اسامہ شعیب علیگ
ریسرچ اسکالر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی
جہیز ہندو تہذیب کی ایک تباہ کن رسم ہے
جسے “وردشنہ” کہا
جاتا ہے ، جس میں لڑکی والے لڑکے والے کو رقم دیتے ہیں ۔اس کا آغاز “ویدک
دور” سے ہی
ہوگیا تھا۔ “پاروتی” کے
والد نے “شیو
جی” کو
جہیز میں غلام، لونڈیوں، گھوڑیوں،ہاتھیوں، رتھ، کپڑوں اور ہیرے جواہرات کے علاوہ
دوسری بہت سی چیزیں بیل گاڑیوں میں بھر کے دیا تھااوریہ وراثت کے متبادل کے طور پر
تھا، کیونکہ ان کے یہاں لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا تو اس کے ذریعہ اس
کمی کو پورا کر دیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے مسلمانوں نے بھی اس رسم کو
اپنا لیاہے۔ جب کہ اسلام میں لڑکیوں کے لیے وراثت میں حصہ طے ہے، لہٰذا جہیز کی ہر
طرح سے حوصلہ شکنی کی گئی۔اب یہ تو ذہنی خرابی ہی کہلائے گی کہ باپ بڑھ چڑھ کر
بیٹی کو جہیز دیتا ہے اور بھائی اپنا “فرض” ادا
کرنے کے لیے حیثیت سے بڑھ کر اس کاانتظام کرتا ہے لیکن وہی باپ اس کی فکر نہیں
کرتا کہ میرے بعد ترکہ میں سے بیٹی کو بھی حصہ دیا جائے اور نہ ہی بھائی وراثت میں
سے بہن کو حصہ دینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
شریعت نے جس چیز کو فرض کیا ہے ،اس کو ترک
کر دیاگیا اور جس کا کوئی حکم نہیں دیا ہے ، اس کو تمام فرائض میں سے سب سے بڑا
فرض سمجھاجاتا ہے۔صرف اس وجہ سے کہ ترکے میں حصہ نہ دینا پڑے اور شادی ہی میں کچھ
دے دلا کر رخصت کردیاجائے ۔لیکن یاد رہے کہ لڑکی جس طرح اپنی شادی سے پہلے گھر
والوں کے لیے بیٹی اور بہن تھی ،اسی طرح شادی کے بعد بھی رہے گی بلکہ یہ تو زندگی
بھر کا معاملہ ہے ۔اس لیے جس طرح شادی سے پہلے اس کا خیال رکھا جاتا تھا ویسے ہی
حسب ِ استطاعت شادی بعد بھی رکھنا ہوگا۔
موجودہ دور میں جو چیزیں لڑکیوں کی شادی
کے معاملے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ،ان میں سرِ فہرست جہیز کی رسم ہے۔اس نے نہ جانے
کتنی لڑکیوں اور ان کے والدین کو نگل لیا ، کتنی ہی گھر بیٹھی زندگی گذار رہی
ہیں،کتنی ہی غلط راہوں پر چل نکلیں،کتنوں نے صرف اس وجہ سے پیار و محبت کی پیش کش
کو قبول کر لیا کہ اسی بہانے بغیر جہیز دیئے شاد ی ہو جائے گی اور نہ جانے کتنی
لڑکیاں اس کی وجہ سے ہسٹریاکی مریض بن گئیں۔
یہ صحیح ہے کہ لڑکے کے گھر والے ہی جہیز
کا مطالبہ کرتے ہیں مگر لڑکی کے گھر والے بھی “انا و عزت” کا مسئلہ
بنا کر بارات کا تقاضا کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی خواہش رکھتے
ہیں۔اگر کبھی کسی لڑکے نے دینی جذبے سے جہیز لینے سے انکار کر دیا تو کہہ دیا جاتا
ہے کہ ضرور اس میں کوئی کمی ہے ،اسی وجہ سے اتنی “دینداری” دکھا
رہا ہے۔
نیشنل کرائم برانچ کی رپورٹ کے مطابق 2012میں جہیز کی وجہ سے کل8233 عورتوں کو مار ڈالا گیا۔ اس میں
اترپردیش 2244کےساتھ سرِ فہرست رہااور
جنوری 2001سے دسمبر2012 تک ہندوستان میں 3,12000 عورتیں اس کی وجہ
سے جان سے مار دی گئیں۔ جن میں سے صرف84013 کیس درج کئے گئے ،بقیہ تفتیش سے پہلے یا
بعد میں واپس لے لیے گئے اوراس وقت جہیز کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان تنازع کے84000 مقدمات زیرِ سماعت ہیں ۔یوپی میں ہر سال2000 ، بہار میں1000 اور دہلی میں1582 عورتیں جہیز کی وجہ سے مار ڈالی جاتی
ہیں۔تازہ سروے بتاتا ہے کہ ہندوستان میں ہر ایک گھنٹے میں ایک عورت جہیز کا شکار
ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جن پر
ایف آئی آر لکھوائی گئی ہے۔ورنہ نہ جانے کتنے گاﺅں ،دیہات اور شہر
میں ایسے کیسز ہوئے ہوں گے، جو پولس تک نہیں آنے دیئے گئے ہوں گے ۔ بہت سے کیسوں
میں توعورتیں خود ہی والدین کی بدنامی یا کورٹ کچہری اور سسرال والو ں کے دباﺅ میں پیچھے ہٹ
جاتی ہیں۔
ان
اعداد و شمار سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال کیا ہے۔ آج کسی
کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اس کا منہ بن جاتا ہے اور اس کی ساری خوشی کافور
ہو جاتی ہے۔یہ اس لیے نہیں ہوتی کہ اس کو اپنی بیٹی سے محبت نہیں یا جاہلی دور کے عربوں کی طرح اسے “انا
اور خودداری” کی
وجہ سے کسی کا داماد کہلانا پسند نہیں یا اس نے یہ حدیث نہیں سنی کہ جس نے دو
بیٹیوں کی اچھی پرورش کی تو وہ اس کے لیے جہنم سے ڈھال بن جائیں گی یا یہ کہ وہ ان
کی پرورش ہی نہیں کر سکتا بلکہ وہ صرف اس بات سے دکھی ہوجاتا ہے کہ اس کی شادی کے
لیے لڑکے کی جو “بولی” لگے
گی تو میں اتنی دولت کہاں سے لاﺅں گا
؟؟اسی لیے اگر لڑکا پیدا ہوتا ہے تو والدین سوچتے ہیں کہ چلو اب تو 20 یا 30 لاکھ “محفوظ” ہوگئے
۔
موجودہ دور میں انسانی تجارت کی ایک شکل
ایسی بھی ہے جو سماج کے “مہذب لوگوں” میں
رائج ہے ۔ جس میں انسان اپنے بیٹوں کو فروخت کرتا ہے اور اس وقت اس کی آنکھوں میں
آنسوﺅں کے بجائے خوشی
ہوتی ہے۔یہ ایک ایسی عجیب وغریب منڈی ہے جہاں اہلِ دانش،اصحابِ ثروت اور اعلیٰ
ترین عہدوں پرفائز لوگ اپنے اپنے لڑکوں کا “سودا” لے کر
آتے ہیں اور ان کی تعلیم، شکل و صورت، مستقبل کے سنہرے امکانات وغیرہ کے ذریعہ “بولی” لگاتے
ہیں پھر قیمت مختلف شکلوں میں جیسے “کیش،
قیمتی سامانوں، گاڑیوں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں” میں کھانا کھانے کی شکل میں وصول کرتے ہیں۔
اگر کوئی اپنی قیمت لڑکی کے گھر والوں سے
وصول کرتا ہے تو اس سے زیادہ ذلیل حرکت ہو سکتی ہے؟قیمت تو جانوروں کی لگائی جاتی
ہے، مردوں کی نہیں۔ قرآن کریم نے مردوں کا درجہ اس وجہ سے بلند رکھا
ہے کہ وہ خرچ کرتے ہیں:
بما فضل اللہ بعضھم علی بعض و بما انفقوا من اموالھم(النساء:187)
“کیوں
کہ اللہ تعالی نے خود ہی ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے علاوہ ازیں مردوں نے
عورتوں پر اپنے مال خرچ کیے ہیں”
اورایک حدیث میں نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:
الید العلیا خیر من الید السفلیٰ(بخاری:1427)
“اونچا
ہاتھ(دینے والا ہاتھ) نچلے (لینے والے ہاتھ)سے بہتر ہے”
لیکن
اگر شوہر بیوی کے گھر والوں سے الٹا لے تو وہ کیسے بیوی سے بلند رتبہ اور عزت والا
ہو سکتا ہے؟اسی کا نتیجہ ہے کہ آج تقریباً سبھی اپنی بیوی یا بہو سے نالاں ہیں کہ
وہ ان کی عزت نہیں کرتی ، محبت نہیں کرتی یا نافرمانی کرتی ہے۔پھر اس کو “راہِ
راست” پر
لانے کے لیے تعویذاور دعا کا سہارا لیا جاتا ہے۔مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ جب آپ “بولی” میں
بک چکے اور آپ کے والدین نے آپ کو بیچ دیا ، بیوی اور اس کے گھر والوں نے آپ کو
خرید لیا تو اب وہ آپ کی بات بھلا کیوں اور کس لیے مانے گی؟اور آپ کی مرضی و خواہش
کے مطابق کیوں رہے گی؟
دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ نے بیوی کے
والدین کی پرواہ نہ کی ، ان کی حیثیت سے بڑھ کر جہیز مانگا، جس کی وجہ سے وہ قرض
دار ہو گئے اور تکلیفیں اٹھا رہے ہیں تو اب آپ اس سے یہ کیوں امید رکھ رہے ہیں کہ
وہ آپ اور آپ کے والدین کا احترام کرے گی اور خوش رکھے گی؟یہ تو ناممکن ہے۔ایسا تو
تب ہوگاجب آپ اس کو اور اس کے والدین کو جہیز یا دوسرے مطالبات کے ذریعہ تکلیف نہ
دیتے تو وہ بھی آپ کے والدین کواپنا سمجھتی ،بیٹی بن کر رہتی اور خدمت کرتی ۔
سب سے زیادہ افسوس لڑکے کے والدین اوران
کے دوسرے قریبی اعزہ و اقارب پر ہوتا ہے کہ یہی لوگ سارے مطالبات پیش کرتے ہیں جب
کہ بہو جو سامان لاتی ہے ،اس سے ان لوگوں کی کم ہی نفع پہنچتا ہے (اعزہ و اقارب کو
تو وہ بھی نہیں )لیکن لالچ میں ماں باپ بڑھاپے میں بھی،جو توبہ استغفار کا وقت
ہوتا ہے ، دوزخ کی آگ اور اللہ تعالی کی لعنت کو بصدِ شوق خرید لیتے ہیں۔
بعض “دین دار لوگ” جہیز
لینے میں بھی حیلے بہانے نکال لیتے ہیں ۔ یہ وہ طبقہ ہے جو “دین
پر گہرا علم” رکھتاہے۔ایسے
لوگ نکاح کی تقریب مسجدوںاور دینی مجلسوں میں رکھتے ہیں اور بڑے بڑے علمائے کرام
سے نکاح پڑھواتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ جہیز کے سخت مخالف ہیں اور سادگی کا مکمل
نمونہ پیش کر رہے ہیں مگر اندر ہی اندر لین دین طے کر لیا جاتا ہے اور شادی سے
کافی پہلے یا بعد میں جہیز گھر میں آجاتا ہے ۔یاد رہے کہ ایسا کر کے یہ لوگ دو
گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ایک جہیز لینے سے اور دوسرے نفاق اور گناہ
پر ظاہری نیکی کی چادر اڑھانے سے ، یقیناً جو کھلی ہوئی بے دینی سے بھی زیادہ
مذموم اور ناپسندیدہ ہے بلکہ اس کاشمار توریاکاری میں ہوگاجو شرک کی ایک قسم
ہے۔جہیز مانگنا چاہے صراحتاً ہو یا اشارةً، براہِ راست ہو یا بالواسطہ حرام ہے۔فقہاءنے
ایک اصول مقرر کیا ہے کہ:
“جو
چیز بطورِ شرط نہ پیش کی جائے ، لیکن عرف ورواج کے تحت لی جائے تو وہ بھی شرط
لگانے کے ہی درجہ میں ہوگا“ ۔
اگر مسنون طریقے سے آپ لڑکی کو بہو بنا کر
لائیں گے تو وہ اور اس کے گھر والے بھی احسان مند ہوں گے۔لڑکی سسرال والوں کو اپنا
محسن تصور کرے گی۔وہ یہ سمجھے گی کہ اپنے ہی دوسرے گھر میں آئی ہے لیکن اگر آپ
جہیز کے لیے اسے اور اس کے گھر والوں کو تکلیف دے کر لاتے ہیں، تو اس میں نفرت اور
خودغرضی کے جذبات رہیں گے۔یہ تو فطری بات ہے ۔جیسے اگر آپ کوکوئی دس روپئے کا
معمولی قلم ہی تحفہ میں دے تو آپ کے اندر اس کے لیے محبت کا جذبہ پیدا ہوگا لیکن
اگر آپ وہی قلم اپنے پیسے سے خریدیں گے تو آپ دوکاندار کے شکرگذار نہیں ہوں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں میں جہیز اور
دوسری رسومات کے خلاف مہم چلائی جائے۔باقاعدہ ہر گاﺅں میں اس کے لیے کمیٹیاں قائم ہوں اور یہ کوئی
مشکل کام نہیں ہے ۔جب مسلمانوں کی بے سر پیر سیاسی پارٹیاں ہر گلی کوچے میں بن سکتی ہیں تو کیا یہ کام نہیں ہو
سکتا؟ ؟اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے سامنے قولی نہیں ، عملی نمونہ پیش کیا
جائے۔عموماًلوگ بیٹیوں کے معاملے میں تو شریعت یاد رکھتے ہیں لیکن جب بیٹوں کی
شادی کرتے ہیں تو اس کو پشِ پشت ڈال دیتے ہیں۔
جہیزکی مخالفت میں دو طبقے اہم کردار ادا
کریں گے:
پہلا طبقہ علماءکرام کا ہے کہ وہ ایسی
تقریبات میں نکاح نہ پڑھائیں اورنہ ہی ایسی تقریبات میں شرکت کریں جہاں غیر شرعی
رسومات ہو رہی ہوں اور خود بھی اس کا عملی نمونہ پیش کریں ۔ دوسرا طبقہ ان صاحبِ
مال کا ہے جو فضول خرچی اور اسراف پر قادر ہوں لیکن وہ سادگی کا نمونہ پیش کریں
تاکہ عام لوگوں کو بھی اس کا حوصلہ ملے اور عمل کرنا آسان ہو۔
ہمارے
معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ لڑکی کی شادی کرتے وقت یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ ڈولی
میں گئی ہے تو اب اس کا جنازہ ہی وہاں سے نکلے گا ۔بڑے بوڑھے یہی سکھا کر بھیجتے
ہیں ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ%70
عورتیں جلا دی جاتی ہیں تو بھی وہ اپنے شوہر کو بچانے میں لگی رہتی ہیں۔والدین کو
چاہیے کہ اس سوچ کو بدلیں اور بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں کہ ضرورت پڑنے پر وہ
اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں۔یہ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ زندگی بھر جانتے بوجھتے
سسرال میں ظلم و ستم سہتی رہیں۔
*****
No comments:
Post a Comment