اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر ،جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی
دہلی
جو شخص بھی آپ کی زندگی، آپ کی تعلیمات اور نوع انسانی
کی فلاح کے لیے آپ کی جدو جہد کو دیکھے گا، اس کا دل بے اختیار پکار اٹھے گا کہ آپ
خدا کے سچے رسول اور نوع انسانی کے سب سے بڑے محسن تھے۔اللہ تعالی نے حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر
جوکتاب نازل فرمائی وہ قرآن مجید ہے۔آپ نے اپنے قول وعمل سے اس کی جو تشریح فرمائی
اس کا نام سنت ہے۔ قرآن
و سنت کو اسلام کہا جاتا ہے۔ آپ کا دنیا پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ آپ نے اسے
صحیح عقیدہ اور فکر دیا، اعلیٰ اخلاقی اصول عطا کیے، عدل و انصاف پر مبنی قانون
دیا، پاکیزہ تہذیب اور معاشرت سے روشناس کرایا اور ایک ایسا نظامِ حیات عطا کیا جس
میں انسان کی فلاح اور کام رانی پائی جاتی ہے۔ یہاں آپ کی بعض تعلیمات پیش کی جا
رہی ہیں۔
(ا) انسان کے سامنے ہمیشہ یہ سوال رہا ہے کہ
یہ دنیا کیسے وجود میں آئی؟ کیا یہ یوں ہی چلتی رہے گی یا کسی وقت ختم ہوجائے گی؟
وہ یہاں زندگی کیسے گزارے؟ اس کا کوئی متعین راستہ ہے یا اسے یوں ہی بھٹکنے کے لےے
چھوڑ دیا گیا ہے؟ اس کے صحیح یا غلط اعمال کا فیصلہ کب ہوگا؟ اس کا کوئی نتیجہ
کبھی سامنے آئے گا یا نہیں؟ اس سوال کے ٹھیک جواب سے انسان کی زندگی صحیح رخ پر
چلنے لگتی ہے اور جواب غلط ہوجائے تو اس کی زندگی کا رخ بھی غلط ہوجاتا ہے۔
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
تعلیمات میں اس کا دوٹوک جواب ہمیں ملتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ دنیا خود بہ خود وجود میں
نہیں آئی اور نہ اسے بہت سی ہستیوں نے پیدا کیا ہے، بلکہ اسے ایک خدا نے پیدا کیا
ہے، وہی اسے چلا رہا ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی ہم سر اور شریک نہیں ہے۔ وہی
انسان کا خالق ومالک اور پروردگار ہے۔ اس نے انسانوں کی ہدایت و راہ نمائی کے لےے
اپنے رسول بھیجے۔ جو شخص ان کی اطاعت کرے گا وہ سیدھی راہ پر گام زن رہے گا اور
کام یاب ہوگا اور جو اس سے انحراف کرے گاناکامی اور نا مرادی سے دو چار ہوگا۔ یہ
دنیا، جس میں انسان کو عقیدہ و عمل کی آزادی حاصل ہے، ایک روز ختم ہوجائے گی اور
ایک غیر فانی اور ہمیشہ رہنے والی دنیا وجود میں آئے گی۔ اس وقت ہر فرد اپنے فکر و
عمل کی جزا یا سزا پائے گا۔ جس نے خدا کو مان کر اس کی اطاعت کی راہ اختیار کی
ہوگی اسے وہ بہترین اجر سے نوازے گا اور جس نے اس سے بغاوت اختیار کی ہوگی اسے بد
ترین عذاب سے کوئی چیز بچا نہ سکے گی۔
(۲)اس دنیا میں انسان
خاندانوں، قبیلوں، نسلوںاور قوموں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان کے درمیان اور بھی
اختلافات ہیں۔ یہ اختلافات عزت و ذلت کا معیار سمجھے جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ سارے انسان ایک ہیں، اس لےے
کہ سب ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ ان کے درمیان جو اختلافات ہیں وہ غیر حقیقی
ہیں،وہ عزت و ذلت کا معیار نہیں ہیں۔ اس کامعیار تقویٰ اور خدا ترسی ہے۔ صاحبِ عزت
وہ ہے جو خدا ترس اور اس کے احکام کا پابند ہے۔ آپ نے اللہ تعالی کا یہ پیغام سنایا:
”
اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھارے مختلف خاندان
اور قبیلے بنادےے، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں سب سے زیادہ بزرگ وہ ہے
جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہے۔ اللہ خوب جانتا ہے اور باخبر ہے۔“ (الحجرات: 13)
یہ اس بات کا اعلان ہے کہ دنیا کے کسی بھی انسان کو
رنگ و نسل اور ملک و قوم اور اس قسم کے دوسرے اختلافات کی بنیاد پر برتر یا کم تر
نہیں قرار دیا جائے گا۔ اس طرح کی ہر تفریق ناقابلِ اعتبار اور ناقابلِ قبول
ہے۔
(۳)ہر
طرف انسانی حقوق پامال ہورہے تھے، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کے تصور ہی
سے دنیانا آشنا تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا واضح تصور دیا اور
انسان کی جان، مال اور عزت وآبرو کو قابل احترام قرار دیا۔ہر انسان کوزندہ رہنے کاحق ہے۔
قرآن مجید نے کہا کہ:
” جس نے کسی ایک
انسان کا بھی قتل کیا، جب کہ اس نے نہ تو ناحق کسی کی جان لی ہو اور نہ فساد
کامرتکب ہوا ہو ، تو اس نے گویا روئے زمین کے تمام انسانوں کو قتل کر ڈالا۔“ (
المائدة: 32)
آپ نے بتایا کہ ہر انسان محترم ہے، اس لیے اسے
معاشی دوڑ ڈھوپ اور بہتر زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ اسے ذلت و خواری کی زندگی
بسر کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے اور انھیں
خشکی اور تری پر سواری کی طاقت دی ہے اور پاک چیزوں کی روزی عطا کی ہے اور اپنی بہت
سی مخلوقات پر انھیں فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔“ (بنی اسرائیل:70)
یہ اس امر کی صراحت ہے کہ خشکی سے ، سمندر سے
اور یہاں کی فضاو ¿ں سے
فائدہ اٹھانے اور بہتر زندگی گزارنے کا ہر شخص کو حق ہے۔ اس سے اسے محروم نہیں کیا
جاسکتا۔
(۴)رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سماج کے کم زور افراد اور طبقات پر ظلم و زیادتی سے
منع ہی نہیں فرمایا ، بلکہ ان کے حقوق متعین کرے اور معاشرہ کو ان حقوق کے ادا
کرنے کا پابند بنایا۔
عورتوں
کے متعلق آپ کا ارشاد ہے:
” تم جو کھاو وہ ان کو کھلاو، جو
پہنو ( اس معیار کا) ان کو پہناو ۔ انھیں زد و کوب نہ کرو اور برا بھلا مت
کہو۔“
آپ نے فرمایا:
”
تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنے بیوی بچوں کے حق میں بہتر ہیں۔“ غلاموں، محکوموں
اور زیر دستوں کا کوئی حق ہی نہیں سمجھاجاتا تھا۔ آپ نے فرمایا:
”
وہ تمھارے بھائی ہیں۔ تمھیں چاہےے کہ جو کھاو ان کو بھی وہ کھلاو ، جو پہنو ان کو بھی وہ
پہناو ، ان پر کام کا اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ وہ اسے اٹھا نہ سکیں۔ اگر ان کی طاقت
سے زیادہ کام ہو تو اس کے پورا کرنے میں ان کی مدد کرو۔ “
آپ نے کم زور افراد اور طبقات کے حق میں محض پند
و نصیحت ہی نہیں فرمائی، بلکہ انھیں قانونی حقوق بھی عطا کےے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو تعلیمات پیش کیں ان کا ایک نمونہ یہ ہے:
” تمہارے رب کا فیصلہ ہے تم صرف اس کی
عبادت کرو گے اور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آو گے۔وہ بڑھاپے کو پہنچ
جائیں تو انہیںاف تک نہ کہو، ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو اور ان سے تہذیب و شرافت سے بات کرو۔
ان کے سامنے جذبہ ہمدردی سے جھک کر رہو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو کہ خدایا جس
طرح سے انہوں نے بچپن میں ہماری پرورش کی تو ان پر رحم فرما۔قرابت داروں، مسکینوں
اور مسافروں کے حقوق ادا کرو۔ اسراف سے بچو، اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہوتے
ہیں۔ بروقت ان کی مدد نہ کر سکو تو بھلے طریقے سے معذرت کرلو۔ اگر توقع ہو کہ
آئندہ مدد کر سکوگے (تو مایوس مت کرو)۔اللہ جس کی روزی میں چاہتا ہے وسعت عطا کرتا
ہے اور جسے کم دینا چاہتا ہے کم دیتا ہے۔ وہ بندوں کے حالات سے باخبر ہے۔ اپنی
اولاد کو فقر و فاقہ کے ڈر سے قتل مت کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی
دیں گے۔ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے۔ فحاشی اور بدکاری کے قریب بھی نہ جاﺅ۔ یہ
بے حیائی کا کام اور برا راستہ ہے۔اللہ نے انسان کو محترم قرار دیا ہے، اس لیے اسے
قتل نہ کرو، سوائے اس کے کہ حق و انصاف اس کا تقاضا کرے۔ ناحق اور ظلم کے ساتھ کسی
کی جان لی جائے تو اس کے ولی کو قصاص یا دیت لینے اور معاف کرنے کا حق ہے۔ اس
معاملے میں اس کی مدد کی جائے گی۔ یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاﺅ۔ہاں
احسن طریقہ سے اپنا حقِ خدمت لے سکتے ہو۔ جب وہ سوجھ بوجھ کی عمر کو پہنچ جائے تو
اس کا مال اس کے حوالے کر دو۔ عہد وپیمان کو پورا کرو۔ اس کے بارے میں اللہ کے ہاں
سوال ہوگا۔ناپ تول میں کمی نہ کرو، ناپ کے دو تو پورا پورا دو، وزن کرو تو ترازو
ٹھیک رکھو۔(معاملات میں) یہ طریقہ بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔ جس بات
کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ یاد رکھو!کان، آنکھ، دل، ہر ایک کے بارے
میں اللہ کے ہاںپوچھا جائے گا۔زمین میں اترا کر نہ چلو۔ تم نہ زمین کو شق کر سکتے
ہو اور نہ پہاڑ کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ یہ باتیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں“۔
(بنی اسرائیل:23-39)
قرآن مجید ،جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا،
یہ اس کی تعلیمات کی ایک جھلک ہے۔ ان میں اخلاق اور قانون کا جو حسین امتزاج ہے ،
اس کی کوئی مثال شاید کسی دوسری جگہ نہیں مل سکتی۔
٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment