Wednesday, 30 November 2016

(Women's Education :Problems & Solutions in The Light of Quran & Sunnah) تعلیم نسواں :مسائل اور امکانات ( قرآن و سنت کی روشنی میں)


ہر قوم کی تعمیر و ترقی کا انحصار اس کی تعلیم پر ہوتا ہے۔ تعلیم ہی قوم کے احساس وشعور کو نکھارتی ہے اور نئی نسل کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم اور اس کے نونہالوں کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کرنے، خصائل فاضلہ وشمائلِ جمیلہ سے مزین کرنے اورصالح نشوونمامیں اس قوم کی خواتین کا کرداراہم بلکہ مرکزی اور اساسی ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جہاں ایک طرف تحصیلِ علم پر خصوصی زور دیا ہے،وہیں دوسری طرف اس نے اس میں مرداور عورت کے درمیان تفریق نہیں کی اور اسے دونوں کے لیے یکساں ولازمی قرار دیا ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ۔(1)
’’
ان سے پوچھو! کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟۔‘‘
احادیث میں بھی علم کی فضیلت کثرت سے بیان کی گئی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔(2)
’’
ہر مسلمان پر خواہ وہ مرد یاعورت علم حاصل کرنا فرض ہے۔
‘‘  قرآن وحدیث سے واضح ہوتا ہے کہ معاشرے کی تشکیل صرف مرد تک ہی محدود نہیں بلکہ عورت بھی اس میں برابر کی حقدار ہے۔ عورت پر گھریلو ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے لیے امور خانہ داری کے علاوہ دنیا کے باقی کام ممنوع ہیں، بلکہ خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد وہ اپنے ذوق اور رجحان کے لحاظ سے علمی‘ ادبی اور اصلاحی کاموں میں حصہ لے سکتی ہے۔ ایک مسلمان عورت ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئر،عالمہ،مورخہ،شاعرہ، ادیبہ اور محققہ وغیرہ سب کچھ ہوسکتی ہے،کیوں کہ یہ اس کا پیدائشی ورثہ ہے۔ سورۃ علق میں مرد وعورت کی تفریق کیے بنا واضح کیا گیاکہ اسلام کا تصوّر علم بڑا وسیع ہے اوراس میں وہ سارے علوم شامل ہیں جو انسانیت کے لیے نفع مند ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں بھی سب کو تدبر و تفکر کی دعوت دی گئی ۔خود آپؐنے خواتین کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ فرمائی اور سورۃ البقرۃ کی آیات کے متعلق فرمایا:
’’
تم خود بھی ان کو سیکھو اور اپنی خواتین کو بھی سکھاؤ۔‘‘(3)
اسی طرح آپ ؐ وفود کو بھی نصیحت فرماتے کہ:
’’
تم اپنے گھروں میں واپس جاؤ، اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو، ان کو دین کی تعلیم دو اور ان سے احکامِ دینی پر عمل کراؤ۔‘‘(4)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہفتہ میں ایک دن صرف خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے مخصوص کیاتھا۔ اس دن خواتین آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور آپؐ سے مختلف قسم کے سوالات اور روزمرہ مسائل کا حل پوچھتیں۔ اس کے علاوہ آپ ؐ نے امہات المؤمنین کو بھی حکم دے رکھا تھا کہ وہ خواتین کو دینی مسائل سے آگاہ کیا کریں۔ابتدائی دورِ اسلام میں پانچ خواتین لکھنا پڑھنا جانتی تھیں : امّ کلثومؓ ، عائشہ بنت سعدؓ، مریم بنت مقدادؓ،شفا. بنت عبد اللہؓ اورامّ المؤمنین حضرت عائشہؓ ۔حضرت شفا.ؓنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر حضرت حفصہؓ کو کتابت سکھائی تھی۔نبی کریم ؐ کی اس توجہات کا نتیجہ تھا کہ تمام اسلامی علوم و فنون مثلاً تفسیر،حدیث ، فقہ و فتاویٰ ، خطابت ، شاعری اور طب وجراحت میں بہت سی صحابیات نے کمال حاصل کیا۔(5)
عہدِ نبوی کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں بھی خواتین کی تعلیم و تربیت کی طرف بھرپور توجہ دی گئی۔ حضرت عمرؓبن خطاب نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کردیا تھا :
علّموا نساؤکم سورۃ النور۔ (6)
’’
اپنی خواتین کو سورۃ النور ضرور سکھاؤ کہ اس میں خانگی و معاشرتی زندگی کے متعلق بہت سے مسائل اوراَحکام موجود ہیں۔‘‘ اسلام میں خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ کے باوجود بھی ہندوستان میں مسلم خواتین تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے نظر آتی ہیں اوران کی شرحِ تعلیم بہت ہی کم ہے۔ 2011. میں آبادی کے اعداد و شمار (Census 2011)کے مطابق :
ہندوستان کی شرح خواندگی 74.04 فیصد ہے،جس میں مردوں کاتناسب 82.14 فیصد اور عورتوں کا 65.46 فیصد ہے۔اس میں مسلمانوں کی شرح خواندگی کا تناسب67.06 فیصد ہے۔(7)جب کہ جسٹس راجندر پرساد کی نگرانی میں تیار کی گئی سچر کمیٹی کی رپورٹ (نومبر2006.) کے مطابق:
ہندوستان کی شرح خواندگی قومی سطح پر 65 فیصدہے جس میں مردوں کا تناسب75.03 فیصداورعورتوں کا 53.07 فیصد ہے۔ مسلمانوں کی شرح خواندگی قومی سطح پر59.01 فیصد ہے،جو6.02 فیصد قومی شرح خواندگی سے کم ہے۔شہری علاقوں میں مسلمانوں کی شرح خواندگی 68 فیصد،دیہی علاقوں میں 50فیصد اور عورتوں کی شرح خواندگی 59 فیصدہے ۔قومی سطح پر مسلم طالبات کا جائزہ لیا جائے تو وہ تحتانوی(ابتدائی) درجے میں 35 فیصد شریک ہوتی ہیں،وسطانوی یعنی مڈل اسکول کے درجہ تک 50 فیصد ڈراپ آوٹ ہو جاتی ہیں اور جب وہ میٹرک تک پہنچتی ہیں تو 10 فیصدرہ جاتی ہیں اور ہائر سکنڈری درجہ تک پہنچتے پہنچتے ان کا فیصدصرف 3 رہ جاتا ہے۔گریجوٹ اور پوسٹ گریجوٹ کی بات کی جائے تومسلمانوں میں صرف 6.3 فیصد گریجوٹ ہیں اور سرٹیفکیٹ اور ڈپلوما مکمل کر نے والوں کی تعداد صرف 4.0 فیصد ہے۔پوسٹ گریجوٹ کورس میں مسلمانوں کی تعداد 4 فیصد ہے۔ اسی طرح پی ایچ ڈی میں مسلم طلبہ کی تعداد (جس میں طالبات کے فیصد میں اضافہ ہوا ہے) 5.4 فیصد ہے ۔ (8)
اس رپورٹ سے مسلم خواتین کی تعلیمی صورتِ حال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اگر اس کی وجوہ پر غور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ تعلیم نسواں کی پسماندگی میں مختلف مذہبی،نفسیاتی، سماجی و اخلاقی اقدار اور معاشی عناصر کارفرما ہیں۔ 
مسلمانوں کی معاشی کمزوری 
مجموعی طور پرمسلمان معاشی لحاظ سے کم زور ہیں،اس کی وجہ سے وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم سے دور رکھتے ہیں۔وہ بیٹوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اوربیٹیوں کو سے گھریلو کام کاج میں لگائے رہتے ہیں۔والدین کے ذہن میں بیٹی کی شادی ،جہیز اور دیگرمصارف کا تصور بھی ہوتا ہے، اس لیے وہ اس کی تعلیم پر خرچ کرنے سے بچتے ہیں اور انہیں بس ابتدائی دینی تعلیم تک ہی محدودرکھتے ہیں۔انہیں ایک خیال یہ بھی ہوتا ہے کہ بیٹیوں سے نہ تو جاب کرانی ہے اور نہ ان کی کمائی کا کھانا ہے ،اس لیے انہیں اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
مسلم علاقوں میں اسکول اور ہاسٹل کی کمی
مسلم علاقوں میں حکومت کی بے اعتنائی اور بے توجہی کی وجہ سے اچھے اور سرکاری اسکولوں،کالجوں وغیرہ کی کمی ہے اور والدین معاشی مسائل کی وجہ سے پرائیوٹ اسکولوں اور کالجوں میں داخلہ نہیں دلاتے۔ اگرلڑکیوں کوتعلیم کے حصول کے لیے گھر سے دور بھیجا جائے تو اس میں بھی معاشی مسائل ،ہاسٹل کی کمی،عدم تحفظ جیسے مسائل سامنے آتے ہیں۔وہ اس خوف سے کہ کہیں ان کی بیٹیوں کی عصمت و عفت یا پاکیزگی پر کوئی الزام نہ آجائے، اس بات کو زیادہ مناسب سمجھتے ہیں کہ انہیں گھر کی چہار دیواری میں محفوظ رکھا جائے۔ 
مخلوط تعلیمی نظام
موجودہ دور میں ہندوستان کے زیادہ تر اعلیٰ تعلیمی ادارے، خواہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری، مخلوط تعلیمی نظام رکھتے ہیں۔اس کی ایک تاریخ رہی ہے ۔اقوامِ متحدہ نے 1948ئمیں ایک چارٹر تیار کیا ،جس میں جنس کی بنیاد پر عدمِ تفریق پر زور دیا گیا اور عورت کومرد کے برابر کے ’حقوق‘ دینے کی بات کہی گئی۔ (9)
اس چارٹرکا بنیادی مقصدپوری دنیا میں خاص کر مسلم ممالک میں مخلوط تعلیم کوفروغ دینا ، نصابِ تعلیم میں مساوات کو ملحوظ رکھنا، جنسی تعلیم و تربیت دینااورخاندان کا مغربی مفہوم رائج کرنا تھا،یعنی فرد ہی اصل ہے اور اس کے مفادات و خواہشات ہی معیار ہیں، اس لیے دین ، قوم، خاندان، رسم و رواج سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے، تاکہ عورت اتنی ’آزاد اورباختیار‘ ہو جائے کہ والدین،بھائی اور شوہر کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ’رکاوٹ ‘نہ رہے اور وہ نکاح،طلاق اور ملازمت کے مسائل خود ہی حل کر لے۔اس کے علاوہ زندگی کے ہر میدان جیسے تعلیم، گھریلو کام کاج، بچوں کی دیکھ بھال اوروراثت وغیر ہ میں مطلقاً مساواتِ مردوزن ہو۔(10)
مقصد کی تکمیل کے لیے یہ پالیسی طے کی گئی کہ تمام اداروں اور این جی اوز کو باقاعدہ لاکھوں ڈالر کی مدد دی جائے اور مخالفت کرنے والے ممالک کو قدامت پسند اور وقیانوسی قرار دیا جائے اور ان پر معاشی پابندی لگا دی جائے،ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ان کے خلاف پروپگنڈا کیا جائے،تا کہ وہ بھی اس کے آگے ہتھیار ڈال دیں۔ آغاز میں ہی مسلم مفکرین و دانشوروں نے خواتین کو مغربی تعلیم کے زہریلے اثرات سے بچانے کی بہت کوشش کی۔مغربی تعلیم نسواں کے حامیوں کی روش پر اقبالؒ اپنے کرب وبے چینی کا اظہاریوں کرتے ہیں: 
’’
معاشرتی اصلاح کے نوجوان مبلغ یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تعلیم کے چند جرعے مسلم خاتون کے تنِ مردہ میں نئی جان ڈال دیں گے اور وہ اپنی ردائے کہنہ کو پارہ پارہ کردے گی۔ شاید یہ بات درست ہو، لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ اپنے آپ کو برہنہ پاکراسے ایک مرتبہ پھر اپنا جسم ان نوجوان مبلغوں کی نگاہوں سے چھپانا پڑے گا۔‘‘(11)
مسلم خواتین کو تعلیم سے دوررکھنے میں ’مخلوط تعلیمی نظام ‘اہم کردار رہا ہے۔ اگر مسلمان اس نظام کی وجہ سے اپنی بچیوں کو اسکول،کالجز اور یونیورسٹیوں میں نہیں بھیجنا چاہتے تو غیر مخلوط نظامِ تعلیم کا انتظام کیوں نہیں کیا جاتا؟ مسلمان ایک قوم ہیں، ان کی اپنی ایک تہذیب ہے، اس تہذیب کی بقا کے لیے وہ ایک غیرمخلوط نظام تعلیم کا آئینی مطالبہ کیوں نہیں کرسکتے؟مختلف ملکی و ملی تنظیموں نے مسلم لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے گرلس اسکول اور کالج وغیرہ کھولنے کے لیے کوششیں کی ہیں، لیکن ان میں سے کم ہی کو منظوری ملی۔غیر مخلوط تعلیم آئینی طور پر کیوں غلط ہے؟ اگر سچر کمیٹی اور دیگر رپوٹس کے ذریعہ مسلم تعلیمِ نسواں کی حالت زار وزارتِ تعلیم کے سامنے واضح ہوچکی ہے تو اس کے لیے وہ زمینی سطح پرعملی اقدام کیوں نہیں کرتی ؟
مسلم معاشرہ میں غیر اعتدال پسندی
مسلم سماج میں صنفِ نازک کے حوالے سے افراط و تفریط کا عالم ہے ۔ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ عورت کا مرد کے شانہ بشانہ چلنا ہی اس کی اصل آزادی ہے۔عوتوں اور مردوں کے مابین میل جول کو روکنا یا دونوں کے میدان کارکو علاحدہ کرنا، ان پر صریح ظلم اور حقوق انسانی کے خلاف ہے۔ ان لوگوں نے مساوات کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ عمل میں مساوات ہو ،حالاں کہ مردو عورت کے درمیان عمل میں مساوات نہیں،بلکہ حیثیت میں مساوات ہے، کہ دونوں یکساں عزت و احترام اور اخلاقی سلوک کے لائق ہیں۔
دوسرے طبقے کا زعم یہ ہے کہ عورت کی حیثیت صرف یہ ہے کہ اسے گھر کی چہار دیواری میں اس طرح محصور کردیا جائے کہ ان کا تعلق خانہ داری امور کے علاوہ کسی اور چیز سے نہ ہو، حتی کہ انہیں مردوں کی طرح علم سے آراستہ کرنا بھی مناسب نہیں۔ ان کے خیال میں عورتوں کو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ وہ پڑھیں لکھیں اور اپنے روشن مستقبل کی تعمیر کریں۔ 
جب کہ قرآن وحدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام ان دونوں کے درمیان اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ نہ تو عورتوں کو بالکل بے محابا میدان عمل میں آنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ان کو قید کرتا ہے ،بلکہ ان کی صنفی نزاکت کا لحاظ رکھتے ہوئے قیود و شرائط کے ساتھ انہیں وہ تمام علوم حاصل کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتا ہے جن کی انہیں دنیوی یا اخروی اعتبار سے ضرورت ہے۔
مسلم خواتین کے لیے علوم کا حصول اور معاشی جد وجہد
مسلم خواتین دینی تعلیم کے جملہ مضامین کے علاوہ امورخانہ داری، بچوں کی دیکھ بھال اورتعلیم و تربیت کے حوالے سے کام آنے والے مختلف علوم حاصل کر سکتی ہیں۔یہ بات اگرچہ درست ہے کہ اسلام عورتوں پر معاشی جدوجہد کی ذمہ داری عائد نہیں کرتا، لیکن یہ ان کے لیے کلیۃً ممنوع بھی نہیں ہے،بلکہ بعض حالات میں اسے پسند کیا گیا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔عہد نبوی میں صحابیات رضی اللہ عنہن کی سیرت کا بغور مطالعہ کرنے سے مختلف شعبۂ جات (کاشت کاری،خیاطت،صنعت وحرفت،طبابت و جراحت اور تجارت وغیرہ)سامنے آتے ہیں جن میں کام کرتے ہوئے نہ صرف وہ سلیقہ شعار گھریلو خواتین(House Wife) ثابت ہوئیں بلکہ باکردار و باصفا پروفیشنل خواتین Professional Ladies) (کی حیثیت سے معاشرہ کی کامیاب رکن رہیں۔(12)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی صنعت وحرفت سے واقف تھیں اور اس کے ذریعے اپنے خاوند اور بچوں کے اخراجات بھی پورے کرتی تھیں۔ ایک دن انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا :
’’
میں ایک کاریگر عورت ہوں،چیزیں تیار کر کے فروخت کرتی ہوں، میرے شوہر اور بچوں کاکوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے،ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔کیا میں ان پر خرچ کرسکتی ہوں؟آپؐ نے جواب دیا : ہاں اور تم کو اس کا اجر ملے گا۔‘‘ (13)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کو ایسے علوم حاصل کرنے چاہییں جن میں سند لینے کے بعد اگروہ معاشی جدوجہد کرنا چاہیں تو اس کے لیے مخلوط ماحول میں کام کرنا ضروری نہ ہو،جیسے موجودہ دور میں خواتین کے لیے درس و تدریس ،ترجمہ، صحافت،ویب ڈیزائننگ، زراعت، کرافٹ اور طباعت کا شعبہ بھی بہت مفید ثابت ہو رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے ان کے لیے دیگرکئی ایسے شعبوں کے دروازے بھی کھول دیے ہیں جن میں وہ مہارت حاصل کر کے گھر بیٹھے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعہ روزی کما سکتی ہیں۔ کم پڑھی لکھی خواتین بھی سلائی کڑھائی،دستکاری اور مختلف پکوان کی تربیت حاصل کر کے معاشرے میں اپنا مقام بنا سکتی ہیں۔
تعلیم نسواں کے حقائق ومسائل کی طرف اشارہ کرنے کے بعد چند تجاویز رکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے جس سے مسلم عورتوں کی شرح خواندگی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر کوشش کرنی ہوگی۔
*
شرح خواندگی کوفاصلاتی نظام تعلیم اور پرائیوٹ تعلیم کے ذریعہ بڑھایا جاسکتا ہے۔اس کے لیے حکومت نے یوجی سی (University Grants Commission) کی ماتحتی میں مختلف ریاستوں میں مرکزی اور ریاستی سطح پریونیورسٹیاں قائم کی ہیں۔جیسے اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی،دہلی،ارجن سنگھ سینٹر،دہلی اور ڈاکٹربی آرامبیڈکر اوپن یونیورسٹی،حیدرآباد وغیرہ ۔بعض یونیورسٹیوں میں پرائیوٹ تعلیم بھی ہے کہ طالبات گھر پر تیاری کرتے ہوئے سال میں ایک بار امتحان دے کر ڈگری حاصل کر سکتی ہیں۔جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ، جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی،دہلی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد وغیرہ۔(14)
*
تعلیمِ بالغان کے ذریعہ بھی مسلم خواتین کی تعلیمی شرح میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔1956. میں حکومت کی طرف سے’تعلیم بالغان‘کو این ایف ای ایس(National Fundamental Education Centre)کے تحت قائم کیا گیا۔1961. میں اسے ’شعبہ تعلیم بالغان‘ کا نام دیا گیااور این سی ای آرٹی کا حصہ بنا دیا گیا۔فی الحال اب یہ Department of School Education & Literacy, Ministry of Human Resource Development, Govt. of India.کے تحت کام کر رہا ہے۔اس کا مقصد ایسے خواتین کو بنیادی تعلیم دینا ہے جو کسی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکیں اور اب وہ اپنی عمر اور مصروفیات کی وجہ سے بھی باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں۔
*
مختلف ملی وملکی تنظیموں اور اسکولوں کی طرف سے تعلیمی پروگرام،مہم اور کیمپ وغیرہ کے انعقاد سے والدین اورطالبات میں تعلیمی بیداری لائی جا سکتی ہے۔ انہیں قرآن و حدیث اور دنیاوی فوائد کے حوالے سے تعلیم کے اثرات سے واقف کرایا جائے۔
*
والدین کوسوشل میڈیااور جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے حکومت،این جی اوزاور فلاحی اداروں کی طرف سے دی جانے والی مختلف تعلیمی امداد، اسکیموں اوراسکالرشپ وغیرہ سے واقف کرایا جائے،تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور اپنی بچیوں کو مشکل حالات میں بھی تعلیم دلا سکیں،جیسے سکشا سہیوگ یوجنا(Shiksha Sahayog Yojana)،سروسکشاابھیان(Sarva Shiksha Abhiyan)،ساکشر بھارت(Saakshar Bharat)،کنّیاساکشرتاپرُتساہن یوجنا(Kanya Saaksharta Protsahan Yojna) اورکستوربا گاندھی بالیکاودّیالیہ یوجنا(Kasturba Gandhi Balika Vidyalaya Yojna) وغیرہ۔(15)
*
سرکاری اور غیر سرکاری ریٹائرڈ پروفیسرحضرات،معلمات اور فارغاتِ مدارس ذاتی انسٹی ٹیوٹ اوراکیڈمی قائم کر یں،جن سے آس پاس کی طالبات استفادہ کر یں۔ 

****
حواشی و حوالہ جات

(۱) سورة الزمر:9
(2)ابن ماجہ:224
(3) سنن دارمی:933
(4)صحیح بخاری: 36
(5)بلاذری:انساب الاشراف
(6) الدر المنثور:5/81
(7)http://www.census2011.co.in/literacy.php
(8)http://mhrd.gov.in/sites/upload_files/mhrd/files/sachar_comm.pdf, p.p49-84
(9)www.un.org/arabic/aboutun/charter
(10)حقوق الانسان فی الاسلام:محمد الزحیلی،ص:392
(11)شذراتِ فکر اقبال،ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال،مجلس ترقی ادب،لاہور،طبع دوم،1983ء،ص148
 (12)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوطبقات ابن سعداورالاصابہ فی تمییز الصحابہ وغیرہ
(13)طبقات ابن سعد، 8/212
(14)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ، http://www.university.careers360.com/articles/list-of-approved-distance-education-universities-in-india

(15)http://www.speakingtree.in/blog/top-5-government-education-scheme

Saturday, 12 November 2016

(میرے پیارے دادا جان!مفتی محمد ظہور ندویؒ ) My Grandfather: Maulana Mufti Zahoor Nadvi

جن شخصیات نے میرے فکر و رجحان پرغیر معمولی اثرات قائم کیے ان میں سب اہم میرے دادا جان،مفتی محمد ظہور ندوی مرحوم (2016ء۔1927ء) تھے،جو اب اس دنیا میں نہیں رہے،لیکن ان کی یادیں اور مشفقانہ نصیحتیں میرے ساتھ ہیں جو میرے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا دادا جان کو ہمیشہ مربی اورمحسن کی شکل میں اپنے ساتھ پایا۔ اگرچہ مجھے ان کے ساتھ رہنے کا موقع تعلیم کی وجہ سے بہت زیادہ تو نہیں مل سکا لیکن مختلف تعطیلات میں ضرور دادا جان کے ساتھ رہا اور ان کی ہر ممکن خدمت انجام دی۔دادا جان کی طویل خدمت کی سعادت محمد مسلم (نواسے)کے حصہ میں آئی جو ان کے پاس ہی ہمہ وقت رہتے اور ہر طرح کا خیال رکھتے تھے۔اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کا بہترین اجر انہیں دے ۔
امسال بھی عیدالاضحیٰ کے موقع پر میں مع والدین دادا جان کے ساتھ تھااور ان کی خدمت کرنے کے ساتھ ان کی شفقت ومحبت ، مخصوص انداز میں پر لطف باتوں،علمی و دینی گفتگو سے مستفید ہونے کے بعد ان کی دعاؤں کے ساتھ دہلی واپس آگیا تھا کیوں کہ دادا جان کی صحت پیرانہ سالی کے باوجود ایسی خراب نہیں تھی کہ کوئی اندیشہ یا تردد لاحق ہوتایا یہ اندازہ ہوتا کہ یہ میری دادا جان سے آخری ملاقات ہے،لیکن زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں،جس کا جو وقت مقرر ہے اس میں اسے دنیا سے رخصت ہو ہی جانا ہے۔ہمارے اندازے ہمیشہ ساتھ نہیں دیتے چناں چہ 25؍ستمبر2016ء کو فجر کے وقت میرے پھوپھی زاد بھائی محمد عمیر کا لکھنؤسے فون آتا ہے کہ ناناجان اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔اناللہ وانا الیہ راجعون ۔ میری نگاہوں کے سامنے بچپن سے لے کر اب تک کے دادا جان کے ساتھ گذرے لمحات منٹوں میں گھومتے چلے گئے۔دادا جان کے ساتھ گزرے اوقات اوران کے نواسے نواسیوں سے گفتگو کی مدد سے میں نے دادا جان کی شخصیت کے مختلف پہلؤوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔
مختصر تعارف زندگی
دادا جان 1927ء میں مبارک پور،سکٹھی(اعظم گڑھ ،یوپی)کے ایک زمین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے والدماجد کا نام محمد عبدالستاربن خان محمد خان تھااور والدہ محترمہ کا نام صابرہ خاتون تھا۔والد محترم ممتاز فارسی داں اور علاقے کے بڑے زمین داروں میں سے تھے اس لیے گھر میں علاقے کے سماجی مسائل بھی عدل و انصاف کے ساتھ حل کیے جاتے تھے۔ایسے ماحول میں آپ کی پرورش ہوئی۔آپ دو بھائی (محمد ظہور ندوی،محمد شمس الدین )اور چار بہن(سائرہ خاتون،حمیرہ خاتون،شاکرہ خاتون اور ماجدہ خاتون) تھے۔
داداجان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ ریاض العلوم،سکٹھی میں ہوئی ۔اس کے بعد انہوں نے مبارک پور کے مدرسہ احیاء العلوم میں داخلہ لیا اور روایت کے مطابق شرح جامی و شرح تہذیب کی درسِ نظامی کے مطابق تعلیم حاصل کی ۔1944ء میں آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء تشریف لائے اور یہاں کے مختلف مشہور اساتذہ سے کسبِ فیض حاصل کیا۔معقولات کی تعلیم مولانا ابوالعرفان خان ندویؒ سے اورابوداؤدو ترمذی شریف مولانا اسحٰق سندیلویؒ سے پڑھی۔دیگر مشہور اساتذہ میں شاہ حلیم عطا صاحبؒ اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ وغیرہ ہیں۔
دادا جان کی شخصیت کو پروان چڑھانے میں دارالعلوم کے مفتی حضرت مولاناسعیدؒ صاحب (برادر نسبتی،مفتی ظہور ندوی)کا اہم کردار رہا۔مفتی سعید صاحب مفتی شبلی جیراج پوری ؒ کے نواسے تھے ۔اس طرح دادا جان کے انتقال سے اعظم گڑھ کے ایک معزز خاندان کی تین نسلوں کے علمی و فقہی سفر کا خاتمہ ہوگیا۔ مفتی سعید صاحب کی نگرانی وسرپرستی میں انہوں نے فقہ کے قدیم و جدید ماخذ ومصادر کا استفادہ کیااور اپنی غیر معمولی صلاحیت کی وجہ سے علم و فقہ کے میدان میں نمایاں اور ممتاز رہے۔آپ 1952ء میں درس و تدریس کی خدمت پر مامور ہوئے ۔مولانا کو ائمہ اربعہ اور دیگر فقہاء کے فتاوی زبان زد تھے اور علوم شرعیہ پر کمال کا عبور حاصل تھا۔ ان کے بارے میں ایک عام تاثر یہی تھا کہ انہیں ہدایہ،اس کی شرح فتح القدیر،کنز الدقائق،بحر الرائق اورد رالمختار جیسی کتابیں حفظ ہیں۔ دورانِ تدریس طلبہ اگر غلط عبارت پڑھتے تو آپ آنکھیں بند کیے ہی اس کی تصحیح فرما دیتے تھے۔انہیں غیر معمولی صلاحیتوں کی بناپر آپ کو1956ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے منصب افتاء پر فائز کیا گیااور آخری عمر تک دار الافتاء اور دارالقضاء کے صدر رہے۔بروقت سائل کو مستند جواب دینا اور اسے مطمئن کرناان کی خصوصیت تھی۔طلبہ اور عوام آپ کو ’چلتے پھرتے مفتی‘ کہا کرتے تھے۔دارالعلوم،ندوہ کے اساتذہ بھی مشکل اور پیچیدہ مسائل میں آپ سے رجوع کرتے تھے۔آپ کے زیر نگرانی ’فتاوی ندوۃ العلماء‘ کی تین جلدیں مکمل ہوئیں۔آپ کے سیکڑوں نمایاں شاگرد ہیں جن میں جناب ابوطفیل ندوی، ڈاکٹر اجتباء ندوی،مولانا ناصر علی ندوی اور مولانا سید سلمان الحسینی ندوی جیسے علم کے آفتاب شامل ہیں۔
دادا جان نے اپنی پوری زندگی دارالعلوم، ندوۃ العلماء ،لکھنؤ کے لیے وقف کر دی۔ندوہ نے بھی آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی پوری قدر کی اور ان کو وہ احترام و مرتبہ دیا جو شاید ہی کسی ادارے میں کسی کو ملے۔ان کا شمار ندوہ کے اعلیٰ ترین شخصیات میں ہوتا تھا۔اگرچہ آپ بطور مفتی زیادہ مشہور ہوئے لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ نے بہت سی انتظامی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔آپ ندوہ کے نائب مہتمم،نائب ناظم،سینئر استاذ،نگران اعلیٰ اور شعبہ تعمیر و ترقی کے بھی ذمہ دار رہے۔ اس طرح سے آپ بیک وقت کام یاب مدرس،اعلیٰ درجہ کے مدبر و منتظم اور بے مثال فقیہ تھے۔ 
دادا جان کی شادی 1946ء میں دادی( محترمہ عائشہ مرحومہ) سے ہوئی،جن سے چار بیٹے(محمد طفیل(مرحوم)،مولانا محمدسہیل ندوی و مدنی،مولانا محمد شعیب ندوی و مدنی ،مولانا محمد زہیر ندوی )اورچار بیٹیاں(محترمہ سیدہ،محترمہ عطیہ مرحومہ،محترمہ فریدہ اور محترمہ ترنم صاحبہ) ہیں۔داداکی نماز جنازہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی مدنی،ناظم ندوۃ العلماء نے پڑھائی اوربعد نماز عصر ڈالی گنج قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
دادا جان کی امتیازی خصوصیات
دادا جان کی زندگی دنیا سے بے رغبتی کے ساتھ خلوص و للٰہیت کے زیور سے آراستہ تھی۔اس کا اثر آپ کے لباس و غذا پربھی رہا۔لباس کا معیار اوسط سے بھی کم تھا،معمولی کپڑے کا کرتا اور پائجامہ زیادہ تر بنا پریس کا پہنتے جس کے اوپر صدری ہوا کرتی تھی ۔خاص مواقع پر شیروانی زیب تن کرتے تھے۔سادگی کا یہ عالم تھا کہ بظاہر دیکھ کرلوگوں کو انہیں پہلی ملاقات میں پہچاننے میں بھی مشکل ہوتی تھی۔ایک دلچسپ واقعہ دادا جان کی نواسی حمنہ حسن نے مجھے بتایاکہ ایک مرتبہ کوئی صاحب فتویٰ لینے ناناجان کے گھر آئے اور ان سے ہی پوچھا کہ مفتی ظہورندوی صاحب کہاں ہیں؟ان سے کام ہے۔ناناجان نے جواب دیا کہ جی فرمائیں کیا کام ہے؟انہوں نے ناناجان کو اوپرسے نیچے تک دیکھا اور کہا کہ یہ میں ان کو ہی بتاؤں گا آپ برائے مہربانی انہیں بلادیں۔تب ناناجان نے کہا کہ میں ہی مفتی ظہور ندوی ہوں تو وہ صاحب انہیں بہت حیرت و تعجب سے دیکھنے لگے اور پھر شرمندہ ہو کر بولے معاف کیجئے گا میں آپ کی سادگی کی وجہ سے آپ کوپہچان نہیں سکا تھا۔
داداجان کی دنیا سے بے رغبتی اور قناعت کا یہ عالم تھا کہ کبھی انہوں نے اپنے تعلقات کا استعمال دنیاوی چیزوں کے لیے نہیں کیا۔میں نے بارہا دیکھا کہ دادا جان سے ملاقات کے لیے آنے والے عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد ایسی رہی جو بہت بڑے عہدوں پر فائز ہیں لیکن دادا جان نے ان سے اپنے کسی ذاتی فائدے کی گفتگو نہیں کی۔ ایسے ہی غذا میں کوئی تکلف یا اہتمام نہ تھا،جو مل گیااس پر اپنے مخصوص جملے ’ہاں ٹھیک ہے‘،’بہتر ہے‘کہہ کرصبر و شکر کے ساتھ کھا لیاکرتے تھے۔آپ نے کبھی آسائش و راحت کی زندگی گزارنے کی نہ تو خواہش کی اور نہ ہی کوشش کی۔
دادا جان بہت ہی شفیق ،نرم دل اور سب کا خیال رکھنے والے نسان تھے۔مجھے نہیں یاد کہ انہوں نے مجھے یا اپنے نواسے نواسیوں کو ڈانٹا یا مارا ہو ۔غصے پر قابو پالینا آپ کو بخوبی آتا تھا۔ابھی جب ان سے میری آخری ملاقات ہوئی تھی تو ایک بار دادا جان اپنے کمرے میں تھے اور کسی ضرورت سے انہوں نے مجھے کئی بار آوازیں دیں،باہر ہونے کی وجہ سے میں سن نہیں سکا۔پھر جب میں اندر آیا تومجھے دادا جان کا چہرہ غصہ سے سرخ نظر آیا،لیکن جب انہوں نے میری طرف رخ کیا تو وہ بالکل نارمل ہو چکے تھے اور ذرا بھی غصہ نہ ہوئے۔دادا جان کی نرمی و شفقت کے باوجود بھی ہم تمام کزنس پر دادا جان کا احترام اور رعب غالب تھا۔مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہم لوگ دادا جان کے باہری کمرے (شبلی ہاسٹل،کمرہ نمبر 2)میں ان کی غیر موجودگی میں کھیلا کرتے تھے،ایک بار دورانِ کھیل کرسی کا ایک پایا ٹوٹ گیا۔دادا جان کے خوف سے ہم سب پریشان تھے۔آخر میں مشورہ کے ساتھ طے پایا کہ کرسی کو ندوہ کے بڑھئی کے پاس لے چلا جائے اور داداجان کے نام کا ’استعمال‘کرکے صحیح کرا لیا جائے،کسی کو کانوں کان نہ خبر ہوگی۔پھر اسی ’مشورے‘ پر عمل کیا گیا۔ایسے ہی داداجان کے عقیدت مند ان کے لیے اپنے ساتھ مختلف تحفے لایاکرتے تھے ،جنھیں ہم کزنس (اپنے بچپن میں )باہر ہی آرام سے کھا پی کر ختم کر دیتے تھے،پھر آپسی لڑائی کی وجہ سے ہم میں سے کوئی دادا جان سے شکایت ’داغ‘ دیا کرتا تھا، لیکن دادا جان نے کبھی ڈانٹا یا مارا نہیں ،بس ہنستے ہوئے اتنا کہتے تھے کہ تم لوگ کم از کم بتا تو دیا کرو کہ کون لایا ہے؟ 
دادا جان کی شفقت و محبت صرف گھر والوں ہی کے ساتھ نہ تھی،بلکہ وہ طلبہ کو بھی اسی طرح مانا کرتے تھے۔ابھی بقرعید میں جب میں ان کے پاس تھا تو نماز کے لیے جاتے وقت ہاسٹل کے سامنے کسی طالب علم کا لحاف باہرزمین پر دکھاجو بارش سے بھیگ چکا تھا ۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ اسے اٹھا کر دھوپ میں رکھ دو ،شاید کسی طالب علم کا رہ گیا ہے۔اسی وجہ سے طلبہ آپ سے بے حد لگاؤ رکھتے تھے اور مشکل حالات میں آپ کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لیے آتے تھے۔
دادا جان بہت ہی زیرک،خوش مزاج اور حاضر جواب تھے۔آپ کے مختلف واقعات مجھے اکثر فارغینِ ندوہ نے سنائے ہیں۔ڈاکٹر نسیم اخترندوی،شعبہ عربی،جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی نے ایک واقعہ مجھے سنایاکہ ایک بار مفتی صاحب ’گرم پاجامہ‘ میں تھے توایک طالب علم کو شرارت سوجھی اور اس نے مفتی صاحب سے کہا کہ مولانا !علماء کا شرعی لباس کیا ہے؟آپ نے فرمایا: ’’علماء کرام جو پہن لیں وہی ان کا شرعی لباس ہے۔‘‘ایسے ہی داداجان نے مجھے ایک بار دورانِ گفتگو ہنستے ہوئے بتایا کہ ایک طالب علم ان کے پاس چھٹی لینے آیاکہ اس کی بہن کی شادی ہے۔مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بہانا کر رہا ہے تو میں نے اس سے روانی میں پوچھا کہ کتنے لوگ بارات میں جائیں گے؟اس نے کہا دو سو پچاس (250)پھر اسے احساس ہوا کہ اس نے کیا بول دیا ہے تو وہ ہنستے ہوئے چلا گیا۔
داداجان انتہائی متقی،پرہیز گار اور دین دار تھے اور وہ ان خوبیوں کو اپنے پوتے ،پوتیوں ،نواسے اور نواسیوں میں بھی دیکھنا چاہتے تھے۔مجھے حفصہ حسن اور مسلمہ ابوسعد (نواسیاں،مفتی ظہور ندوی)نے بتایا کہ ناناجان ہم لوگوں کو برابرنماز،توبہ واستغفار اور اسلامی اخلاق و کردار اختیار کرنے کی تلقین کرتے تھے اورمختلف سبق آموز کہانیاں انہیں یاد ہوا کرتی تھیں جنھیں وہ مناسب موقع پر تربیت کے لیے پرلطف انداز میں سنایا کرتے تھے۔دادا جان کی زندگی وکردارکے یہ وہ کچھ تابناک نقوش ہیں جنہیں میں نے یادداشت کے ذریعہ ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے ، ان کی غلطیوں سے چشم پوشی کرے اورانہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین۔
****