمہارا ویلنٹائن‘۔ یہ واقعہ 14/ فروری 279ءمیں پیش آیا۔ اسی کی یاد میں انہوں نے 14/ فروری کو یومِ تجدید ِمحبت منانا شروع کردیا۔
بریٹانیکا‘میں ویلنٹائن ڈے کا پس منظر ذرا مختلف انداز میں ملتا ہے :
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا(1997ئ) میں شائع ہونے والے انسائیکلو پیڈیا آف کیتھولک ازم( Catholicism ) کے بیان کے مطابق سینٹ ویلنٹائن کا اس دن سے کوئی تعلق نہیں ہے،البتہ ’ویلنٹائن ‘نام کے دو مسیحی اولیا (Saints) کا نام ملتا ہے۔ ان میں سے ایک کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ روم کا ایک پادری تھا جسے رومی دوسرا’ طرنی‘ (Terni) کا ایک بشپ تھا جسے لوگوں کو شفابخشنے کی روحانی طاقت حاصل تھی۔ اسے بھی کئی سال پہلے ’شہید‘ کردیا گیا تھا۔ لیکن یہ ابھی تک طے نہیں ہو سکاہے کہ ایک سینٹ ویلنٹائن تھا یا اس نام کے دو افراد تھے؟ البتہ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ ان دونوں کا محبت کرنے والے جوڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ محبت کے پیغامات یا تحائف بھیجنے کا رواج بعد میں غالباً ازمنہ وسطیٰ میں اس خیال کے تحت شروع ہوا کہ14/ فروری پرندوں کی جنسی مواصلت کا دن ہے۔ مسیحی کیلنڈر میں یہ دن کسی سینٹ کی یاد میں تہوار کے طور پرنہیں منایا جاتا۔(The Harper Loll ins Encyclopaedia of Catholicism: P.1294)
یہ ہے اس تہوار کی اصلیت۔لیکن جنسی آوارگی، بیہودگی اور خرافات کو مغربی ذرائع ابلاغ کس طرح ایک ’مقدس تہوار‘ بنا دیتے ہیں، اس کی واضح مثال ’ویلنٹائن ڈے‘ ہے۔ان کی تفریح اور تہوار میں تین چیزوں کا ہونا لازمی ہے یعنی شراب ، موسیقی اور عورت۔
 ایک زمانے تک یورپ میں بھی ’ویلنٹائن ڈے‘ کو’ آوارہ مزاج نوجوانوں کا عالمی دن‘ سمجھا جاتا تھا، مگر آج اسے ’محبت کے متوالوں‘ کے لیے ’یومِ تجدید ِمحبت ‘کے طور پر منایا جانے لگا ہے۔ اب بھی یورپ اور امریکہ میں ایک بڑی تعداد ’ویلنٹائن ڈے‘ منانے کو برا سمجھتی ہے، مگر ذرائع ابلاغ ان کے خیالات کو منظر عام پر نہیں آنے دیتے۔مغربی ذرائع ابلاغ اخلاقی نصب العین کے مقابلے میں ہمیشہ بے راہ روی کو فروغ دینے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
مسلمانوں میں بھی دیکھتے ہی دیکھتے جس طرح ’ویلنٹائن ڈے‘ جدیدنوجوان نسل اور مغرب زدہ طبقات میں پذیرائی حاصل کرچکا ہے، اس کی توقع ایک اسلامی معاشرے میں نہیں کی جاسکتی۔ اس کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ مسلم معاشرہ اندر سے اس قدر کھوکھلا ہوگیا ہے کہ اس کی بقا کے لیے وسیع پیمانے پرتحریک چلانے کی ضرورت ہے۔
ویلینٹائن ڈے میں صبح سے رات گئے ایک دوسرے کو پھول دیے جاتے ہیں، پھولوں کی دکانوں پرزبردست رَش رہتا ہے، گل دستوں کی قیمت میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے،سرخ گلاب کی کمی ہو جاتی ہے،ایک دوسرے کو چاکلیٹ اور مٹھائیوں کا پیکٹ بطور محبت پیش کیا جاتا ہے اورایک دوسرے کو ایسے کارڈ پیش کیے جاتے ہیں جس پر یونانیوں کے عقیدے کے مطابق محبت کے خدا’ Cupid‘ کی تصویر بنی ہوتی ہے ،اس کی شکل کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ ایک لڑکا جس کے دو پَر ہوتے ہیں ،اس کے ہاتھ میں تیرا ور کمان ہے اور وہ تیر کو محبوبہ کے دل میں پیوست کر رہا ہے ۔اس دن عہدوپیمان کیے جاتے ہیں، روٹھوںکومنایا جاتا ہے۔کارڈس اور دیگر تحائف کے تبادلے ہوتے ہیں، موبائل پر پیغامات بھیجے جاتے ہیں،اس کے ذریعہ کمپنیاں موٹی رقم کماتی ہیں،انٹر نیٹ کلبوں پر رش رہتا ہے،جنرل اسٹوروں اور کتابوں کی دکانوں پر ’ویلنٹائن کارڈ‘ اس طرح فروخت ہوتے ہیں جس طرح سے عید کے کارڈ فروخت ہوتے ہیں۔ ان اسٹوروں پر ’کیوپڈ‘ کے بڑے بڑے نشانات آویزاں کیے جاتے ہیں اور بعض بڑے ہوٹلوں نے ’ویلنٹائن ڈنر‘ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب کوئی لڑکا کسی لڑکی سے عشق کے معاملے کو حتیٰ الامکان ظاہر نہیں کرتا تھا،کیونکہ اس طرح کا اظہار سخت معیوب سمجھا جاتاتھا اور ایسی حرکت کے مرتکب نوجوانوں کی خوب درگت بنائی جاتی تھی، مگر آج یہ برا وقت بھی آگیا ہے کہ سب کچھ آرام سے ہوتا ہے اور کسی کو اعتراض کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔الا ماشا ءاللہ۔اس سے نوجوان نسل کی ذہنی رجحان کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ایسا کرنے والے مسلمان لڑکے لڑکیاں ،مسلم گھروں ہی کی اولاد یں ہوتی ہیں ،کسی یہودی ،نصرانی یا ہندوؤں کے گھروں کی نہیں۔اس میں جہاں ان کے والدین کی تربیت کی کمی ہے وہیں تعلیم ،تعلیمی ادارے اور اساتذہ کا بھی اہم کردار ہے۔
اسلام کا نظریہ
حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں کی قدم بقدم پیروی کرو گے ،اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم لوگ بھی اس میں داخل ہونے کی کوشش کرو گے۔آپ سے پوچھا گیا کہ پہلی قوم سے آپ کی مراد یہود ونصاریٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا پھر اور کون؟“(بخاری :7320)۔

اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تقلید اور مشابہت اختیار کرنے سے اجتناب کرنے کی دعوت دی ہے۔لیکن بدقسمتی سے امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ اپنے اخلاق و عادات اور رسوم ورواج میں یہود و نصاریٰ کی پیروی کرنے لگا ہے۔ان میں سے ایک ویلینٹائن ڈے منانا بھی ہے جوہمارے لیے کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔کیوں کہ یہ ایک شرکیہ اور بت پرست قوم کا تہوار ہے۔اس کا مرتکب ہونا غیر قوم کی مشابہت اختیار کرنا ہے ا ور اس کو قرآن و حدیث میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ارشادِ ربانی ہے:

ثم جعلنٰک علیٰ شریعة من الامر فاتبعھا و لا تتبع اھواءالذین لا یعلمون(الجاثیة:18)۔
پھر ہم نے آپ کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے۔لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے“۔

ایک حدیث میں آپ نے ارشادفرمایا:
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے“(ابوداؤد:4031)۔

علمائے اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت جائز نہیں ہے اور اگر وہ تہوار شرکیہ امور سے متعلق ہوئے تو اس میں برضا و رغبت شرکت انسان کو کفر اور مر تد کے درجے تک پہنچا دے گی۔امام ابن تیمیہ ؒ نے صراط مستقیم میں اور امام ذہبیؒ نے تشبیہ الخسیس میں اس کاتفصیلی ذکر کیا ہے۔

پھر یہ بھی کہ اس دن جس محبت کا اظہار کیا جاتا ہے وہ عمومی طور پر غیر محرم کے درمیان ہوتا ہے ،خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔شریعت نے اس کو حرام قرار دیا ہے کیوں کہ اس کا نتیجہ زنا ،فحش باتیں اور والدین سے بغاوت کی صورت میں نکلتا ہے اور’کیوپڈ‘ کی تصویر یا اس کا مجسمہ پیش کرنااس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اسے پسند کر رہا ہے تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ کھلا ہو اشرک ہے اور یہ کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہوگا۔
اس لیے ہم سب کو غیر وں کی مشابہت اختیار کرنے اوران کی تہواروں میں شرکت کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ایسا نہیں ہے کہ کسی قوم کی تقلید اور مشابہت اختیار کرنے سے وہ ہمیں اپنی قوم کا سمجھنے لگیں گے اور سر آنکھوں پر بٹھا لیں گے۔کیوں کہ جو اپنے مذہب اور تہذیب و تمدن کا نہ ہوسکا وہ کسی اور کا کیا ہوگا؟ہمیں عزت تب ہی ملے گی جب ہم اپنے دین اور تہذیب و تمدن سے جڑے رہیں گے۔جیسا کہ قرآن کہتا ہے :

وللہ العزة و لرسولہ و للمومنین ولکن المنٰفقین لا یعلمون (المنٰفقون:۸)
اور عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور منافقین کے لیے ہے،مگر یہ منافقین جانتے نہیں ہیں“۔
٭٭٭٭٭



No comments:

Post a Comment