Sunday, 22 December 2013

(Khutba-e-Juma: Zuban Aor Maqsad) خطبہ جمعہ : زبان اور مقصد



اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی

اسلامی تقویم میں ہفتے کا ساتواں اور آخری دن جمعہ ہے۔جمعہ کی نماز سے پہلے خطبہ دیا جاتا ہے جس کی بہت اہمیت ہے ۔عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ خطبہ نماز کا حصہ ہے۔اس لیے بعض جگہوں پر عربی زبان میں خطبہ دینا ہی لازمی سمجھا جاتا ہے۔دلیل کے طور پر حضرت عائشہؓ سے مروی یہ حدیث لیتے ہیں انما قصرت الجمعة لاجل الخطبة۔
            خطبہ کی وجہ سے ہی جمعہ کی دو رکعت نماز ہے،اور یہ دو رکعت کا قائم مقام ہے۔ اس لیے اس کی حیثیت بھی نماز جیسی ہوئی تو جس طرح سے نماز غیر عربی زبان میں نہیں پڑھ سکتے ویسے ہی خطبہ بھی عربی زبان کے علاوہ دوسری زبان میں نہیں دے سکتے۔لیکن یہ دلیل بے بنیاد ہے کیوں کہ خطبہ نماز کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے نماز جیسی شرائط ہیں۔اس لیے خطبہ عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی دیا جا سکتا ہے ۔
نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں خطبہِ جمعہ کے ذریعہ خوفِ خدا کی تلقین، شریعت کے احکام، اخلاق ، اعمال ، قومی ، ملی اور انفرادی معاملات یعنی زندگی کے تمام شعبوں میں لوگوں کی رہنمائی کی جاتی تھی۔ اس وقت کے جمعہ اور خطبہ کایہ مقصد تھا کہ کم از کم ایک دن مسلمان ایک جگہ جمع ہو ں اور اجتماعیت کا احساس ہو،ایک دوسرے سے تعارف ہو،ایک دوسرے کے مسائل کو جانیں اور دکھ درد میں شریک ہوں،نوجوانوں اور بچوں کے مسائل پر گفتگو ہو،بندوں کے آپسی حقوق ،اخلاق اور ایک دوسرے سے معاملات کرنے میں اسلام نے کیا احکام دیئے ہیں ؟ان کو واضح کیا جائے۔
آج کی طرح کوئی رسم نہیں تھی کہ آئے ،بیٹھے،سنے اور چل دیئے۔اس لیے خطبوں سے وہ مقصد اب حاصل نہیں ہوپارہا ہے جیسا کہ اس کا حق ہے ۔جب کہ جمعہ کا خطبہ عوام تک اپنی بات پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
آج کے دو رمیں ایک معمولی سا جلسہ کرنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے ،اس کا اندازہ ہم سب کو ہے۔لوگوں میں اعلان کرانا، جگہ کا انتظام ،لاڈ اسپیکر،اسٹیج ،کرسیوں اور شامیانوں کا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن جمعہ کے خطبہ کے ذریعہ یہ کام بغیر کسی پریشانی اور خرچ کے کیا جاتا ہے۔اس کی اہمیت اور افادیت کو ہی دیکھتے ہوئے امریکہ کے ریسنٹ کارپوریشن تھنک ٹینک نے جو مسلمانوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے  ۔
اس میں دوسرے نمبر پر ان ”روایتی علماءکرام“ کو رکھا ہے جو اپنی مسجدوں میں قال اللہ و قال الرسول کرتے رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اپنے آپ میں تو خطرہ نہیں ہیں لیکن اگر یہ (پہلے نمبرپر) ”فنڈامنٹلسٹ“ سے مل گئے تو بہت خطرناک ثابت ہوں گے۔ کیوں کہ ان کے پاس مسجد کی شکل میں ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاںسے وہ خطبے کے ذریعہ ہر ہفتے عوام تک اپنی بات بغیر کسی خرچ اور پریشانی کے پہنچا سکتے ہیں۔اس لیے ان لوگوں نے یہ پالیسی بنائی کہ مساجد اور مدرسوں کو ٹارگٹ بنایا جائے اور علماءکرام کے درمیان مذہبی و مسلکی اختلافات کو خوب بڑھاوا دیا جائے اور ایک دوسرے سے دور رکھا جائے تاکہ یہ لوگ عوام الناس میں اسلام کی صحیح اسپرٹ اور روح کو نہ بیدار کر سکیں۔دیکھا جائے تو یہ لوگ اپنے مقصد میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔
آج مسجدیں مذہبی اور مسلکی اعتبار سے بٹ چکی ہیں ،ہر فرقہ ایک دوسرے کی پوری شدت سے مخالفت کرتا ہے اور اسی پر دھواں دار خطبہ دیا جاتا ہے۔یہ ان لوگوں کا عمل ہے جو قرآن وحدیث پر گہرا علم رکھتے ہیں۔اس سے جمعہ کے خطبے کا اصل مقصد تو فوت ہوگیا اور صرف مسلکی لحاظ سے لوگوں کی ذہن سازی ہونے لگی،جس سے عام لوگوں میں بھی بحث و مباحثہ، الزام تراشیوں کاسلسلہ شروع ہوگیا۔
المیہ یہ ہے کہ ہماری قوم میں افراط و تفریط ہی پائی جاتی ہے اوراعتدال کس چڑیا کا نام ہے ،اس سے ہمیں واقفیت نہیں۔بعض جگہوں پر خاص کر گاں دیہات میں خطبہ صرف عربی زبان میں کتاب سے دیکھ کر پڑھ دیا جاتا ہے لیکن اس سے خطبے کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا۔اس لیے کہ لوگوں کی اکثریت عربی زبان سے ناواقف ہے۔
 جہاں اردو زبان میں خطبہ ہوتا ہے وہاں علماءکرام یا خطیب کا موضوع گھوم پھر کر نماز، زکوة، روزہ اور حج وغیرہ ہوا کرتا ہے۔ کیا اسلام صرف یہیں تک محدود ہے؟بلاشبہ ان کی بہت اہمیت ہے لیکن صرف انہیں کو موضوع بنائے رکھنا آخر کہاں کی عقلمندی ہے؟کیا ”حقوق العباد، اخلاق، صفائی و پاکیزگی اور لوگوں سے معاملات“ ہمارے اتنے درست ہیں کہ ان کو خطبے کا موضوع بنانے کی ضرورت نہیں ہے؟؟
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ نوجوان لڑکے لڑکیوں اور بچوں کے اخلاق کا ہے ۔کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل نے ان کی اخلاقی، ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور یہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔اس کا ہمیں آج اندازہ اس لیے نہیں ہو پا رہا ہے کہ ہمارے درمیان بزرگ ابھی موجود ہیں لیکن آنے والے وقت میں جب ان کا خاتمہ ہو جائے گا اور نئی نسل آئے گی تو وہ کیا کرے گی،اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام اور خطیب حضرات کو جدید دور کی ٹکنالوجی اور اس کے اثرات کا علم ہی نہیں ہے (الا ما شاءاللہ)
دوسری خاص بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں کے خطبوں کا معیاراتنا بلند اور علمی ہوتا ہے کہ وہ عام لوگوں کے سر پر سے گذر جاتا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کلاس میں علمی و تحقیقی بحثہو رہی ہو ۔اردو اور عربی کے بھاری بھرکم الفاظوں کا استعمال،اختلافی مسائل کی بحث،خشک اور بے موقع گھسے پٹے موضوعات ۔یہ تو چاول کے چند نمونے ہیں ورنہ عموماً سب کا زور اپنی علمی و تحقیقی صلاحیت کا اظہار کرنے میں ہوتا ہے۔یہ ایسا ہی ہے کہ ایک عالمِ دین اپنے جیسے دوسرے عالم کو دین اور اسلام کی باتیں سمجھائے۔
سوال یہ ہے کہ اگر مقصود اپنی علمی قابلیت کا اظہار کرنا ہے یا اپنے ہی جیسے لوگوں کو سمجھانا ہے تو عام لوگ کہاں جائیں گے؟کیوں کہ جمعہ میں علمائے کرام اور فارغینِ مدارس کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوا کرتی ہے، جنہوں نے مدرسوں سے تعلیم حاصل نہیں کی ہے تو ان کے لیے ان بلند اور علمی معیار کے خطبوں کا سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ یا تو سوتے ہیں یا باتوں اور موبائل سے چیٹنگ میں مصروف ہوتے ہیں اور پھر وہ دین کے احکام و شریعت اورمسئلے مسائل کو جان نہیں پاتے۔
تیسری اہم بات یہ کہ خطبوں میں شاذونادر ہی کوئی سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں اور خرابیوں کی طرف باقاعدہ اشارہ کرتے ہوئے قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی کرتا ہو،جیسا کہ اسوہ نبوی تھا۔آپ ﷺ فرماتے تھے کہ لوگوں کی کیا ہوگیا ہے کہ ایسا ایسا کرنے لگے ہیں؟ اس کے بعد اس میں قرآن و حدیث کی روشنی سے رہنمائی کرتے تھے۔اس طریقے سے عوام کو زیادہ آسانی سے سمجھ میں آتا ہے۔لیکن یہ تب ہوگا جب امامت کے منصب پر حقیقی اور با اثر لوگ فائز ہوں،جس کااب فقدان ہے ۔
بقول مولانا مودودیؒ اب لوگوں میں امامت کا تصور یہ ہے کہ جو شخص دنیا کے کسی اور کام کا نہ ہو،اس کو مسجد کا امام بن جانا چاہیے۔اس کا نتیجہ ہے کہ ایسے لوگ امام بن گئے ہیں جو ”مصلحت، دور اندیشی ، احتیاط“ کے تحت یا متولیانِ مسجد،کمیٹی اور محلے کے لوگوں کی” ناراضگی کے خوف“کی وجہ سے صرف رٹے رٹائے انداز میں قرآن وحدیث کو بیان کرکے تھوڑی بہت تشریح کر دیتے ہیں ۔بقیہ ان کا موجودہ دور میں پھیلی ہوئی برائیوں سے کیا تعلق ہے ،اس کی وضاحت نہیں کرتے۔کیا عام لوگ بھی قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط اپنے سے کر لیں گے؟
مسئلہ یہ بھی ہے کہ متولیانِ مسجد یا کمیٹی کے حضرات ایسے ہی لوگوں کو مسجدوں میں ا مام رکھتے ہیں جن کو معمولی تنخواہ دینا پڑے، لیکن وہ بہترین قاری ہو، مسئلے مسائل پرمکمل عبور رکھتا ہو، محنتی ہو،ایماندار ہو،ساتھ ہی سادگی پسند ہو، بہت ہی معمولی اس کی ضروریات اورخواہشات ہوںاور سب سے بڑھ کر ان کی ہاں میں ہاں ملانے والا ہو۔
ظاہر ہے اس پیمانے پر کس طرح کے لوگ پورا اتر سکتے ہیں ،اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اسی طرح کے اماموں کو دیکھ کر علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا!
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت  کیا ہے
اس کو کیا جانیں بے چارے دو رکعت کے امام
ضرورت اس بات کی ہے کہ امامت کے منصب پر ایسے لوگ آئیں جو خطبوں میں مختلف موضوعات کا احاطہ کریں اور ساتھ ہی ساتھ جدید دور میں پیش آنے والے مسائل اور برائیوں کی وضاحت کرتے ہوئے ، اس میں قرآن و حدیث کے مطابق رہنمائی کریں اور یہ کہ اندازِ بیاں اسلوب عام و خواص کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اختیار کریں تاکہ ہر طرح کے لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔
آخری بات یہ کہ خطبہ دیتے وقت آواز مناسب رکھنی چاہیے۔اکثر دیکھا جاتا ہے کہ خطیب حضرات جوش میں آستین چڑھائے ،منہ سے کف اڑاتے ہوئے اور چیختے دھاڑتے خطبہ دیتے ہیں،خصوصاً جب بات دوسرے مسلک یا فرقے کی ہو۔سمجھ میں نہیں آتا مسجد میں بیٹھے لوگوں کا سنانا مقصود ہے یا ایک دو کلومیٹر میں موجود ہر ذی روح کو؟قرآن نے اسی طرح کی آوازوں کو گدھے کی آواز کے مشابہ قرار دیا ہے۔ارشاد ہے :
واقصد مشیک و اغضض من صوتک ان انکر الاصوات لصوت الحمیر(لقمان:19)
اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر، اور اپنی آواز پست کر یقینا آوازوں میں سب سے بد ترآواز گدھوں کی آواز ہے
  اس لیے خطیب کو چاہیے کہ مناسب آواز کا استعمال کرے اور چیخنے چنگھاڑنے کے بجائے مواد پر توجہ دے۔اس سے سامعین زیادہ مستفید ہو سکیں گے۔



No comments:

Post a Comment